میں پاگل خانے میں کیوں رہتا ہوں؟


سگمنڈ فرائیڈ علم نفسیات کے ان چند مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے جدید علم نفسیات کی نہ صرف بنیاد رکھی، بلکہ ذہن انسانی کے پوشیدہ پہلوؤں کو دریافت کیا اور نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ ان کے نفسیاتی طریقہ علاج میں ایک جدت تحلیل نفسی ہے۔

فرائیڈ جب کسی نفسیاتی مریض کی تحلیل نفسی کرتا تھا تو وہ مریض کو کرسی پہ سامنے بٹھانے کی بجائے ایک صوفے پر لٹا دیتا اور خود مریض کے سر کے پیچھے اسرخ پر بیٹھ جاتا کہ مریض اس کو دیکھ نہیں پاتا تھا۔ اس تکنیک سے مریض کے خیالات کی ترسیل میں نفسیات دان مانع نہیں ہوتا تھا، اور مریض اپنے لاشعوری خیالات کا بلاجھجھک اظہار کرتا تھا۔

یوں صوفے پر لیٹے بندے سے لاشعور کی ایک رو نکلتی اور وہ دبی خواہشوں، خوابوں، محرومیوں، عہد طفلی کے واقعات اورخدشوں کا سامنا کرنے کے قابل ہو جاتا۔ یہ صوفہ فرائیڈ نے اپنے نفسیاتی علاج کے طریقے میں ارادتاً شامل نہیں کیا تھا، بلکہ یہ اتفاقی طور پر نفسیاتی تجزیہ کا حصہ بنا۔ یہ صوفہ (couch) ایک انگریز خاتوں جو فرائیڈ کے علاج سے صحت یاب ہوئی کی طرف سے فرائیڈ کو تحفے میں ملا تھا۔ سگمنڈ فرائیڈ نے اسے اپنے آفس میں اس لیے رکھا کہ مریض اس کے ساتھ پرسکون انداز میں اپنی دماغی الجھنوں، خللوں اور مسئلوں کو شیئر کر سکے۔ اس پراسیس کے بعد ہی فرائیڈ لاشعوری مواد کا تجزیہ و خیالات کی جراحت کرنے کے قابل بن جاتا۔ یوں صوفہ تحلیل نفسی کے عمل کا ایک لازمی جزو بن گیا۔

آج نفسیات کی اصطلاح میں یہ صوفہ نفسیاتی علاج کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اور تقریباً ہر نفسیات دان کے آفس کا زینت بنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ طریقۂ علاج اس ذہن کے لیے زیادہ موزوں ہو گا جو دماغی خلل کا شکار ہو گا۔ مگر ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس زعم میں مبتلا ہے کہ ہم ذہنی طور پر تندرست ہیں، جبکہ ہم خود ہی دماغی طور پر بیمار ہیں۔ ایسا بیمار ذہن اتنا وبائی ہوتا ہے کہ اس کا جس چیز سے بھی واسطہ پڑے، وہ اسے اپنی لپیٹ میں لے کر اسے بیمار کر دیتا ہے۔

اس قسم کے ذہن کی مثال ایسی زمین کی طرح ہے جو زہر آلود ہو چکی ہو۔ اس زہریلے ذہن کی زمین پر جو بھی فصل اگے گی وہ زہرآلود ہی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں چاہے سیاست، مذہب، عدلیہ، صحافت، تعلیم، دانشوری، اور ادب ہو یا کوئی اور شعبۂ زندگی، سب کے سب اس بیمار ذہن سے کسی نہ کسی صورت تعلق جڑنے کی وجہ سے اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ پھوڑوں کی مانند ہمارے سامنے پھوٹ رہے ہیں اور سارے ماحول کو متعفن کرتے چلے جا رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس بیمار ذہن کا علاج کیسے کیا جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری قوم کو ایک اجتماعی صوفے کی ضرورت ہے تاکہ تحلیل نفسی کے ذریعے ہماری ذہنی تطہیر ہو سکے۔ ہمارے معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کو ہمارے اس بیمار اور وبا زدہ ذہن سے بچانے کے لئے لازمی ہے کہ ہر شخص کو تحلیل نفسی کے صوفے سے گزارہ جائے۔ استاد کو کلاس میں داخل ہونے سے پہلے اسی صوفے پر سے گزر کر اپنی نفسیاتی صفائی کرنی ہو گی، ورنہ اس کا پہلے ہی سے متأثر دماغ طالب علموں کے ذہنوں کو بھی متأثر کرے گا۔ مولوی کو مسجد میں داخل ہونے اور وضو کرنے سے پہلے صوفے پر اپنے دل و دماغ کی صفائی کرنی ہو گی تاکہ نمازیوں کا ایمان خراب اور دماغ پراگندہ نہ ہوں۔ یعنی جسم کے وضو سے پہلے روح کا وضو کرنا ہو گا۔

اسی طرح ڈاکٹر کو بھی اس صوفے کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ اس اہل ہو سکے کہ اپنا ہاتھ مریض کی جیب پر نہیں بلکہ اس کی نبض پر رکھ سکے۔ افسر بھی اسی صوفے پر لیٹے گا تاکہ اس کا ذہن طاقت کے نخوت زدہ شکنجے سے آزاد ہو کر پبلک سرونٹ کے طور پر کام کرنے کے قابل ہو۔ جج کو بھی ہر طرح کے فیصلے صادر کرنے سے قبل کمرۂ عدالت سے متصل کمرے میں موجود صوفے میں لیٹ کر اپنے دماغ کی صفائی کروا لینی ہو گی تاکہ انصاف ملنے کی امید لیے کھڑے لوگ اسے انسان نظر آنے لگیں۔ پھرصحافی، دانشور اور ادیب کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ ہر بار کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے  یا لب کشائی سے پہلے وہ دیر تک صوفے پر رہیں تاکہ صحافی اپنی موضوعیت سے نجات پا سکے، دانشور کے ذہن سے سب جاننے اور تمام موضوعات پر دسترس رکھنے کا زعم جاتا رہے اور ادیبوں میں نرگسیت کا خاتمہ ہو سکے۔

اجتماعی تحلیل نفسی کے ذریعے کیے جانے والے اس علاج سے جیلوں کے قیدی، پاگل خانوں میں موجود لوگ اور بچے مبرا ہوں گے ، کیونکہ وہ وہی ہیں جو نظر آتے اور بولتے ہیں اور مندرجہ بالا لوگوں کی طرح مغالطوں اور میں مبتلا نہیں ہیں۔ ان کی شخصیت وہی ہے جتنی ان کی سوچ ہے۔ یہ لوگ دوسرے عقل مندوں کی طرح شخصیت اور ذہن کی دوئی کا شکار نہیں ہیں۔ ذہن اور شخصیت کی دوئی کی وجہ سے ہی معاشرے کے لوگوں کا دماغ بھی منقسم اور بیمار ہو گیا ہے، لیکن وہ اس مغالطے کا شکار ہیں کہ وہ ذہنی طور پر تندرست ہیں۔ اس لئے تو وہ معاشرے کو سدھارنے کابیڑا اپنے بیمار سر پر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہی معروف نفسیات دان کارل ژونگ نے کہا تھا ”مجھے ذہنی طور پر تندرست شخص دکھا دو، میں اسے تمھارے لئے صحت یاب کردوں گا۔“

(Show me a sane man and I will cure him for you)

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ذہن کو درست کرنے اور تندرست رکھنے والوں کا اپنا دماغ بیمار اور خراب ہو گیا ہے۔ میں نے اس مایوس کن صورتحال کو دیکھ کر تہیہ کر لیا ہے کہ میں معاشرتی دماغ کی تحلیل نفسی سے تطہیر یعنی صفائی کروں گا۔ اس لئے میں ایک ترکھان کے پاس گیا اور اسے اس صوفے کی تفصیلات بتائیں۔ ترکھان نے کہا:

”یہ عجیب سا صوفہ ہے۔ آج تک ایسا صوفہ میں نے دیکھا ہے نہ بنایا ہے۔“

پھراس نے پوچھا کہ میں یہ صوفہ کیوں بنوا رہا ہوں؟ میں نے کہا: ”معاشرے کا دماغی توازن درست کرنے کے لئے“ ترکھان غصے میں آ گیا اور کہنے لگا:

”تم تو خود ہی پاگل ہو۔ پہلے اپنا دماغ ٹھیک کروا دو، پھر جا کر معاشرے کے ذہن کی مرمت کرنا“ ۔

میں اس سے الجھ گیا کہ مجھے پاگل کیوں کہا اور تلخ کلامی ہو گئی اور نوبت لڑائی تک پہنچی۔ اسی دوران پولیس آئی۔ ترکھان نے کہا کہ اس کی جان کو مجھ سے خطرہ ہے کیونکہ میں پاگل ہوں۔ میں نے اپنی صفائی میں پولیس کو صوفے کی نوعیت، اس کا استعمال، تحلیل نفسی کا طریقہ کار اور دماغی تطہیر کے اغراض و مقاصد بیان کیے ۔ پولیس اور وہاں پر موجود لوگوں کو میں پاگل لگا۔ اس لئے پولیس نے مقدمہ درج کر کے مجھے عدالت میں پیش کیا۔ میں نے جج کو اسی صوفے اور دماغی صفائی کے متعلق بتایا۔ مگر جج نے مجھے پاگل قرار دے کر چار مہینے جیل کی سزا سنا دی۔ ساتھ ساتھ گھر والوں کو حکم دیا کہ میرا ذہنی علاج کروا لیں ورنہ پھر ایسی حرکت پر کئی سال جیل بھگتنا ہو گی۔

جیل سے رہا ہونے کے بعد کی کہانی ایک بیمار سو انار کی مانند ہے۔ میرے اوپر ہر ایک نے تجربے کیے ۔ آخر میں میں اپنا ہی نہیں رہا۔ جیل سے رہا ہوتے ہی گھر والوں نے باہم مشورے سے میرے لیے ایک مولوی سے تعویز گنڈے کروانا شروع کر دیے تاکہ ذہنی فتور ختم ہو۔ لیکن تعویز سے افاقہ نہ ہوا تو ڈاکٹرکے پاس لے گئے۔ اس نے معائنہ کر کے کہا کہ میرے جسم میں کیمیائی اجزاء کی ترتیب بگڑ گئی ہے، سو اس نے انجکشن لگانے شروع کر دیے۔ اس کی وجہ سے میرا دل و دماغ سن ہو گیا، اور میں کئی مہینوں تک غنودگی کے عالم میں رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ذہن تو سو گیا مگر جسم سوکھتا چلا گیا۔

پھر ایک ادیب نے دعویٰ کیا کہ میں حقیقت سے تنگ آ گیا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ایسے شخص کو ادب و شاعری کا ارم چاہیے جو اس کے پاس ہے۔ اس کی شاعری کے گلستان میں موجود رنگ و جمال اور خواب و خیال مجھے حقیقت سے نجات دلا دے گی اور اس طرح مجھے ذہنی سکون ملے گا۔ سو میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔ مگر یہ شاعر خود اتنا نرگسیت پسند اور کمزور تھا کہ مجھے اس پر ترس آنے لگا۔ جس دن اس کی محبوبہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراتی وہ مترنم نظمیں لکھتا۔ ایک دن اس نے اپنی محبوبہ کو کسی کے ساتھ پبلک میں ہنستے دیکھا۔بس کیا تھا سارا دن غمگین غزلیں لکھ کے مجھے سناتا۔

ڈرپوک اتنا کہ محبوبہ کے لئے بھی مذکر کا صیغہ استعمال کرتا تھا تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔ میں سمجھتا تھا کہ شاعر کے پاس کوئی دیوی ہوتی ہو گی جو اس کے تخیل کو عرش تک پہنچاتی ہے اور مترنم نغمے لکھواتی ہے۔ مگر مجھے تو شاعر کے اندر اس کی موضوعیت کا زندان نظر آیا، جہاں ہر رات وہ اپنے آپ کو اذیت دیتا ہے اور دن کو روتا ہے۔ مجھے تو اس کے ہاں کوئی رومانوی جنت نظر نہیں آئی، البتہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس نے اپنے لئے ایک جہنم بنائی ہوئی ہے اور اس کی آگ میں خوش ہے۔ سو میں اس کی شاعری کے ارم سے بھاگ گیا۔

پھر گھر والے مجھے ایک دانشور کے پاس لے گئے۔ ایک دانشور نے کہ کتابیں ان کے لئے ہیں جو دماغ رکھتے ہیں۔ دماغ کو پانے کے لئے کتابیں پڑھنا ہوتی ہیں، اور میرا دماغ ٹھکانے ہے ہی نہیں۔ اس لیے اس نے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ مجھے نفسی ماہر (psychiatrist) کے پاس لے جائیں۔ وہ نفسی ماہر مجھ سے بات چیت کرتا تھا اور ہر تین دن بعد ریاضی کے نمبرات اور شماریات سے ترتیب شدہ ٹسٹ کی مدد سے مجھے ایسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے لگا جیسے میں کوئی کمپیوٹر ہوں جس کا پروگرام کوڈ کرپٹ ہونے کی وجہ سے سافٹ ویئر خراب ہوا ہو۔

اس عمل میں اس کی فائل پھولتی گئی اور میری حالت غیر ہوتی گئی۔ اس نے میرے کیس کو بعض طلبا کے تھیسس کے لئے ریفر بھی کیا۔ اس سے کچھ نہ ہوا تو سائنسی بنیادوں پرآخر کار اس نے مجھے برقی کرنٹ لگا دیا۔ نتیجے میں میرے دماغ کے اندر کالے کنویں کی مانند ایک خلاء پیدا ہوا اور میں اس کے اندرکے اندھیروں میں گرتا چلا گیا۔

پہلے میرے ذہن کے اندر ایک انتہائی چھوٹا سا کالا نقطہ تھا۔ اب کرنٹ لگنے کے بعد وہ کالا نقطہ میرے سارے دماغ اور وجود میں ایسا پھیل گیا جیسے سیاہی کی کالی بوتل سفید کاغذ پر گرنے سے ہوتا ہے۔ اب ہر طرف اندھیرا تھا۔ میری اس کیفیت کو سمجھنے کی بجائے ہسپتال والوں نے مجھے طبی طور پر مکمل پاگل ڈکلیئر کر دیا اور معاشرہ میں رہنے کے لئے ان فٹ قرار دیا۔ یوں معاشرے کے لوگوں کو میرے خیالات اور میری ذات سے بچانے کے لئے مجھے پاگل خانے بھیج دیا گیا۔

اس معاشرے میں عجیب سا قانون ہے۔ لوگ اپنی ذہنی تندرستی ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو پاگل قرار دیتے ہیں۔ یہ معاشرہ خرد کو سلاخوں کے پیچھے بند کر کے اپنی ذہنی بیماریوں کو اچھا نام دے کر جھوٹی زندگی گزار رہا ہے۔ یہاں خرد قید ہے اورخرآزاد۔ یہی وجہ ہے کہ باہرمعاشرے میں فتوے، تعصب، غداری، نفرت، الزامات، لیبلز، دغا، دھوکہ، بے وفائی عام ہے۔ مگر یہاں پاگل خانے میں معاملہ الٹا ہے۔

اب میں پاگلوں کے ساتھ رہتا ہوں اور پاگل خانہ مجھے روحانی طور پر تندرست لوگوں کی رہائش گاہ لگنے لگا ہے، جبکہ باہر کی دنیا پاگل لگنے لگی ہے۔ میں اب اس پاگل خانے میں کھل کر بلاخوف و خطر ہر بات کا برملا اظہار کرتا ہوں۔ میری باتوں پر نہ کوئی قدغن لگاتا ہے، نہ کوئی فتویٰ جاری کرتا ہے، یہاں نہ کسی کو مرتد کہا جاتا ہے، نہ دل ٹوٹتا ہے، نہ بے وفائی، نہ کسی کو یہاں غدار قرار دیا جاتا ہے، اور نہ ہی جنت اور جہنم کے سرٹیفکیٹ جاری ہوتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر کوئی مولانا، استاد، دانشور، ادیب، حکمران، ڈاکٹر، جج، افسر نہیں ہے اور نہ ہی باہر معاشرے کی طرح کوئی نسلی اور طبقاتی درجہ بندی ہے۔ پاگل خانے کی اس روحانی پاکیزگی کو دیکھ کر معروف آئرش لکھاری اور طنز نگار جوناتھن سافٹ کی طرح کچھ آدم بیزار لوگوں نے جان بوجھ کے اس میں پناہ لی تاکہ باہر کے پراگندہ معاشرے کی ذہنیت سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ اب ہمارا حلقۂ احباب بڑھتا جا رہا ہے۔

اب آپ پوچھ رہے ہیں کہ ایسا معاشرہ جو خرد کو قید کرتا ہے اس کا کیا انجام کیا ہوتا ہے؟

اس کا جواب تو میرے پاس نہیں، البتہ مجھے اتنا معلوم ہے کہ ایسے ذہنی بیمار معاشرے میں خرد کی بات کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے میں خرد کی بات کرنا جنوں ہے اور اس کے بیمار ذہن کو ٹھیک کرنے کی جو بھی سعی کرے گا وہ پاگل ہو جائے گا۔ آپ کو یاد ہو گا جوناتھن سافٹ کی تجویز پر 1775 میں ڈبلن شہرمیں ”کند ذہن اور دیوانوں“ کے لیے سینٹ پیٹرکس ہسپتال بنایا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہسپتال تھا جہاں ذہنی امراض کا علاج کیا جاتا تھا۔

ستم ظریفی دیکھیے۔ سافٹ اپنی پچھلی زندگی میں ذہن کھو بیٹھا۔ یوں اسے اس کے اپنے بنائے ہوئے پاگل خانے میں داخل کیا گیا۔ ہمارا معاشرہ بغیرنفسی تحلیل کے صوفے کے اپنی زندگی نفسانفسی اور ذہنی بیماری میں گزار رہا ہے۔ یعنی یہ معاشرہ ایک ایسا ریوڑ یے جس کا کوئی چرواہا نہیں رہا۔ اس لئے عقل کے میمنے عقل کے دشمن بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

اب آپ مجھ سے باہر بیٹھ کر یہ پوچھ رہے ہوں گے کہ میں پاگل ہو کر بھی یہ ساری باتیں کس طرح سے کر رہا ہوں؟

اس کا جواب پانے کے لئے آپ لوگوں کو اس پاگل خانے میں داخل ہونا پڑے گا۔ مگر کون اپنے جھوٹ سے بنے آرام دہ خول سے نکلنا پسند کرے گا؟

نفسی تحلیل کے صوفے پر وہی لیٹتا ہے جس کو اپنے اندر چھپی وحشتوں، محرومیوں اورجھوٹ کا سامنے کرنے کی جرأت ہو۔ تم لوگوں میں تو اپنے آپ کو دیکھنے کی جرأت ہی نہیں ہے۔ اس لئے تم اپنے اندر کے خوف کے دائمی جہنم میں ہی رہو گے۔ سو تم اپنی جہنم میں خوش رہو، لیکن میرے لئے میرا پاگل خانہ ہی گوشہ عافیت ہے۔

(مضمون نگار ایک ریسرچر ہیں اور سماجی فلسفے اور افکار کی تاریخ کے قاری ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments