اک شخص مجھی سا تھا


سنتوش آنند کا معاملہ کچھ الگ ہے۔ بکھرا بکھرا سا۔ درد کی ردا میں لپٹا ہوا۔ ان کے الفاظ، احساسات، کلیجے میں پیوست سے ہو کر رہ گئے، ”میں نے سوچا اپنی کویتا کے ذریعے دنیا کو رام کروں گا، دنیا کی رگوں میں خون کی طرح دوڑوں گا مگر، میں غلط نکلا۔“ کتنا درد ہے جو ان محولہ بالہ فقرات کی تہہ میں بہہ رہا ہے۔ تراٹیں مار رہا ہے۔

نصر اللہ خاں صاحب کو کون نہیں جانتا۔ صحافتی دنیا میں اک تابندہ و روشن ستارہ۔ ان کی آپ بیتی، ’اک شخص مجھی سا تھا‘، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس آپ بیتی میں کیا کچھ نہیں ہے۔ تاریخ ہے، تہذیب ہے، تحقیق ہے، ادب ہے اور ادب گر بھی ہیں۔ تشنہ کامان علم کی جھلکیاں بھی ہیں۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا چراغ حسن حسرت، ابرار صدیقی، قاضی احسان اللہ اور سید فخر الدین ماتری اور بہت صاحبان علم سے امڈی پڑی ہے۔

روزنامہ حریت، صحافتی دنیا میں حریت و استقلال، حق گوئی و بے باکی، جرأت و للکار اور عوام کی نوا بن کر ابھرا تھا۔ ماتری صاحب جن کی قلم اور عام لوگوں سے گاڑھی چھنتی تھی ،وہ سب اس نصراللہ خاں صاحب کی یادوں کی پٹاری میں رقم ہے۔ کبھی یہ یادوں کی برات لگتی ہے تو کبھی یادوں کا جشن۔ ترکی سے انہوں نے جدیدیت کے اپنے ذہن میں قمقمے روشن کیے اور ان کو عملی شکل میں حریت کی صورت میں ڈھالا۔ پورے پاکستان سے جویانِ علم یہاں اکٹھے کیے، ان سب کو یہاں بسایا اور بنایا۔ یہ سب کچھ صرف اس کتاب میں چھپا ہوا ہے۔

قومی ترانہ کس طرح وجود میں آیا۔ کس طرح تبریک و تنقید و تنقیص و استہزاء کا شکار ہوا۔ ذوالفقار بخاری صاحب کی عیاری و چالاکی جو انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر کے ساتھ برتی تھی، کس طرح آشکار ہوئی۔ بخاری صاحب کو علم و جاہ میں آگے بڑھتا محسوس ہوتا وہ اس کے پر قینچ دیتے۔ آغا محمد اشرف اس کی روشن مثال ہیں۔ یہ روزنامہ حریت ہی ہے جس سے مجیب الرحمان شامی صاحب فیچر کے لکھاری کے طور پر منسلک ہوئے اور پھر ان کی شہرت و علم کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجا۔

اس ڈنکے آواز اب تک سنائی دیتی ہے۔ جن جن نے آپ کے فیچرز پڑھے وہ اب تک، عنفوان شباب کی دہلیز عبور کر جانے کے بعد بھی اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہیں۔ اب تک اس کا ذائقہ ان کے اذہان میں نفوذ کیے ہوئے ہے۔ شاید، آپ کے ڈھب، طرزِ ادا و طرزِ نگارش کے الگ ہونے کی کلیدی وجہ ہی یہ ہے کہ آپ کو ابتداء میں قلم ہی اکابرین علم نے پکڑایا۔ آپ کا شمامہ عنبر فشاں قلم اب تک جوان ہے۔ کبھی ذوق کا قلم لگتا ہے تو کبھی ابوالکلام آزاد کا۔ کبھی چراغ حسن حسرت کا تو کبھی شورش کاشمیری کا۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

چند دن پہلے ’آشوب شہر‘ میں سجاد میر صاحب نے بھی روزنامہ حریت سے وابستگی سے نحیف سی نقاب کشائی کی تھی۔ بالکل خفیف سی۔ شمس زبیری صاحب کے بارے میں بھی اسی کتاب سے تھوڑی سی آگاہی ملی۔ کیسے کیسے نگینے ریڈیو پاکستان کی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے تھے۔ اک کہکشاں تھی جو مٹی کے گھروندوں میں آباد تھی۔ تب حوصلے جوان تھے۔ مگر اب حوصلے بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اب آپا دھاپی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ لوگ ثانیوں میں شہرت کی سیڑھیاں چڑھ جانا چاہتے ہیں اور اسی میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ایسی عزت کھوکھلی ہوتی ہے۔ ریت کا گھر ہوتی ہے۔ جو ہوا کے اک ہی مگر تند جھونکے سے ڈھے جاتی ہے۔ محنت تو اب ہمارے گھروں کی لونڈی رہی ہی نہیں۔ نوحہ کیا بھی جائے مگر کس کس چیز کا؟

البتہ، تب علم کی آندھیوں کے جھکڑ چلتے تھے۔ شمس زبیری بھی ان میں سے ایک تھے۔ آپ کا تذکرہ کئی اصحاب کی یادداشتوں میں آ چکا ہے۔ آپ کا نام بار بار سن کر، آپ کے بارے میں جاننے کی بار بار جستجو سر اٹھاتی۔ مگر جستجو کو دوام کب ہے!

جستجو و تمنا کو جب قرار آیا تو بے پناہ قرار آیا۔ وہ کیا وقت تھا جب کوئی ادبی شہ پارہ تلاشنا ہوتا تو سب شمس زبیری صاحب کے دارالمطالعہ کی طرف رجوع کرتے۔ اب تو مٹھی بھر لوگ بھی نہیں جو آپ کو جانتے ہیں۔ زاہد ڈار کی مانند آپ کو بھی کتاب کھا گئی۔ کتاب نے اپنی سوتن برداشت نہ کی اور آپ نے یکہ و تنہا کتاب کے سہارے عمر بہا دی۔ نصراللہ خاں صاحب درست فرمایا کرتے تھے اور یہ حقیقت بھی ہے دوام کسی بھی چیز کو نہیں سوائے اللہ کے۔ سب کچھ مٹ جاتا ہے چاہے کتاب ہو یا آرٹ۔ سنتوش آنند بھی یہ راز پا گئے۔ دیکھیے کیسے کیسے جبال علم و اکابرین علم مٹ گئے۔ نیست ہو گئے۔ ذرہ ذرہ ہو کر فضاؤں میں منتشر ہو گئے۔

کچھ گلزار کہانی کے بارے میں

ایک بچہ جو پر سکون، طراوت بخش، دریا کنارے آباد قدیمی و تاریخی و تہذیبی و علمی شہر میں تجار کے گھر پیدا ہوا، پروان چڑھا، ہر آسائش و آرام و سکینت پرور ماحول کو خیر آباد کہتے ہوئے وادیٔ علم کا مکین ہوا۔ بھیرہ سے نکلا، علی گڑھ کالج میں ڈوبا اور مدرسۂ مظاہرہ العلوم سے درخشندہ تر بن کر، علم دین سے مرصع ہو کر طلوع ہوا، دینی و سیاسی افق پر مولانا گلزار احمد مظاہری کے نام سے معروف ہوا۔ یہ کہانی صرف عالم دین کی کہانی نہیں بلکہ علم کے متلاشی و شیدا کی کہانی بھی ہے۔

یہ آمریت کے خلاف شیر کی دھاڑ تھی تو دوسری طرف شکستہ دلوں کی ڈھارس۔ یہ سیاست کے ایوانوں میں، ان ایوانوں کی غلام گردشوں میں پنپتی، مچلتی، سر اٹھاتی چالوں کی داستان ہے، جیل میں موجود قیدیوں کی نوا ہے۔ یہ آمریت کے خلاف تیغ براں ہے۔ ترکتاز ہے۔ تیموری یلغار ہے۔ یہ داستان ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب کی مرتب کردہ ہے جو کہ مولانا صاحب کے فرزند رشید ہیں۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ صاحب سے صحافتی دنیا میں کون واقف نہیں۔

آپ کے عمدہ و دلنشین و دلگداز تحاریر سے صحافت کا ستھرا ذوق رکھنے والا ہر طالب علم واقف ہے۔ اخلاق میں دھلی ہوئی اجلی تحاریر۔ یہ حقیر، ایثار رانا صاحب کا دل کے پنہاں گوشوں اور ان میں تڑپتے خون کی اک اک لہر سے شکر گزار ہے کہ انہوں نے یہ کتاب مطالعے کے لیے دی۔ ورنہ شاید میں گلزار احمد مظاہری صاحب سے نا آشنا رہ جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments