عورت آزادی مارچ 2021: ملیے اس بار عورت مارچ کے پوسٹرز بنانے والی خواتین سے


اگر آپ سے کہا جائے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک پوسٹر بنائیں تو آپ اس میں کون سی تصاویر استعمال کریں گے؟ یقیناً ایک ایسی تصویر جس میں خواتین کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے کچھ تجاویز موجود ہوں۔

گذشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین کے مختلف گروپس کی جانب سے عورتوں کے حقوق کے حصول اور آگاہی پھیلانے کے سلسلے میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ’عورت مارچ 2021‘ کے تھیمز، منشور اور پوسٹرز جاری کیے گئے ہیں۔

یہ عنوان ہر صوبے، شہر یا علاقے کی سطح پر عورتوں کو درپیش مسائل کی بنیاد پر چنے جاتے ہیں۔

بی بی سی نے پاکستان کے دو بڑے شہروں میں عورت مارچ کے آرگنائزرز اور پوسٹر ڈیزائن کرنے والی چند خواتین سے بات کر کے اصل پیغام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔


اس سال لاہور عورت مارچ کا تھیم ’عورتوں کی صحت کے مسائل‘ کو اجاگر کرنا ہے۔

اس تھیم کے بارے میں لاہور عورت مارچ کی آرگنائزر شمائلہ خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے ہی گذشتہ سال کا مارچ ختم ہوا تھا تو پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا آ گئی اور لاک ڈاؤن شروع ہو گیا، اسی لیے رواں برس عورت مارچ لاہور کے تھیم کے لیے عورتوں کی صحت کے مسائل کا انتخاب کیا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب وبا کے باعث ہیلتھ کیئر کے نظام پر دباؤ پڑا تو نہ صرف عورتوں کی صحت کے حوالے سے بنیادی مسائل (جن میں ان کی نظامِ صحت تک کم یا مکمل رسائی نہ ہونا شامل ہے) مزید اجاگر ہوئے بلکہ اس نظامِ صحت سے جڑی خواتین ڈاکٹروں، نرسوں اور لیڈی ہیلتھ ورکر، جس دباؤ کے زیرِ اثر کام کرتی ہیں، وہ بھی اُجاگر ہوا۔‘

شمائلہ خان کہتی ہیں کہ اس تھیم کو چننے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ نظامِ صحت کے بارے میں تو بہت بات کی جاتی ہے مگر اس نظام میں عورتوں کو کیا کیا مسائل ہیں، ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ ’اسی لیے ہمیں محسوس ہوا کہ یہ ایک انتہائی ضروری مسئلہ ہے جسے اجاگر کیا جانا چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

عورت مارچ: ’معاشرے کو محفوظ بنا دیں، نعرے ٹھیک ہو جائیں گے‘

’میں عورت ہوں، دنیا کو ایک عورت کی نظر سے دیکھتی ہوں‘

عورت مارچ کے متنازع پوسٹر کی خالق توجہ ملنے پرخوش

https://twitter.com/AuratMarch/status/1360120179586445314

لاہور عورت مارچ کی آرگنائزرز کے مطابق اس تھیم میں عورتوں کی جسمانی صحت کے علاوہ ذہنی صحت کے مسائل بھی شامل ہیں۔

دنیا بھر میں عورتوں کی فلاح و مدد کے لیے کام کرنے والی تنظمیوں کے مطابق کورونا وائرس کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور عورتوں کے پاس اس تشدد سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اسی بارے میں شمائلہ خان کا کہنا تھا کہ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستان میں بھی جب عورتوں نے گھروں سے کام کرنا شروع کیا تو انھیں درپیش بہت سارے دیگر مسائل بھی سامنے آئے جن میں گھریلو تشدد میں اضافہ شامل ہے۔

’آئسولیشن کے دوران گھروں میں عورتوں کے لیے کام بڑھ گیا، ان پر دباؤ میں اضافہ ہوا اور تناؤ کا سبب بننے والے عناصر میں بھی اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ایموشنل ایبیوز (نفسیانی زیادتیوں) میں بھی اضافہ ہوا۔‘

شمائلہ بتاتی ہیں کہ اس سال تھیم کا فیصلہ کرتے ہوئے انھی تمام چیزوں کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔

عورت مارچ لاہور کا پوسٹر: خواتین کی بہتر صحت کے لیے کیا ضروری؟

’عورتوں کی صحت کے مسائل‘ اجاگر کرنے کے لیے لاہور عورت مارچ کا پوسٹر نوجوان گرافک ڈیزائنر شہزل ملک نے بنایا ہے۔

انھوں نے سنہ 2010 میں بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور ماسٹرز کرنے امریکہ گئیں۔ وہ سنہ 2014 میں واپس لوٹیں اور اس وقت سے لاہور میں ہی کام کر رہی ہیں۔

شہزل ملک کے مطابق ان کے فن پاروں میں موجود عورتیں خاموش یا شرمندہ نہیں ہوتیں، بلکہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کا آرٹ ہمیشہ پاکستان، پاکستانی خواتین اور ان کی زندگیوں کے بارے میں رہا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہزل ملک نے بتایا کہ ’چونکہ اس سال عورت مارچ لاہور کا تھیم عورتوں کے صحت کے مسائل اجاگر کرنا ہے لہذا میں یہ دکھانا چاہتی تھی کہ ہم یہ مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں۔‘

شہزل ملک

شہزل ملک

وہ بتاتی ہیں کہ اس تھیم کے مطابق پوسٹر بنانے کے لیے جب وہ ریسرچ کر رہی تھیں تو اس دوران انھوں نے اپنی دوست سے بات کی جو پبلک ہیلتھ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

شہزل کہتی ہیں ’اس بارے میں اپنی دوست کے اور کئی دیگر ریسرچ پیپر پڑھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ پاکستان میں خواتین کی صحت کا بحران اس لیے نہیں کہ پاکستانی عورتوں کو کوئی خاص بیماری ہے بلکہ یہ بحران کی شکل تب اختیار اس لیے کرتا ہے کیونکہ معاشرہ ان کی مدد اور حمایت نہیں کرتا۔‘

’گھر میں عورتوں کو وہ مدد اور حمایت نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہیں، ان کی جلدی شادی کر دی جاتی ہے، انھیں آرام کرنے کے مواقع نہیں ملتے، انھیں سکول نہیں جانے دیا جاتا، فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے جسم کے بارے میں آگاہی یا اہم معلومات تک رسائی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔‘

شہزل کہتی ہیں کہ اس کے علاوہ کئی دیہی علاقوں میں سڑکیں اور انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں کہ عورتیں باآسانی ہسپتال یا صحت کے مرکز تک پہنچ سکیں اور اگر کسی نا کسی طرح وہ ہسپتال پہنچ بھی جائیں تو انھیں ڈاکٹر تک رسائی بھی آسانی سے نہیں ملتی۔

’کیونکہ یہاں ایک اور مسئلہ آ جاتا ہے کہ ڈاکٹر عورت ہے یا مرد۔۔۔۔ اکثر خواتین کے گھر والے مرد ڈاکٹر سے ان کا چیک اپ یا علاج کروانے پر راضی نہیں ہوتے اور کئی بار خواتین کے لیے خود بھی ایک مرد ڈاکٹر سے بات کر کے اس کو اپنا مسئلہ سمجھانا اور اس سے علاج کروانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ان کا تخلیق کیا گیا پوسٹر ان سب مسائل کا دوسرا رُخ دکھانا چاہ رہا ہے کہ اگر ہم عورتوں کو درپیش ان تمام مسائل کو حل کرنا چاہیں تو وہ تصویر کیسی نظر آئے گی۔

پوسٹر میں نظر آنے والی تخلیق کے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے شہزل کہتی ہیں کہ ’میں نے ایک صحت مند جسم کی مالک عورت بنائی ہے جس کے جسم کا ایکسرے ہوا ہے اور آپ کو اس کا دل اور ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آ رہا ہے جس میں پھول اُگ رہے ہیں۔‘

شہزل نے بتایا کہ وہ دراصل ایک صحت مند عورت دکھانا چاہ رہی تھیں جس کی اچھی صحت کے پیچھے اس کے ماحول کا ہاتھ ہے، جو اس عورت کا بھرپور ساتھ دیتا ہے ’گھر والے اس کی مدد کر رہے ہیں، اس کو دوائیاں مل رہی ہیں، اس کو معلومات تک رسائی ہے، لیڈی ڈاکٹر اور ہسپتال قریب ہیں، ایمبولینس میسر ہے، سڑکیں اور انفراسٹرکچر اس کے مددگار ہیں۔‘

’بس یہی دکھانا چاہ رہی تھی کہ اگر ہم عورتوں کو ترجیح دیتے اور کسی بھی نظام کی تشکیل ان کی صحت کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے تو وہ دنیا کیسی دکھتی۔‘


عورت مارچ اسلام آباد: ’برسوں سے حقوق کے لیے جدوجہد‘

رواں برس اسلام آباد عورت آزادی مارچ کا تھیم بلوچستان میں لاپتہ افراد کے خلاف برسوں سے جدوجہد اور پُرامن مزاحمت کرنے والی خواتین کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے اظہارِ یکجہتی بھی ہے۔

اسلام آباد عورت آزادی مارچ کی آرگنائزرز میں شامل طوبیٰ سید نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ ہر سال عورت مارچ کے تھیمز ہر صوبے، شہر یا علاقے کی سطح پر عورتوں کو درپیش مسائل کی بنیاد پر چنے جاتے ہیں لیکن اسلام آباد چونکہ پاکستان کا دارالحکومت ہے لہذا یہاں کے آرگنائزرز پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہر سے باہر، ملک کے مسائل کو بھی اجاگر کریں۔

وہ کہتی ہیں ’اسلام آباد سے آنے والی آواز صرف اس شہر کی نہیں ہو سکتی، اسے شہر کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی عورتوں کی نمائندگی کرنی چاہیے۔‘

یاد رہے چند بلوچ مسنگ پرسنز کے اہلخانہ کچھ روز قبل بلوچستان سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انھوں نے پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا تھا۔

طوبیٰ کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ برس کے دوران ہم نے دیکھا کہ ملک میں لوگوں کی آزادیاں سلب کی جا رہیں تھیں اور کورونا وائرس کی وبا کے باوجود بلوچ مائیں اپنے اپنے علاقوں سے اٹھ کر اسلام آباد تک آئیں۔‘

اسلام آباد آزادی مارچ کا پوسٹر اسما گل حسن نے ڈیزائن کیا ہے۔

اسما گل حسن لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک آرٹسٹ ہیں جنھوں نے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد یونیورسٹی آف آرٹس لندن سے اِیلسٹریشنز میں ماسٹر کیا ہے۔

وہ اپنے فن کے ذریعے خواتین کی ذہنی صحت، ان کی امیدوں، خواب اور پدرشاہی نظام کے ان پر جسمانی اور نفسیاتی اثرات دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسما کا کہنا تھا کہ یہ پوسٹر ڈیزائن کرتے ہوئے ان کے ذہن میں تین چیزیں تھیں ’تنوع، نمائندگی اور ایسا فیمینزم جو کسی ایک طبقے کے بجائے سب عورتوں کو برابر کی نمائندگی دے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار بلوچ مسنگ پرسنز کے لیے ’مین سٹریم میڈیا میں اس طرح آواز اٹھائی جا رہی ہے اور میں نے ان لاپتہ افراد کے ساتھ برسوں سے کام کرنے والوں کے خیالات اور ویژن کو پوسٹر میں تبدیل کیا ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ پوسٹر ڈیزائن کرنے سے پہلے ’میں نے بلوچ مزاحمت کی آواز بننے والی کارکنان کے کپڑوں، اس پر کڑھائی کو دیکھا، اس کا فیبرک کیسا ہے، اور میرے لیے یہ بہت اہم تھا کہ میں بالکل درست انداز میں انھیں دکھا سکوں۔

’اس کے ساتھ ساتھ ان بلوچ عورتوں کے کھڑے ہونے کے انداز میں یہ دکھانا بھی اہم تھا کہ وہ پروقار انداز میں برسوں سے کھڑی اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔‘

رواں برس کراچی اور ملتان سمیت پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں بھی خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے عورت مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کراچی عورت مارچ کے آرگنائزر کا کہنا تھا کہ ’رواں برس کورونا وائرس کے باعث وہ ہزاروں لوگوں کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے لیکن جب وبا کے دنوں میں ظلم و تشدد نہیں رکا تو اس ظلم کے خلاف آواز کیسے رک سکتی ہے، لہذا ہم مارچ نہیں کر سکتے تاہم ہماری مزاحمت رکنے والی نہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی لکھا کہ اس سال آٹھ مارچ کو ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے وہ ناانصافی، تشدد، عدم مساوات، پدرشاہی اور جبر کے خاتمے کے مطالبے کے لیے دھرنا دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp