روٹی والی


بھرے جسم اور گھنگھریالے بالوں والی وہ عورت اکثر امی سے دوا لینے آتی تھی۔ امی سے ہی سنا تھا بیچاری کچھ دن پہلے بیوہ ہوئی ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ پتا نہیں امی اس سے فیس لیتی تھیں یا نہیں لیکن بات کرتے ہوئے ہمیشہ اس کے نام کے ساتھ بیچاری ضرور لگاتی تھیں۔ مجھے بھی دل ہی دل میں اس پر ترس آنے لگا۔ وجہ مجھے معلوم نہیں تھی مگر میں جب بھی اسے دیکھتی بیوہ کا لفظ میرے دماغ میں گھومنے لگتا۔ وہ اکثر اپنے کسی نہ کسی بچے کو ساتھ لاتی تھی اور وہ بھی اسی کی طرح بد رنگ میلے کچیلے کپڑوں میں ہوتے تھے۔

سردی میں بھی کبھی ننگے پاؤں اور کبھی قینچی والی چپل میں۔ قینچی والی چپل ان کی پھٹی ہوئی جلد کو چھپا نہ پاتی۔ سردی سے اکڑے پیر میری آنکھوں میں چبھنے لگتے ، میرا دل کرتا ان کو اپنے کینوس شوز دے دوں جو مجھے چھوٹے ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر خیال آتا وہ امی نے شاید چھوٹی بہن کے لیے رکھے ہیں ، اگر میں نے اس کو دے دیے تو شاید امی ابو ناراض ہوں گے۔ الماری کھول کر سویٹر ڈھونڈتی ، اگر کوئی نظر بھی آتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ چپکے سے دے دیتی۔

آج سوچتی ہوں کاش دے دیے ہوتے تو اس کے بچوں کی سردی تھوڑی دیر کو تو رک جاتی۔ میں بزدل ہی رہی ہمیشہ، دل کے صندوق میں خواہشیں دفناتے دفناتے قبرستان بنا لیا ، اب تو شاید ہڈیاں بھی مٹی ہو گئیں ہوں لیکن کبھی کبھی ان کے لاشے زندہ ہو کر میرے سامنے ناچنے لگتے ہیں۔ انہی میں سے ایک لاشہ اس عورت کا بھی ہے۔

بھرے جسم اور گھنگھریالے بالوں والی وہ عورت ایک دن اچانک وہ بیوہ سے روٹی والی عورت بن گئی۔ امی کے پاس بہت خوش خوش آئی کہنے لگی باجی میں نے روٹی بنانے کا کام شروع کیا ہے ، آپ اب روٹی مجھ سے بنوا لیا کریں۔ اپنا آٹا بھیج کر۔ امی سن کر خوش ہوئیں اور اسے شاباش دینے لگیں کہ تم نے بہت اچھا کیا روزی کا ذریعہ ڈھونڈ لیا۔ روٹی والی بہت خوش تھی۔ امی نے کہا ٹھیک ہے ، میں کل سے تم سے ہی روٹی بنوا لیا کروں گی۔ اب تقریباً روزانہ ہی ہمارے گھر کی روٹی اس عورت کی گھر سے آنے لگی۔

ہاتھ کی نرم، پتلی اور گول گول روٹیاں اکثر میں ہی لے کر آتی۔ گھر کا بڑا بچہ اکثر بہت ہی بڑا ہو جاتا ہے۔ میں بھی وہی بڑا بچہ تھی۔ میں کسی چھوٹی بہن کا ہاتھ تھامتی اور آٹے کا برتن اٹھائے اس کے گھر پہنچ جاتی۔ اس کے گھر میں سوائے صحن میں رکھے ایک چولہے، دو تین برتنوں اور ایک ٹوٹی چارپائی کے سوا مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔ شاید کمرے میں کوئی سامان ہو صندوق وغیرہ لیکن میں اس طرف کبھی نہیں گئی۔ میں صحن میں کھڑی رہتی اور وہ جلدی جلدی مجھے روٹی بنا دیتی۔

میں غور سے دیکھتی رہتی وہ کیسے پیڑا بناتی ہے کیسے ہاتھ سے ہی بیل لیتی ہے اور جلدی جلدی دونوں ہاتھوں کی تالیوں میں اسے اتنی تیزی سے پھیلاتی ہے کہ پلک جھپکتے ہی پیڑا روٹی بن جاتا ہے۔ مجھے اسے دیکھنے میں مزہ آنے لگا ، میں سکون سے دیکھتی رہتی۔ اس کے بچے صحن میں ہی کھیل رہے ہوتے تھے۔ مجھے اکثر کہتی بیٹا بیٹھ جاؤ چارپائی پر مگر میں کھڑی رہتی ، کبھی کبھی سوچتی اسے کہوں مجھے بنانے دو روٹی مجھے اچھا لگتا ہے یہ ایسے پیڑا بنانا اور پھیلانا مگر میں کہہ نہیں سکی کیونکہ مجھے آگ سے ڈر لگتا تھا۔ میری عمر شاید سات یا آٹھ سال ہو گی یا شاید کچھ اوپر نیچے ، ٹھیک سے یاد نہیں مگر وہ صحن، وہ چولہا اور وہ عورت آج بھی وہیں بیٹھی ہے میرے دماغ کے کسی زندان خانے میں۔ روٹی والی عورت!

ایک دن میں اس کے گھر گئی تو وہاں چولہے کے ساتھ آٹے کے دس دس کلو والے تھیلے بھی رکھے تھے ، مجھے کہنے لگی امی کو بتانا اب آٹا بھی ہے میرے پاس ، اب روٹی ہی لے لیا کرو ، گھر سے اپنا آٹا لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں امی کو بتا دوں گی۔ اگلی بار امی نے بس پیسے دیے اور میں روٹی لینے پہنچ گئی۔ یہ مجھے زیادہ اچھا لگا نہ گھر سے برتن لانا پڑا نہ کچھ اور بس ایک دسترخوان اٹھایا اور شاید ایک مومی لفافہ اور دس روپے کا نوٹ لیے اس کے گھر پہنچ جاتی۔

اس کے پاس سفید آٹا تھا اور مجھے سفید آٹے کی روٹی بہت پسند تھی ، پتلی پتلی رومالی روٹیاں جن پر آگ سے سکائی کے چھوٹے چھوٹے لال لال نشان ہوتے۔ مجھے اور بھی اچھا لگنے لگا۔ ہمارے گھر تو لال آٹے کی روٹی بنتی تھی جو امی بناتی تو نرم اور پھولی ہوئی موٹی موٹی ہوتیں لیکن اگر امی مریضوں کے پاس ہوتیں اور وہی روٹی ماسی سکینہ بناتی تو وہ روٹی بہت بڑی ہو جاتی سخت بھی اور اس کے لال نشان بڑے اور سیاہ ہو جاتے۔ مجھے ماسی سکینہ پسند تھی مگر اس کے ہاتھ کی بنی روٹی نہیں۔

میں ماسی سکینہ سے کہتی تم نہ بناؤ روٹی ، میں روٹیاں روٹی والی سے لے آؤں گی۔ وہ کہتی ”نہیں میں بنا لیساں“ مجھے سمجھ نہ آتا اسے کیسے منع کروں۔ ایک ہی بہانہ دماغ میں آتا کہ اسے کہوں تم امی کو دبا دو، وہ تھکی ہوئی ہیں۔ کبھی وہ مان جاتی کبھی مجھے بچہ سمجھ کر بہلا دیتی۔ اسے کیا پتا بڑا بچہ، کبھی بچہ نہیں ہوتا وہ صرف بڑا ہوتا ہے۔ خیر ماسی سکینہ مجھے اس لیے بھی پسند تھی کہ وہ امی کو بہت اچھا دباتی تھی۔ حالانکہ وہ روٹی والی عورت کی طرح جوان نہیں تھی بلکہ جوان بیٹوں کی ماں تھی لیکن اس عمر میں بھی وہ امی کو اتنا اچھا دباتی تھی کہ ڈیلیوری کیس کی ساری تھکن اتار دیتی اور امی کو ایک دم تر و تازہ کر دیتی۔ اس لیے مجھے ماسی سکینہ اچھی لگتی تھی۔ وہ میری ماں کو آرام دینے والی عورت تھی۔ گھر گھر کام کرنے والی، محنت کرنے والی شریف عورت۔

ایک دن میں روٹی لینے روٹی والی کے گھر گئی تو اس کے گھر کے باہر رکشہ کھڑا تھا۔ گھر کا دروازہ حسب معمول کھلا تھا ، میں نے آواز دی ”آنٹی روٹی چاہیے“ وہ سامنے ہی کھڑی تھی کہنے لگی ہاں بیٹا بنی رکھی ہے روٹی ، یہ لے لو یا گرم چاہیے تو میں بنا دیتی ہوں ۔ تھوڑا انتظار کرو نیا آٹا ابھی گوندھا ہے ، ذرا ٹھہر جائے تو بناتی ہوں۔ جواب دینے سے پہلے میں نے چارپائی پر ایک آدمی کو بیٹھے دیکھا ۔ وہ عجیب سا آدمی تھا۔ موٹا سا بڑی بڑی آنکھوں اور مونچھوں والا۔

میرے منہ سے نکلا آپ رکھی ہوئی روٹیاں دے دیں مجھے جلدی ہے ، امی انتظار کر رہی ہیں۔ وہ بولی ہاں یہ لو یہ بھی گرم ہی ہیں ، ابھی کچھ دیر پہلے بنائیں ہیں۔ آج روٹی والی آنٹی اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ خوشی خوشی اس نے مجھے روٹی دی اور پیسے لیے۔ آج بھی اس کے بچے ٹھنڈے فرش پر ننگے پاؤں کھیل رہے تھے۔ چھوٹا بچہ زمین سے چیزیں اٹھا اٹھا کر منہ میں ڈال رہا تھا اور حسب معمول رال ٹپکا رہا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا پہلے جیسا بس آج گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہو چکا تھا۔ میں روٹیاں لے کر واپس آ گئی۔ اب اکثر میں روٹی لینے جاتی تو وہ آدمی گھر پر ہی ہوتا۔ میں دروازے پر کھڑی روٹی پکنے کا انتظار کرتی اور لفافے میں روٹی ڈال کر گھر آ جاتی۔ آنٹی اچھی عورت تھی محنت کرنے والی، محنتی عورت۔

سردی بڑھ رہی تھی فرش ٹھنڈا ہوتا جاتا تھا مگر بچوں کو ٹھنڈ نہیں لگتی شاید وہ گرم کپڑوں سے بے نیاز ٹھنڈے فرش پر کھیلتے رہتے۔ بڑی بچی چار یا پانچ سال کی ہو گی۔ مجھ سے چھوٹی تھی ، وہ اکثر میرے جانے پر مجھے مسکرا کر دیکھتی اور شرماتی تھی۔ اس کے بال بھی گھنگھریالے تھے ماں کی طرح۔ مجھے وہ بچی اچھی لگتی تھی ، معصوم سی شرمیلی سی۔ چھوٹے بہن بھائیوں کو گود میں اٹھائے سنبھالتی چھوٹی سی ماں لگتی تھی۔ اب مجھے اس آدمی کو وہاں دیکھنے کی عادت ہو گئی ، وہ کبھی بیٹھا ہوتا کبھی چارپائی پر لیٹا ہوتا، کبھی سو رہا ہوتا وہیں صحن میں پڑی چارپائی پر۔

میں دروازے پر کھڑی کھڑی روٹیاں لیے گھر آ جاتی۔ آہستہ آہستہ روٹی والی آنٹی کا چہرہ پہلے جیسا ہو گیا۔ مسکراہٹ کا موسم ختم ہو گیا ، وہ ویسے ہی تیزی سے روٹی بناتی مگر اب مسکرائے بنا کام کرتی رہتی۔ ایک دن میں نے دیکھا وہ آدمی بچوں کو ڈانٹ رہا ہے۔ بچے ڈرے سہمے رو رہے تھے ، اچانک اس نے بڑی بچی کو بالوں سے پکڑ کر زور سے زمین پر گرایا اور اپنی جوتی اتار کر اسے خوب مارا۔ میں یہ سب دیکھ کر ڈر گئی، دل کیا اسی چپل سے اس آدمی کو ماروں مگر میں خود بھی اس بچی سے کچھ سال ہی بڑی تھی ، یہ ہمت کا کام میرے بس سے باہر تھا۔

میں نے بے چین نظروں سے روٹی والی کو دیکھا لیکن وہ خاموشی سے روٹی بنانے میں مصروف تھی۔ وہ بچی مار کھا کر روتی بلکتی گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ لیکن اس دن کے بعد اس بچی نے کبھی مجھے مسکرا کر نہیں دیکھا، اس کی معصوم مسکراہٹ شرمندگی میں بدل گئی۔ وہ معصوم بچی سے شرمندہ، خالی اور مردہ آنکھوں والی عورت لگنے لگی۔ چھوٹی سی معصوم عورت!

سردی کم ہونے لگی موسم کھل گیا۔ اب فرش پہلے جتنا ٹھنڈا نہیں تھا۔ بچے زمین پر ہی کھیلتے تھے مگر اب سردی سے ان کے ہاتھ پاؤں اکڑے ہوئے اور جلد پھٹی ہوئی نہیں لگتی تھی۔ مجھے سردی اسی لیے نہیں پسند وہ غریب بچوں کی جلد پھاڑ دیتی ہے، جسم اکڑا دیتی ہے اور گرم کپڑے بھی اپنے ساتھ نہیں لاتی۔ سردی اچھی نہیں ہوتی۔ گرمی آگ پیدا کرتی ہے اور آگ روٹی کو پکا دیتی ہیں۔ گرم روٹی بھوکے بچوں کا پیٹ بھر دیتی ہے۔ اسی لیے مجھے گرمی پسند ہے۔

گرمی آ گئی۔ اب مجھے بچوں کو زمین پر کھیلتا دیکھ کر تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ گرم ہوائیں لو بھی بن جاتی ہیں کبھی کبھی۔ ایک دن ایسی ہی لو چل رہی تھی جب میں نے ماسی سکینہ کو امی سے باتیں کرتے دیکھا۔ ہمیں بڑوں کی باتیں سننے کی اجازت نہیں تھی لیکن میری بہت سی دوسری حسیات بہت تیز تھیں ، مجھے آواز کے بنا بھی سمجھ آ گیا کہ کوئی مسئلہ ہے۔ خیر ماسی چلی گئی اور امی نے اس دن روٹی خود بنائی۔ آگے دن بھی اس کے اگلے دن بھی۔

ایک دن مجھے بہت بھوک لگی اور کھانے میں ابھی وقت تھا تو میں نے امی سے کہا میں روٹی آنٹی سے لے آتی ہوں۔ امی نے کہا نہیں میں گھر پر بناؤں گی ، اس کی روٹی اچھی نہیں ، سفید آٹے والی روٹی سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے۔ لال آٹا صحت کے لیے اچھا ہے ، ہم یہی کھائیں گے۔ میں خاموش ہو گئی۔ کچھ دن بعد ایک دن امی مصروف تھیں اور ماسی روٹی بنا رہی تھی تو میں نے ماسی سے کہا تم میری روٹی نہ بناؤ ، میں اپنی روٹی روٹی والی آنٹی سے لے آتی ہوں۔

وہ جھٹ سے بولی ”نہیں تو نے اودے گھر نیں جانا او چنگی عورت نیں“ میں نے کہا کیوں؟ وہ چنگی کیوں نہیں؟ ماسی بولی ”اسنے دوجا ویا کیتا“ میں نے حیرانی سے ماسی کو دیکھا۔ ماسی سے مزید بحث کرنا بیکار تھا ، میں نے خاموشی سے اپنی روٹی لی پلیٹ میں سالن ڈالا اور کچن سے باہر آ گئی۔ لیکن آج تک میں روٹی والی آنٹی کو چنگی عورت ہی سمجھتی ہوں پتا نہیں کیوں ماسی نے کہا ”وہ چنگی عورت نہیں“ پتا نہیں کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments