راج بی بی کی کہانی


میں آٹھ جوان بچوں کی ماں ہوں! ایک ستاون سالہ ادھیڑ عمر عورت! دل چاہتا ہے کہ آنکھ بند ہونے سے پہلے وہ سب کہہ دوں جو حسرت ہی رہی کہ کوئی سن لے اور سمجھ بھی لے!

پھر سوچتی ہوں کہ نہ جانے میری آواز آپ تک پہنچ بھی پائے گی کہ نہیں؟ اگر پہنچ بھی گئی تو معلوم نہیں اس وقت تک میں زندہ بھی ہوں گی کہ نہیں؟

میرا دشمن کوئی اور نہیں، میرا اپنا شوہر میرے خون کا پیاسا ہے۔ جی ٹھیک سنا آپ نے، میرا اپنا شوہر!

میں کہیں نہیں بھاگنا چاہتی! اب صرف موت کے دامن میں ہی پناہ ہے۔ کچھ ہی دیر باقی ہے۔ بس کچھ ہی دیر اور اس کے بعد میں سو جاؤں گی، ہمیشہ کے لئے سکون کی نیند! وہ سکون جو مجھے آج تک نہیں ملا!

میں کاری ہونے والی ہوں۔ کچھ ہی لمحات باقی ہیں میری اس ستاون سالہ زندگی کے جو میں نے اس کائنات میں دھکے کھاتے گزاری ہے۔ میرا شوہر میوہ خان اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مجھ پہ بندوق تانے کھڑا ہے۔ میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہیں تاکہ میں بھاگ نہ سکوں۔

میں نے کوشش کی تھی کہ میں اپنے بچوں کی خاطر اپنی جان بچا سکوں لیکن میری ہر کوشش ناکام بنا دی گئی۔ میں مرنا نہیں چاہتی تھی، اپنے بچوں کی خاطر۔ میری بیٹیاں جو میری طرح ہی ساری عمر کسی شوہر نامی مرد کی چاکری کریں گی اور جب زندگی کی سیڑھی کے آخری زینے پہ کھڑی ہوں گی تب ان کے اسی طرح دام کھرے کر لئے جائیں گے جیسے میرے ساتھ ہوا۔

ذرا ٹھہریے، آپ کو بات یوں سمجھ میں نہیں آئے گی۔ مجھے آپ کو یہ کہانی شروع سے سنانی ہو گی۔

مجھے رب کائنات نے کوہ سلیمان کے قبائلی علاقے میں اتارا۔ پیدا کرنے والوں نے نام راج بی بی رکھ کے نہ جانے اپنے آپ کو بہلانا چاہا تھا یا شاید سوچتے ہوں کہ چشم فلک شاید کبھی بھول کے مہربان ہو ہی جائے۔

پنتالیس برس قبل جب میری گڑیوں سے کھیلنے کی عمر تھی میں لال دوپٹہ اوڑھے اس شخص کے آنگن میں آن اتری جسے دنیا نے قانونی طور پہ میرا مالک قرار دیا تھا۔ زندگی نے اپنا نقاب اتار دیا تھا اور اب اپنے اصل روپ میں ہر دن مجھے خوفزدہ کرتی تھی۔ ابھی اپنے آپ کی سمجھ نہیں آئی تھی کہ گود بھی بھر گئی اور پھر لگا کہ مجھے اوپر والے نے اسی ایک مقصد کے لئے پیدا کیا تھا۔ لیکن کیا اس سے میرا کوئی رشتہ نہیں تھا کہ وہ میرے لئے بھی کچھ کرتا، میں دن رات یہی سوچتی تھی۔

سال کے سال حمل ٹھہر جاتا۔ میوہ خان پھر بھی مجھ پہ رحم نہ کھاتا، کبھی لات چل جاتی تو کبھی ہاتھ اٹھ جاتا۔ کئی دفعہ تو اسقاط کے عمل سے گزری اور گھر پہ ہی لوٹ پوٹ کے اٹھ کھڑی ہوتی۔ ہمارے علاقے میں یونہی ہوا کرتا ہے۔ گائے بھینس بیمار ہو جائے تو مالک بے حد فکر مند ہوتا ہے۔ وہ مہنگی آتی ہے نا۔ عورت کا کیا؟ آج ایک مرے، کل دوسری مل جاتی ہے۔

زندگی سے الجھتے، اپنے آپ سے الجھتے، بہت سے سوال و جواب سلجھاتے زندگی بیت ہی گئی۔ لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں تھا۔ نیل نیل جسم پہ ہلدی اور سینکائی کی ضرورت اکثر پڑتی کہ شوہر کے تن بدن میں دہکتی آگ کو سرد عورتوں کے جسم ضربیں برداشت کر کے ہی ٹھنڈی کیا کرتے ہیں۔

پے درپے حمل اور زچگیوں نے میرا حلیہ بگاڑ دیا۔ غربت، ناخوشی، مصائب، مشکلات ، ذمہ داریاں اور زمانے کی ٹھوکروں نے مجھے عین شباب میں ہی بوڑھا کر دیا۔ ماں باپ بہن بھائی رشتے دار کہاں بستے ہیں، مجھے کچھ خبر نہیں تھی۔ ہمارے علاقوں میں والدین لڑکیوں سے ایسے ہی چھٹکارا پاتے ہیں۔

ان تاریک شب وروز کا ایک ایک پل گنتے بالآخر زندگی کی شام آ گئی۔ میں نے سوچا تھا کہ شاید اب وہ وقت آن پہنچا جب میں سکون کا سانس لے سکوں گی، تھوڑا سا آسمان اور دو قدم زمین یا شاید دو گز زمین!

لیکن مالک تو میوہ خان تھا نا اور مالک تو بوڑھے ہوتے جانور کے بھی دام کھرے کیا کرتے ہیں!

میوہ خان کی ہوس دور کی کوڑی لائی جس میں مجھ سے بھی چھٹکارا مل جاتا اور ایک نوعمر پرشباب لڑکی اس کے بڑھاپے کا سہارا بھی بن جاتی۔ یہ تو ہمارے علاقے میں مشکل تھا ہی نہیں۔ بس ایک ایسا مرد ڈھونڈنا تھا جو نوعمر بیٹی کا باپ بھی ہو۔ یہ قرعہ اس شخص کے نام پڑا جس پہ میرے ساتھ کارو ہونے کا الزام لگایا گیا۔

میں چیخ چیخ کے دہائیاں دیتی رہی۔ جرگے کو رو رو کے بتایا کہ میرا جسم ہڈیوں کی مالا اور ایک چلتی پھرتی لاش ہے۔ روح سے خالی لاش جس پہ ہر سانس بھاری ہے سو مجھے کسی مرد کی ضرورت نہیں۔

لیکن جرگے والے کیوں سنتے، مرد تھے نا! احساس سے محروم ، درشت لہجے اور مردہ دلوں کے مالک! انہوں نے وہی کیا جو میوہ خان چاہتا تھا۔ دوسرے مرد کی نوعمر بیٹی دلہن بنا کے میوہ خان کو سونپ دی گئی اور ساتھ میں پانچ لاکھ جرمانہ!

جانتے ہیں مردوں کے جرگے نے میرے لئے کیا فیصلہ کیا؟ میرے حصے میں میوہ خان کی بندوق سے نکلنے والی گولی تھی، میوہ خان کا الوداعی تحفہ!

دیکھا آپ نے، دونوں مردوں کی زندگی سہل کرتے ہوئے دو عورتوں کی زندگی چھین لی گئی۔ عمر رسیدہ کو قبر رسید کیا گیا اور نوعمر کو مصلوب!

زندہ رہنے کی خواہش تو نہیں تھی لیکن اپنی بیٹیوں کے لئے میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد لینے کا سوچا۔ کسی نہ کسی طرح فرار ہو کر میں ان تک پہنچی۔ اپنی کتھا اس امید میں سنائی کہ کوئی نہ کوئی تو میری سنے گا مگر میں ایک اہم بات بھول گئی تھی، ایک بہت اہم بات! وہ بھی تو مرد تھے!

میری بات پہ کسی نے اعتبار نہیں کیا۔ میری تمام التجاؤں کے جواب میں میوہ خان کو بلا کے مجھے پھر اس کے حوالے کر دیا گیا۔ کسی مرد کو میری حالت پہ رحم نہیں آیا۔ اب سمجھ آیا آپ کو، وہ سب ایک دوسرے کے مفادات اور املاک کا تحفظ کیا کرتے ہیں۔ ہم عورتیں ملکیت ہی تو ہیں!

اب میں ہتھیار ڈال چکی ہوں۔ اس زمین پہ تو کوئی سننے والا تھا نہیں اب سوچ رہی ہوں، اوپر پہنچ کے اسی کو حال دل سناؤں گی جو اس زمین و آسمان کا مالک ہے۔

اگر آپ تک میری کہانی پہنچ جائے تو راج بی بی کی آخری گھڑیاں یاد کر لیجیے گا۔ آپ کے آنکھوں کی نمی شاید میری قبر پہ کچھ پھول کھلا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments