جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: بینچ کی تشکیل پر نظر ثانی کی درخواستوں کا معاملہ چیف جسٹس کے سپرد


جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت اور بینچ کی تشکیل کا فیصلہ سُناتے ہوئے اس معاملے کو پاکستان کے چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے۔

عدالت نے بینچ کی تشکیل کے بارے میں درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر فیصلہ گذشتہ برس دسمبر میں محفوظ کیا تھا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بیچ میں شامل ایک جج جسٹس منظور ملک نے چھ رکنی بینچ کے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ چیف جسٹس چاہیں تو نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو مسترد کر دیا تھا۔

سات ججز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کے ٹیکس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے یہ معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی مرحلے میں یہ معلوم ہو کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بھی اس میں کوئی کردار ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف کارروائی عمل میں لا سکتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس: کیا صدر مملکت عارف علوی اس معاملے میں بے اختیار تھے؟

مجھے عہدے سے ہٹانے کے لیے ایف بی آر کو کنٹرول کیا گیا: جسٹس فائز عیسیٰ کا دعویٰ

’صدر آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر تفصیلی فیصلہ

نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے لیے چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی بینچ تشکیل دیا تھا اور اس بینچ میں صرف وہی ججز شامل تھے جنھوں نے یہ معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کے بارے میں فصیلہ دیا تھا جبکہ باقی تین ججز جن میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس منصور علی شاہ، جنھوں نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا، کو اس بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

اس دس رکنی بینچ کے ایک اور رکن جسٹس یحی آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو ہی ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا۔

سپریم کورٹ

اس سات رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس فیصل عرب نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کرنے سے پہلے ہی اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظرثانی کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ نظرثانی کی درخواستوں کو بھی وہی بینچ سنے جس نے اس صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی تھی۔

حالیہ چند دنوں میں پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ایک معاملے میں اختلاف سامنے آیا تھا جب وزیر اعظم کے ترقیاتی فنڈز سے متعلق از خود نوٹس کے معاملے پر چیف جسٹس نے اپنے حکنامے میں جسٹس قاضی فایز عیسیٰ کو اس بنیاد پر وزیر اعظم کے خلاف کسی بھی مقدمے کی سماعت کرنے سے روک دیا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک مقدمے میں وزیر اعظم کے خلاف درخواست گزار ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس فیصلے کے خلاف اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس نے ان کی شہرت کو داغدار کیا۔ انھوں نے کہا کہ جج کسی غیر قانونی کام کا نوٹس لے سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل سمیت کسی فریق نے ان کی ذات پر اعتراض نہیں کیا جبکہ چیف جسٹس کی طرف سے انھیں (فائز عیسیٰ) جانبدار کہنا افسوسناک ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ چیف جسٹس نے ٹھوس وجوہات کے بغیر ان پر جانبداری کا الزام لگا دیا اور تحقیقات کی بجائے ایک جج کو وزیر اعظم کے خلاف شکایت کندہ قرار دینے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ کے جج کو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ سپریم کورٹ کے جس دو رکنی بینچ نے وزیر اعظم کی طرف سے ارکان پارلیمنٹ کو پچاس کروڑ روپے فی کس کے حساب سے دینے کے بارے میں از خود نوٹس لیا تھا اس میں شامل دوسرے جج جسٹس مقبول باقر کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہ کرنے پر ان کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا تھا اور چیف جسٹس کو اس بارے میں خط بھی لکھا گیا تھا لیکن انھیں اس خط کا جواب نہیں ملا۔

اس اختلافی نوٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس از خود نوٹس کا اختتام حیران کن تھا۔

جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس از خود نوٹس کو محض دو سماعتوں کے بعد ہی نمٹا دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp