ہائبرڈ نظام حکومت اور ڈیپ اسٹیٹ کی طاقت


جاننا چاہیے کہ ہائبرڈ نظام حکومت میں اشاروں کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ اگر پیغام کی درست ترسیل نہ ہو یا تفہیم میں غلطی ہو جائے تو ڈسکہ کی دھند جیسا معاملہ ہوجاتا ہے۔ یا سینیٹ انتخاب کے طریقہ کار کی آئینی حیثیت پر بحث کو پارلیمنٹ کی بجائے سپریم کورٹ میں منعقد کرنا پڑتا ہے۔

دیکھئے ایک اشارہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دیا ہے کہ ’اسٹبلشمنٹ مکمل طور سے غیر جانبدار‘ ہے۔ دوسرا اشارہ پیپلز پارٹی ہی کے سینیٹر رضا ربانی نے سپریم کورٹ میں دیا ہے جہاں وہ سینیٹ کے انتخابات کو اوپن بیلٹ سے کروانے کے لئے صدارتی ریفرنس کیس میں دلائل دے رہے ہیں۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’اگر سینیٹ کے انتحابات اوپن بیلٹ سے کروانے کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا گیا تو پھر پارلیمان کے ارکان ڈیپ سٹیٹ کے رحم وکرم پر ہوں گے‘ ۔ اگر بتا دیا جائے کہ ڈیپ اسٹیٹ اسی صلاحیت یا قوت کا کم معروف نام ہے جسے اہل پاکستان عام طور سے اسٹبلشمنٹ کے نام سے جانتے ہیں تو بہت سوں کو معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ گو کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو ممتاز لیڈر مختلف ماحول میں بظاہر علیحدہ علیحدہ بات کر رہے ہیں جو ایک طرح سے ایک دوسرے سے متصادم بھی ہے۔ لیکن متضاد معانی رکھنے والے بعض اشارے دراصل ایک ہی تصویر کو مکمل کرنے کے کام آتے ہیں۔ یہی ہائبرڈ نظام حکومت کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

اب کھوج لگانی چاہیے کہ ہائبرڈ نظام حکومت کیا ہوتا ہے؟ یہ ایسے طریقہ حکومت کا نام ہے جس میں لانے والا اور آنے والا، سرپرست اور دست نگر، نامزد کرنے والا اور منسوب ہو کر راج کرنے والا، محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں کہ نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز والا معاملہ ہو اور جمہوریت کا نام بھی اونچا رہے۔ اس نظام کو ستر بہتر سال کے جوکھم سے استوار کیا گیا ہے۔ اس دوران چار مارشل لا، تین آئین اور متعدد وزرائے اعظم کو آزمایا گیا۔ بالآخر اس ملے جلے نظم حکومت کی داغ بیل ڈالی گئی جس میں جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ حاکم با اختیار نہیں ہوتا لیکن مکمل اختیار کے زعم میں یوں مبتلا ہوتا ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ یہ ایسا دلکش نظام حکومت ہے جس میں جمہوریت کو ترک نہیں کیا جاتا لیکن اسے گلے سے بھی نہیں لگایا جاتا۔ قیادت منتخب بھی ہوتی ہے اور نامزد بھی۔ نظام جمہوری ہوتا ہے لیکن جمہوریت سے لاتعلق بھی۔ اب اتنے پیچیدہ اور مشکل نظام کو کامیابی سے چلانے کے لئے اشارے ہی اہم ترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ جو اشارہ سمجھنے سے چوکا، وہ میدان سے باہر اور میوزیکل چئیر میں کوئی بالکل ہی انجان چہرہ براجمان دکھائی دے گا۔

یہی دیکھ لیجیے کہ چند ہفتے پہلے کون جانتا تھا کہ یوسف رضا گیلانی جو 2012 میں افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ سے توہین عدالت کے جرم میں ایک منٹ کی سزا پاکر وزارت عظمی اور رکن اسمبلی بننے کے لئے نا اہل ہوئے تھے، فروری 2021 اچانک ملتان سے اسلام آباد منتقل ہوجائیں گے اور پاکستان جمہوری تحریک کی سب پارٹیاں انہیں وفاقی دارالحکومت سے اپنا متفقہ امید وار نامزد کردیں گی۔ اور وہ بڑی انکساری و عاجزی سے یہ بتاتے پھریں گے کہ ’میں تو جی بس ایسا ہی ہوں۔ جس عہدے پر جاتا ہوں دوست دشمن سب اتفاق کرلیتے ہیں۔ ہم تو پیسے کا لین دین نہیں کرتے۔ بس تعلق داری بناتے ہیں اور رشتے نبھاتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ جہانگیر ترین سے میری بات تو نہیں ہوئی لیکن وہ ہیں تو میرے رشتہ دار‘ ۔ کوئی اسے سیاست کی بساط پر مہرے چلنا کہہ سکتا ہے لیکن یہ سارا کھیل دراصل ان اشاروں کا ہے جن کے دم قدم سے ہائبرڈ نظام میں رونق میلہ لگا رہتا ہے۔

کوئی عذر تو ہوگا کہ کل تک لانگ مارچ کا رخ راولپنڈی کی طرف موڑنے والے مولانا فضل الرحمان یہ بتا رہے ہیں کہ اپنوں سے کوئی لڑائی تھوڑی ہوتی ہے، بس گلہ شکوہ ہوتا ہے۔ اس گلے شکوے میں اگر ’چائے پانی‘ کی دعوت وصول ہو جائے تو چہرے پر شفیق سی مسکراہٹ آتے دیر نہیں لگتی۔ پھر وقت آتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی شکریہ ادا کرنے کے لئے مولانا سے ملاقات کرتے ہیں اور ملاقات کے بعد میڈیا کو بتاتے ہیں کہ میرے حساب سے اسٹبلشمنٹ مکمل طور سے غیر جانبدار ہے۔ جو لوگ رضا ربانی کے دلائل میں ڈیپ اسٹیٹ کا ذکر سن کر ان دونوں بیانات میں تضاد یا اختلاف تلاش کرنے کی کوشش کریں، ان کے بارے میں جان لینا چاہیے کہ وہ ہائبریڈ ظام کی بنیادی حرکیات سے آگاہ نہیں ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ گیلانی یہ بتا رہے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور رضا ربانی واضح کر رہے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو کیا ہو سکتا ہے۔ ہائبریڈ نظام بھی سائنس کا کلیہ ہے جس میں جمع تفریق ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کلیہ سے روگردانی سیاسی بحران کو دو چند کرتی ہے۔ فی الوقت سیاسی بحران، وسیع تر قومی مفاد کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ اب اس ایک مقصد کے لئے دیے گئے اشارے موجود ہیں، سمجھنے کی صلاحیت درکار ہے۔

یہی دیکھ لیجیے کہ کون کہہ سکتا تھا کہ جس تحریک کے زیر اہتمام اکتوبر میں گوجرانوالہ کے جلسہ میں نام لئے جا رہے تھے اور مقدمہ عوامی عدالت میں پیش ہو رہا تھا۔ اسی کی قیادت اب نظام الٹنے کی بجائے اسے مفاہمت سے بچانے کی دعویدار بنی ہوئی ہے۔ تخت الٹانے اور تاج اچھالنے کی نوید دے کر اشارے پہنچانے اور وصول کرنے تک معاملہ آن پہنچا ہے۔ عرض کیا نا کہ یہ نظام کئی دہائیوں کے جوکھم سے معرض وجود میں آیا ہے۔ یہ مسترد نہیں کرتا، گلے سے لگا لیتا ہے پھر چاہے جان ہی نکال لے۔ آپ لاکھ چاہیں کہ جان چھوٹ جائے۔ دعویٰ کریں کہ ووٹ کو عزت سے کم میں معاملہ نہیں ہوگا۔ ایک ہی اشارہ بات صاف کر دیتا ہے کہ صاحب ہم کہاں ووٹ کے لئے خطرہ ہیں۔ آپ جمع خاطر رکھیں، دل میلا نہ کریں، باری کا انتظار کریں۔ جو ووٹ کی طاقت پر بھروسا کو ہی کل کائنات سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں، انہیں ڈسکہ کی دھند یہ بتاتی ہے کہ اس منزل میں مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔ اور جن کے لئے دھند ووٹوں سے بھرے ہوئے بیلٹ بکس لاتی ہے، انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا، یہ طریقے اب فرسودہ ہوچکے ہیں۔

لیکن فرسودہ طریقوں کو نئی آب تاب سے استعمال کرنے کا نام ہی ہائبریڈ نظام ہے کیوں کہ اس میں کسی توانائی کو ضائع نہیں کیا جاتا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب جذبے کی ایک لہر دوسری لہر سے بچ کر گزرنے کی بجائے بار بار اس سے ٹکرانے اور اس سے طوفان سی گونج پیدا کرنے کا کام لینا چاہتی ہے۔ ہائبریڈ نظام طوفان ٹالنے اور توانائی کو بچانے کا مہذب نام ہے۔ بس اس میں ضرورت سے زیادہ اختیار اور چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ورنہ میمو گیٹ اور ڈان لیکس جیسے پھندوں سے منہ زور گھوڑوں کو لگام دینے کا اہتمام ضروری ہوجاتا ہے۔

بدعنوانی اور کرپشن، الیکشن چوری کرنے اور ووٹ بیچ کر مال بنانے کے شور میں اگر یہ تخصیص ہی باقی نہ رہے کہ نوٹوں کے بیگ لینے والے کس فریق کے ساتھ کھڑے ہیں تو ان نعروں کی تاثیر ختم ہوتے کیا دیر لگتی ہے۔

یعنی ہر زہر کا تریاق پہلے سے موجود ہوتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے استعمال کر کے ہی نظام کو سہارا دیا جاتا ہے۔ پھر ویڈیو نشر کر کے اور وزیروں سے استعفے لے کر بھی نعرے کی حدت و شدت کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ نوشہرہ کی شکست، ڈسکہ کی دھند اور اور پشاور میں وزیر اعظم کی ملاقات سے 20 ارکان اسمبلی کی غیر حاضری اس ناکامی کا بین ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن اس نظام کی خوبی یہی ہے کہ اس میں اشارے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کس وقت کون سا اشارہ کس کے لئے جاری ہوا، کس میں کس کو پیغام بھیجا گیا اور کہاں کون سا اشارہ کن معنوں میں موصول کیا گیا۔ میدان میں اس کھیل کا کوئی کھلاڑی نہیں ہے، سب اناڑی ہیں۔ لیکن جس کے سر پر ہما دکھائی دے، اسے کھلاڑی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی لئے مہرے بدل جاتے ہیں، کھیل جاری رہتا ہے۔ شکل بدل جاتی ہے نظام تبدیل نہیں ہوتا۔

ایک سبھا سپریم کورٹ میں سجی ہے۔ پوری قوم کی نگاہیں عدالت عظمیٰ پہ ٹکی ہیں کہ پتہ چلے تین مارچ کے سینیٹ انتخاب میں کیا ہوگا۔ اوپن بیلٹ جس میں لاچار پہرے دار بے بسی کی تصویر بنے ہوں گے یا خفیہ ووٹنگ جسے ’ضمیر‘ کا ضامن کہا جا رہا ہے۔ بیچ میں بیٹھے منصف سر پہ ہاتھ دھرے معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ سینیٹ کی سیٹیں تو صوبائی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق ملنی چاہئیں ورنہ متناسب نمائندگی کا کیا ہوگا۔ تو یوں کر لیں کہ ووٹ خفیہ کرلو لیکن ضرورت پڑنے پر پرکھ لیا جائے کہ کہاں گڑ بڑ ہو گئی۔ منصف نے یقین دلایا کہ جمع خاطر رکھیں ’ووٹ تو سیل کر دیا جاتا ہے پھر مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا‘ ۔

رضا ربانی ہاتھ باندھے بتاتے ہیں کہ ’حضور ووٹ قابل شناخت نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کی رسائی بیلٹ پیپر تک ہوتی ہے۔ یہ سچائی تو جج، سائل سے زیادہ جانتے ہیں‘ ۔ منصف کی خاموشی گواہ ہے کہ ہائبریڈ نظام میں ایسی رسائی کا خوف بھی نہ رہے تو پھر نظام کو توانائی کہاں سے ملے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments