امریکہ کے ایران کے ساتھ پانچ باشندوں کی گرفتاری کے معاملے پر مذاکرات


امریکہ نے ایران میں یرغمال بنائے جانے والے اپنے پانچ شہریوں کی وطن واپسی کے لیے ایرانی حکام کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اتوار کو نشریاتی ادارے ‘سی بی ایس’ نیوز کے پروگرام ‘فیس دی نیشن’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تہران حکومت نے امریکہ کے پانچ شہریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ صدر جو بائیڈن کی حکومت کی پہلی ترجیح امریکیوں کو محفوظ انداز میں وطن واپس لانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ “ہم نے امریکی شہریوں کو یرغمال بنانے کے معاملے پر تہران حکومت سے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔”

مشیر قومی سلامتی نے امریکی شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کو ایک “عظیم انسانی بحران” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “امریکیوں کو غیر منصفانہ اور غیرقانونی طور پر اپنے پاس رکھنے کو برداشت نہیں کریں گے۔”

یاد رہے کہ ایران نے دہری شہریت رکھنے والے درجنوں افراد کو حراست میں لے رکھا ہے جن میں پانچ امریکی بھی شامل ہیں۔

امریکہ جوہری معاہدے پر ایران سے مذاکرات کے لیے تیار

حراست میں لیے جانے والے دہری شہریت کے حامل افراد میں سے بیش تر کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

جیک سلیوان نے واضح کیا کہ ایران سے مغویوں کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات کے دوران 2015 میں امریکہ کے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے میں دوبارہ واپسی پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدے پر دوبارہ بات چیت کے لیے ایران نے اب تک کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔

جیک سلیوان نے دعویٰ کیا کہ ایران سفارتی طور پر تنہا ہو چکا ہے نہ کہ امریکہ، اور اب بال ایران کے کورٹ میں ہے۔

دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ تہران پر عائد معاشی پابندیاں نہیں اٹھا لیتا اس وقت تک وہ جوہری معاہدے میں واپس نہیں آ سکتا۔

امریکہ کا مؤقف ہے کہ ایران کو پہلے 2015 کے جوہری معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کو کم کرنا ہو گا۔

امریکہ کے صدر بائیڈن نے جمعے کو جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی ورچوئل سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ جوہری معاہدے میں شامل ہونے کے لیے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔

بائیڈن کا کہنا تھا کہ “ہمیں معاہدے میں شفافیت لانے کے علاوہ اسٹرٹیجک غلط فہمیوں اور غلطیوں کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔”

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments