انڈین شہریت کی منتظر 22 ہزار پاکستانی: ’پاکستان میں ہم کافر ہیں اور انڈیا میں پاکستانی‘


انڈیا میں ایک طرف تو نریندر مودی حکومت شہریت کے ترمیمی ایکٹ قانون کے ذریعے بیرون ملک مقیم ہندوؤں کو شہریت دینے کا دعویٰ کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف صرف راجستھان میں پاکستان سے آنے والے 22 ہزار سے زیادہ ہندو کئی برسوں سے انڈین شہریت کے منتظر ہیں۔

انڈیا کی شہریت نہ ہونے کے سبب یہ پاکستانی معمولی سہولیات تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ خود راجستھان حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ ان میں سے تقریباً آٹھ ہزار افراد انڈین شہریت حاصل کرنے کی اہلیت پر پورا کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کو شہریت نہیں دی جا رہی ہے۔

جودھپور شہر کی آبادی کی پیاس کو بجھانے والے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے نزدیک 250 خاندانوں کی بستی ہے جو بالکل پیاسی ہے۔ یہ برسوں پرانی پیاس محبت، احترام ، سہولیات اور شناخت کی ہے۔

بہت سال پہلے یہ ہندو خاندان ایک امید اور یقین کے ساتھ پاکستان سے ہجرت کر کے انڈیا چلے آئے تھے۔ اب ان کی امیدیں مانند پڑتی جا رہی ہیں۔

یہ صورتحال صرف اس بستی یا ضلع جودھ پور تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ راجستھان میں بسنے والے 22146 بے گھر افراد کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

پاکستان سے آنے والوں کی بستیاں کیسی ہیں؟

جودھپور ضلع ہیڈ کوارٹر سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور منڈور میں کچھ اونچائی پر واقع ایک بستی ہے۔ تقریبا آدھا کلومیٹر دور سے ہی ایک عظیم الشان عمارت نظر آرہی تھی ایک بار تو ایسا محسوس ہوا کہ شاید ان بے گھر افراد کی بستی اسی عظیم عمارت میں واقع ہے۔

لیکن جیسے ہی ہم کچی سڑک کے قریب پہنچے وہاں گھاس اور بانس سے بنی کچی جھونپڑیاں نظر آئیں۔ یہاں بجلی کے کھمبے ہیں، نہ پانی کے نلکے اور نہ سڑک، نہ ہی کسی کے پاس انڈیا کا کوئی شناختی کارڈ۔ یہاں تک کہ بستی کا بورڈ تک نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی ہندوؤں کی شہریت پر سیاسی رسہ کشی

انڈیا ’ہندو پاکستان‘ بن جائے گا‘ کے بیان پر شدید ہنگامہ

انڈیا میں ہلاک ہونے والے ہندو خاندان نے پاکستان سے ہجرت کیوں کی تھی؟

سہولیات کے نام پر پیسے دے کر یہ لوگ پانی کے ٹینکر منگواتے ہیں۔ رات میں چاند کی روشنی کم پڑتی ہے تو لوگ اپنے گھروں میں روشنی کے لیے چھوٹی، چھوٹی سولر پلیٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر شہر جانا ہو تو تین کلومیٹر پیدل چلتے ہیں پھر کوئی سواری ملتی ہے۔ شہر سے بالکل الگ ایک کونے میں رہنے والے یہ لوگ سات سال یا اس سے بھی پہلے پاکستان سے آئے تھے۔

اس بستی میں رہنے والے ہیم کولی نے پاکستان سے پولیٹیکل سائنس میں تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ سنہ 2005 میں پاکستان سے آئے تھے۔ وہ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ ہیں۔

واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’جب یہ تعمیر ہو رہا تھا ہم نے یہاں مزدوری کی۔ جب بن کر تیار ہو گیا تو اس نے ہمیں ایک چھوٹی ملازمت بھی نہیں دی۔ پانی کی یہ لائن شہر جا رہی ہے لیکن ہمارے لیے پانی نہیں ہے۔‘

ہیم کولی کہتے ہیں ’ہم پیدا ہونے کے بعد ہی پھنس گئے ہیں۔ وہاں پاکستان میں رہتے تو کافر کہلاتے اور اب انڈیا آنے کے علاوہ ہمارا صرف ایک ہی مذہب اور ایک ذات ہے اور وہ ہے پاکستانی۔ پاکستان ہماری پہچان بن گیا ہے۔ کہیں بھی جائیں زیادہ تر مقامات پر ہمیں صرف پاکستانی ہی کہہ کر بلایا جاتا ہے۔‘

1200 افراد کی اس بستی میں تقریبا 200 افراد نے تین سال پہلے کسی طرح سے آدھار راشن کارڈ بنوایا تھا۔ ان کے پاس بینک اکاؤنٹ، ڈرائیونگ لائسنس، پی اے این کارڈ یا کوئی اور انڈین شناخت یا دستاویز نہیں ہے۔

یہاں کے بیشتر افراد مذہبی ویزا پر انڈیا آئے تھے اور پھر یہاں کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ان میں سے بیشتر افراد کے بزرگ بٹوارے کے وقت انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان گئے تھے۔

میر خان 74 سال کے مضبوط قد کاٹھی والے آدمی ہیں۔ یہ نام مسلم لگتا ہے، لیکن وہ ہندو ہیں۔ ان کے بچے اسی کالونی میں رہتے ہیں اور یہ بھی پاکستان سے یہاں آئے ہیں۔

میر خان بہت خوش مزاجی سے ملے۔ وہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں رہتے ہیں اور مذہبی ویزا پر انڈیا میں اپنے خاندان سے ملنے آتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا نام مسلم ہے اور اس نام کے باعث انھیں پاکستان میں بے حد مدد ملتی ہے۔

انھوں نے اپنا پاسپورٹ اور کاغذات کی فائل منگوا کر ہمیں دکھایا۔ ’دادا گجرات میں پیدا ہوئے تھے، والد اور میں پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ گجرات میں ہمارے ہی لوگ ہمیں پاکستانی کہتے ہیں اور یہاں بھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘ہم اجازت لے کر آئے ہیں۔ چوری تھوڑی کی ہے۔ اب ہم بیچ میں لٹکے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم پر پاکستان کا ایک ٹیگ لگا ہوا ہے۔‘

سیمانت لوک سنگٹھن ایک ایسی تنظیم ہے جو کئی سال سے پاکستانی تارکین وطن کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے صدر ہندو سنگھ سوڈھا کا بھی خیال ہے کہ بے گھر ہوئے خاندان کبھی بھی کسی حکومت کی ترجیح میں نہیں رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’پاکستان میں انھیں مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اب ان کے یہاں پاکستانی کا ٹیگ لگا دیا گیا ہے۔ جب تک ظلم و ستم بند نہیں ہوتا وہ خود اعتمادی کے ساتھ زندگی نہیں گزاریں سکیں گے۔‘

نیلے رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے 18 سالہ دامی نے، جو کچھ دیر پہلے ہی مزدوری پر واپس آئی تھیں، اپنی دسویں جماعت پاکستان سے پاس کی۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ انڈیا آئی تھیں۔

دامی کا کہنا ہے ’مجھے سکول میں داخلہ ملا لیکن میرا بارہویں جماعت کا نتیجہ روک دیا گیا۔ اب میں مزدوری پر جاتی ہوں ہمیں روزانہ دو سو سے ڈھائی سو روپے اجرت ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن ان کے تمام خواب ٹوٹ گئے۔‘

شہریت دینے کے لیے راجستھان کے تین کلکٹر

شہریت ایکٹ 1955 کے تحت پاکستان سے آنے والوں کو شہریت دی جاتی رہی ہے۔ ایکٹ کے تحت 51 اے سے 51 ای تک ان کی شہریت کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔

راجستھان محکمہ داخلہ کے سیکریٹری این ایل مینا کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے جے پور، جودھ پور اور جیسلمیر کے کلکٹروں کو شہریت دینے کا اختیار دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’ہم مستحق لوگوں کو شہریت دینے کے لیے مستقل طور پر ضلعی حکام کو بھی لکھتے ہیں۔‘ محکمہ داخلہ کے مطابق نومبر 2009 میں شہریت دینے کے لیے کیمپ کا انعقاد آخری بار کیا گیا تھا۔

تنظیم کے صدر ہندو سنگھ سوڈھا کا خیال ہے کہ دو دہائیوں تک انھیں دھکے کھانے پڑتے ہیں جس کے بعد انھیں شہریت ملتی ہے اور بہت سے لوگ تو شہریت حاصل کرنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

آٹھ ہزار لوگوں کو شہریت کا انتظار

راجستھان محکمہ داخلہ کے اعدادوشمار کے مطابق راجستھان میں پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد 22146 ہے۔ صرف جودھپور شہر کی حدود میں 7663 ایسے لوگ رہتے ہیں۔

محکمہ داخلہ کے مطابق 8043 افراد انڈیا کی شہریت کی درخواست کے اہل ہیں صرف جودھپور میں 6309 افراد اس کے اہل ہیں۔

جودھپور کے ڈویژنل کمشنر راجیش شرما کہتے ہیں ’ان لوگوں کی فلاح و بہبود اور شہریت کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘

خود جودھپور میں ہی چھ ماہ قبل پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے ایک خاندان میں 12 افراد تھے جس میں سے 11 افراد کی موت ہو گئی تھی۔

مرکزی وزیر گجندر سنگھ شیخاوت اور راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت کے آبائی ضلع جودھپور کے بعد ہم پاکستانی سرحد سے متصل راجستھان کے سب سے بڑے ضلع جیسلمیر پہنچے۔

جیسلمیر سے 50 کلومیٹر دور کچے راستے سے ہوتے ہوئے کچھ بلندی پر ببر مگرا میں ایک اور بستی ہے۔

یہاں سنہ 2015 اور سنہ 2018 کے درمیان پاکستان سے آنے والے 34 خاندان رہتے ہیں۔

یہاں انھیں کا ہی بنایا ہوا ایک مندر ہے اور وہیں سے پتھر جمع کر کے اپنی کاریگری سے ان لوگوں نے خود ہی اپنے آشیانے بنائے ہیں۔

لیکن ان کے بچوں کو مقامی سکولوں میں داخلہ نہیں مل سکتا۔ 40 سالہ چنیسر کا کہنا ہے ’سرکاری سکول میں داخلہ نہیں ملا۔ ہم سے دستاویزات مانگتے ہیں لیکن ہمارے پاس دستاویزات نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے ایک پرائیوٹ سکول میں چار سو روپے کی فیس دے کر پڑھا رہے ہیں۔‘

انڈین شناخت کے بارے میں پوچھنے پر ہنستے ہوئے کہتے ہیں ’تین سال پہلے کچھ لوگوں کا آدھار کارڈ بنوا لیا تھا لیکن کسی کام کا نہیں ہے اس سے صرف فون کی سِم مل جاتی ہے بس اور کچھ نہیں۔‘

سہولت کے نام پر ان کے پاس پکے کمرے موجود ہیں کیونکہ وہ خود کاریگر اور مزدور ہیں۔ جہاں سے پتھر ملا اپنا گھر بنا لیا۔

سبھی دیہاڑی والے مزدور ہیں جو کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر کے لیے بستی سے سولہ ہزار پانچ سو روپے کا چندہ دیا گیا ہے۔

سنہ 1990 میں رام گڑھ بائی پاس پر ٹرانسپورٹ نگر میں پاکستانی بے گھر افراد کی ایک بھیل کالونی وجود میں آئی۔ مقامی لوگوں نے اسے جیسلمر میں پاکستانی تارکین وطن کی سب سے بڑی آبادی قرار دیا۔

یہاں کچے اور پکے مکانات بھی ہیں۔ بہت پرانی آبادی اور شہر کے قریب۔ سٹی کونسل نے یہاں ایک کمیونٹی بلڈنگ بھی بنائی ہے۔ یہاں کے سابق کونسلر ناتھورام کہتے ہیں ’یہاں کی تقریباً نصف آبادی کے پاس شہریت ہے لیکن جو 10 سال پہلے آئے تھے وہ آج بھی بھٹک رہے ہیں۔‘

سنہ 1990 میں پاکستان سے آئے ناتھورام بھیل کو سنہ 2005 میں شہریت ملی۔ وہ جیسلمیر بلدیہ کے وارڈ 30 کے سابق کونسلر ہیں۔ انھوں نے کہا جن کے پاس شہریت نہیں انھیں کوئی سہولت نہیں مل رہی ہے۔ بہت پریشانی ہے۔

اس بستی کے کھیتا رام نے شہریت حاصل ہونے کے بعد زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں پر کہا ’شہریت حاصل کرنے کے بعد واحد تبدیلی یہ ہے کہ ہم ووٹ دیتے ہیں اور زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔‘

پریشانی کے سبب واپس جانے کی بات

روایتی لباس میں 60 سالہ گوری 12 سال قبل اپنے خاندان کے 12 افراد کے ساتھ پاکستان سے آئی تھیں۔ ان کے چہرے پر جھریاں آ چکی ہیں اور اب تک شہریت نہ ملنے اور کوئی سہولت اور شناختی کارڈ نہ ملنے کا مسئلہ برقرار ہے۔

گوری اپنی ہی زبان میں کہتی ہیں ’کوئی شناختی کارڈ نہیں ملا۔ کوئی راشن کارڈ نہیں ہے۔ ایک کمانے والا اور دسیوں کھانے والے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ شہریت نہیں دے رہا ہے۔ میں بہت افسردہ ہوں اور واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘

تقریبا پچاس سالہ نصیبہ پاکستان کے ضلع رحیم یار خان میں پیدا ہوئی تھیں۔ نصیبہ جو نو سال قبل پاکستان سے انڈیا آئی تھیں ان کا کہنا ہے کہ ’تنگ ہو کر آئے ہیں کوئی بھی خوشی سے اپنا گھر نہیں چھوڑتا۔ لیکن یہاں کوئی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔‘

جیسلمیر کے کلکٹر آشیش مودی کا کہنا ہے ’ہجرت کر کے آنے والے پاکستانیوں کے لیے کوئی بجٹ نہیں ہے۔ ہم ان کے فلاحی کام سٹی کونسل اور دیگر اداروں سے کرواتے ہیں۔ مستحق افراد کو شہریت دینے کے لیے وقتا فوقتا کیمپ لگائے جاتے ہیں۔‘

پاسپورٹ اور ویزے کی معیاد ختم ہو چکی ہے

پاکستان سے بیشتر بے گھر خاندان مذہبی ویزوں پر انڈیا آئے اور آباد ہو گئے۔ اب بھی یہاں بہت سارے لوگ موجود ہیں جن کے پاس صرف پاکستان کا پاسپورٹ ہے۔

بستی میں بسنے والے زیادہ تر افراد کے ویزوں کی معیاد ختم ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگوں کے ویزوں کی معیاد دو سال پہلے ختم ہو گئی تھی۔

انھیں ویزا دوبارہ لگوانے دلی میں پاکستان کے سفارتخانے جانا پڑے گا لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ویزے کی تجدید کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

پاکستانی تارکین وطن کی پریشانیوں اور ان کے فلاح و بہبود سے متعلق معاملوں پر راجستھان کے چیف سیکریٹری نرنجن کمار آریا بھی دوسرے عہدیداروں کی طرح کہتے ہیں کہ پاکستانی تارکین وطن کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ اور بات ہے کہ وہ حکومت کے ذریعے کیا گیا ایک بھی کام نہیں گنوا سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp