دھند میں سفر


مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا، دھند بہت ہے۔ اس گہری دھند میں صاف نظر آنے کی خواہش سے میری آنکھوں نے پھٹ جانا ہے، میری بینائی چلی جائے گی، میں نے اندھا ہوجانا ہے۔ لیکن جب دھند میں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تو بھلا اور اندھا ہونا کسے کہتے ہیں؟ شاید میں اندھا ہو چکا ہوں میں اپنی بینائی کھو چکا ہوں۔

میرے دھند زدہ ہم وطنوں میں سے اسی فی صد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، جن کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے ان کے لیے بھی آنے والے سالوں میں پانی کا قحط آنے والا ہے، میں نے اپنی نسلوں کو پیا سا نہیں مرنے دینا، ایسا ہونے دیا تو مجھ میں اور یزید میں کیا فرق رہ جائے گا، مجھے کچھ کرنا ہے، لیکن میں کیا کروں میرے ہر طرف دھند کا راج ہے۔ میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں، دھند ہی دھند ہے، ہر طرف دھند!

یہ ظالم دھند مجھے، میرے بچوں کو بھوکا مار دے گی، میرے پڑوسی دس فی صد تک سے ترقی کر رہے ہیں جب کہ یہاں ترقی معکوس ہو رہی ہے، یہ دھند چھٹے کچھ نظر آنا شروع ہو تو میں نے اپنے کارخانے چلانے ہیں، اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اناج کی نئی قسمیں دریافت کرنی ہیں، اپنے کھیتوں تک پانی پہنچانا ہے۔ میرے کتنے کام اس دھند کی وجہ سے ادھورے پڑے ہیں، سب کو مکمل کرنا ہے، لیکن وقت بہت کم ہے اور دھند ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

مرے خدایا یہ دھند کب چھٹے گی، میرے بچوں کی نوکری کا سوال ہے، بے روزگاری نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں، دو تہائی، نہیں نہیں تین چوتھائی آبادی سطح غربت کے نیچے سانس لے رہی ہے۔ نہیں نہیں سانس نہیں لے رہی سلگ رہی ہے، گھروں میں فاقے پڑے ہیں اور اوپر سے اس قدر دھند کے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ دھند نہیں ہے، عذاب ہے عذاب!

تمہیں یہ فکر کے تم سے دھند میں میرے ووٹ کی گنتی نہیں ہو پا رہی، بھلے لوگو اس دھند کی وجہ سے پچھلے ستر سال سے میرا سفر رکا ہوا ہے۔ تمام ٹرینیں رک گئی ہیں، جہاز اڑنا بند ہو چکے ہیں۔ عدالتیں بند ہیں، بے چینی ہے، گھٹا ٹوپ اندھیرے کے بند دھند۔ دھند کے بعد پھر اندھیرا، تنگ آ گیا ہوں میں اس چکر سے۔ اس ملگجی صبح میں میں ایک قدم آگے نہیں بڑھا پا رہا۔ میں جامد ہو چکا ہوں، پتھر کا بن کر پتھر کے زمانے میں جا چکا ہوں، اجالا کب ہوگا۔ دھند کب چھٹے گی؟ اماوس کی تاریک رات کی صبح کب ہوگی؟ سورج کب طلوع ہوگا؟ امید کی کرن کب پھوٹے گی؟

یہ داغ داغ اجالا۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل۔ (فیض)

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments