مادری زبان کا عالمی دن اور اس کا پس منظر


21 فروری دنیا بھر میں مادری زبان کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے، مگر شاید یہ بات کچھ لوگوں کے لیے تعجب کا باعث ہو کہ 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منانے کا سبب بالواسطہ طور پر پاکستان ہے۔

بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہی سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں قومی زبان کے معاملے پر تناؤ پیدا ہو گیا تھا، بنگالی صرف اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے پر سخت معترض تھے، بنگالیوں کے نزدیک بنگلہ زبان کی تاریخ اس کا کلچر اور ادب نہایت معتبر تھا اور وہ صرف اردو کو قومی زبان ماننے کے لیے تیار نہ تھے، بنگالی رہنماؤں نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بنگالی کو سرکاری زبان بنانے کی قرارداد پیش کی اور تجویز پیش کی کہ اراکین اسمبلی کو بنگالی زبان میں تقریر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، لیکن مسلم کیگی اراکین اور وزیراعظم لیاقت علی خان نے قرارداد یہ کہہ کر مسترد کردی کہ یی تجویز پکستان تقسیم کرنے کی سازش ہے۔

11 مارچ 1948 کو ڈھاکہ ہونیورسٹی اور شہر کے دیگر طلبا نے بنگالی زبان کو بطور سرکاری زبان حذف کرنے پر شہر بھر میں ہڑتال کی اور اس وقت کے مشرقی پاکستان کے چیف منسٹر خواجہ ناظم الدین کی رہائش کی طرف پیش قدمی کی کوش کی جسے پولیس نے روک دیا۔

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 19 مارچ 1948 کو ڈھاکہ کا دورہ کیا، 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ اور بعد میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے کرزن ہال میں جناح صاحب نے قومی زبان کے معاملے پر قدرے سخت موقف اپنایا اور صرف اردو کو ریاست کی قومی زبان قرار دیا، جناح صاحب کے مطابق ریاست کے استحکام کے لیے قومی زبان کی بڑی اہمیت ہے، اردو کے علاوہ کسی اور زبان کو قومی زبان بنانے والے ریاست پاکستان کے دشمن ہیں۔ تاہم جناح صاحب نے واضح کیا کہ صوبے آزاد ہیں کہ صوبائی سطح پر جس زبان کو چاہیں دفتری اور سرکاری زبان بنا سکتے ہیں۔

لیکن بنگالی قائد اعظم کی تقریر سے مطمئن نہ ہوئے، بنگالیوں کا خیال تھا کہ یہ درست ہے کہ شمال میں مسلمانوں کی متفقہ زبان اردو رہی ہے لیکن ہندوستان کے مشرق میں عوام بلاتفریق مذہب و نسل صدیوں سے بنگالی بولتے آئے ہیں، دوسرا بنگالیوں کی رائے میں سرکاری زبان اردو قرار دیے جانے سے بنگالیوں کا معاشی استحصال ہو گا کیونکہ بنگالیوں کی اکٹریت اردو سے نابلد ہے، لہذا بنگالی وفاقی سرکاری نوکریوں کے حصول میں بھی پیچھے رہ جائیں گے۔

بانی پاکستان کے انتقال کے بعد جب بنگالی رہنما خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے عہدے پر براجمان ہوئے تو بنگالیوں کو امید ہوئی کہ ایک بنگالی کے وفاق کے سب سے اعلی عہدے پر تعیناتی ان کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل کرے گی مگر بنگالیوں کو اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب خواجہ ناظم الدین نے بھی صرف اردو کو ہی ریاست کی قومی زبان ہونے کے موقف کو دہرایا۔ بنگال کے عوام میں قومی زبان کے معاملے پر بے چینی بڑھتی گئی اور مولانا بھاشانی کی قیادت میں یہ معاملہ اجتجاج اور جلسے جلوسوں سے منظم تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔

اور جب 21 فروری 1952 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے والے قانون کے خلاف شدید احتجاج کیا تو مظاہرین کا احتجاج پرتشدد ہو گیا، پولیس نے مشتعل ہجوم پر قابو پانے کے لیے گولی چلا دی جس کے نتیجے میں 5 لوگ مارے گئے جبکہ کئی زخمی ہو گئے، جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے، گو 1956 میں حکومت پاکستان نے بنگلہ کو بھی قومی زبان قرار دے دیا، سرکاری عمارتوں، سکوں اور کرنسی پر بنگلہ زبان تحریر کی جانے لگی، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، 21 فروری کے واقعے کے بعد بدقسمتی سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان خلیج اس قدر گہری ہو گئی جو بالآخر بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔

بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بنگلہ دیشی سرکار نے 21 فروری کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اس جگہ پر شہید مینار کی شکل میں ایک یادگار تعمیر کی، بنگلہ دیش میں 21 فروری قومی دن قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس دن عام تعطیل کا بھی اعلان کیا گیا۔

بعد میں 9 جنوری 1998 کو کینیڈا میں مقیم بنگالی نژاد کینیڈین ماہر لسان رفیق الاسلام نے اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کو ایک خط تحریر کیا جس میں 21 فروری کو مادری زبانوں کے تحفظ کے دن طور پر منانے کی درخواست کی گئی تھی، رفیق الاسلام کے خط کو بنگلہ دیش کی سرکار نے ایک قرارداد کے طور پر اسمپلی سے منظور کیا، اور بالآخر بنگلہ دیشی سرکار کی کوششوں کے سبب یونیسکو نے 17 نومبر 1999 کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دینے کی قرارداد منظور کر لی، جس کے بعد سے 21 فروری کو دنیا بھر میں مادری زبانوں کے بقاء اور تحفظ کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments