مادری زبان اور معاشرتی ارتقا


اگرچہ مادری زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے لیکن ضروری نہیں کہ زبان ہی شناخت کو طے کرے۔ شناخت کو طے کرنے میں زبان کے ساتھ ساتھ اور بہت سارے عوامل ہیں جیسا کہ ہجرت کرنے والے بڑے بڑے قبیلوں کی مثالیں دیکھ لیں۔ ضرورت کے تحت وہ نئی جگہ کی زبان کے ساتھ اپنی زبان کو منطبق کر لیتے ہیں۔ لیکن رسوم و رواج، رہن سہن، معاشرتی اصول، لباس، مذہب وغیرہ وہی رہتے ہیں۔ جیسے ہزارہ ڈویژن یا پنجاب اور کراچی میں بسنے والے پختون پشتو نہیں بول سکتے لیکن باقی رسوم و رواج کافی حد تک وہی ہیں جو پشتو بولنے والوں یا پشتون علاقوں کے ہیں۔

اسی طرح پشتون علاقوں میں بسنے والے دوسری زبانیں بولنے والوں کے کلچر پشتون کلچر جیسے ہیں جیسے کوہستانی، پشاور اور کوہاٹ کے ہندکو بولنے والے بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ جیسے خیبر پختونخوا اور افغانستان کے سکھ، ہندو اور یہودی مذاہب کے لوگ۔

نئی زبان میں پرانے الفاظ کی آمیزش سے زبان کا کلچر بھی قائم رہتا ہے جیسا کہ اردو میں فارسی، عربی، ہندی، انگریزی اور پرتگیزی زبانوں کے الفاظ اور اثر ابھی تک موجود ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ زبان کی تبدیلی کسی جبر (oppression) یا استحصال کا نتیجہ ہو۔

جیسے ہزارہ ڈویژن کے پختون تو حملہ آور تھے ، باہر سے آئے تھے لیکن انہیں مقامی لوگوں کی زبان اپنانا پڑی ، اگرچہ اپنا کلچر قائم رکھا۔ آج بھی اس علاقے میں ہندکی (ہندکو بولنے والے مقامی قبائل جیسے گجر، مغل، عباسی، سردار اور اعوان وغیرہ) اور پٹھان (ہندکو بولنے والے دوسرے علاقوں سے آنے والے پختون قبائل، تنولی، جدون، ترین، یوسفزئی، سواتی وغیرہ) کی مخاصمت موجود ہے جبکہ اٹک پار والے پختون ان دونوں گروپس کو پنجابی گردانتے ہیں۔

اسی طرح مانسہرہ ڈویژن، بٹگرام یا ہری پور (سری کوٹ) کے پشتو بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی دو مادری زبانیں ہیں، ہندکو بولنے اور پشتو اگرچہ ایک کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور دوسری دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ اسی طرح پشتون علاقوں میں ہندکو بولنے والے بھی موجود ہیں جیسے صوابی (ہیملٹ) ، پشاور، کوہاٹ اور بنوں وغیرہ میں یا ڈیرہ اسماعیل خان والی سرائیکی جو ہندکو اور سرائیکی کا درمیانی لہجہ ہے۔

اسی طرح بعض لوگ باقی کلچرل عناصر کو بھول کر صرف زبان کو یاد رکھتے ہیں۔ جیسے مغرب میں بسنے والے ایرانی جو پوری طرح مغرب زدہ ہونے کے باوجود گھروں میں فارسی بولتے ہیں۔

لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بچہ جس کو شروع سے اردو سکھائی گئی گھر میں لیکن اس کے ماں باپ کی مادری زبانیں ایک یا دو ہیں، جیسا کہ اکثر گھرانوں میں ہے اور بچے اردو بول رہے ہوں۔ انہیں اپنی مادری زبانیں سیکھنے میں دس پندرہ سال لگتے ہیں۔ کیا وہ اردو میں سوچیں گے یا اپنے ماں یا باپ میں سے کسی کی زبان میں؟ یقیناً اردو میں۔ لیکن ان کو کیا آپ دو تین زبانیں اکٹھی سکھا سکتے ہیں؟ اگر سکھا بھی دیں تو مادری زبان کون سی ہو گی اور کیا ایک شخص بہت ساری مادری زبانوں کا حامل ہو سکتا ہے؟

کیا وہ بیک وقت کئی زبانوں میں نہیں سوچ سکتا اور کیا یہ ضروری ہے کہ صرف ایک بالغ اور کئی زبانیں بولنے والا صرف مادری زبان میں سوچے؟ اس پر کوئی تحقیق موجود نہیں ، یہ صرف ایک مشاہداتی رائے ہے جو کافی حد تک درست ہے لیکن مطلق نہیں ہے۔ سائنس دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ زبان دماغ کا فریم ورک تبدیل کرتی ہے۔ نئی زبانیں سیکھنے اور بولنے سے آپ کے دماغ کے نیورل پیٹرن تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ملٹی لنگوئل بچے حساب اور سائنس یا پرابلم سالونگ میں تیز ہوتے ہیں۔ تو کیا بچوں کو ایک زبان پر محدود کرنا درست ہے؟

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک گجراتی بولنے والی فیملی نے 75 سال پہلے پاکستان کا رخ کیا اور وہ کراچی میں آن بسے اور ان کے نئی نسل صرف اردو بولتی ہے تو کون سا ایسا لمحہ ہو گا جہاں ان کی مادری زبان گجراتی سے اردو میں تبدیل ہوئی اور جہاں بچوں نے اردو میں سوچنا شروع کیا؟ اسی طرح وہ پختون قبائل جو پنجاب، ہندوستان یا ہزارہ ڈویژن میں ایک دو یا تین صدیوں پہلے جا کر بسے اور جو کلچرلی پشتون ہی ہیں مگر زبان تبدیل ہو گئی تو کیا ان کی شناخت بھی تبدیل ہو گئی؟

مادری زبان کا شناخت یا قومیت سے تعلق کس حد تک ہے اور شناخت طے کرنے میں کس حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے یہ کوئی بھی طے کر سکا نہ کر سکتا ہے۔

مزید براں وہ زبانیں جو وقت کے ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہیں ، ان کو محفوظ کرنے کے لیے کیا سدباب کیے جائیں؟ کیا بچوں کو ان زبانوں میں تعلیم دینا ہی واحد حل ہے؟ کیا وہ ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے معاشرے میں پیچھے نہیں رہ جائیں گے جس میں کوئی تراجم، لٹریچر اور کتب موجود نہیں؟ کیا ماہرین لسانیات (لنگوئسٹس) کا کام کسی زبان کو اس طرح محفوظ کرنا ہے؟ ماہرین لسانیات ایسی زبانوں کے رسم الخط تجویز کر کے اس زبان کی کہانیاں، حکایات، محاورے، لہجہ اور تحفظ وغیرہ ہی محفوظ کرتے ہیں ، وہ زبان کے ایک قدرتی معاشرتی ارتقاء کو روکنے کی کبھی بھی ترویج نہیں کرتے نہ اس کو ایک معاشرتی طور پر صحت مندانہ عمل سمجھتے ہیں۔

بعض ادبی حلقے اور زبان دان زبانوں کے حوالے سے رجعت پسندی اور زبان کی حفاظت اور ”پاکیزگی اور طہارت“ پر یقین رکھتے ہیں (جس کا میں بالکل حامی نہیں ہوں ) لیکن وہ ماہرین لسانیات نہیں ہوتے ، وہ صرف ایک زبان کے ماہر ہو سکتے ہیں زبانوں کی سائنس اور علم کے ماہر نہیں ہوتے۔ یہ ایسا ہے جیسے ایک شخص فوٹو شاپ کا ماہر ہو، آپ اسے سافٹ ویئر انجینئر نہیں کہہ سکتے۔

مادری زبان کی احیاء کی تحریکیں بالکل درست ہیں ، ضروری ہیں اور بالکل چلنی چاہئیں۔ ریاست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایک زبان کو عوام پر مسلط کیا جائے۔ اپنے بچوں کو مادری زبان بھی سکھانی چاہیے لیکن یہاں پر یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ معاشرتی ارتقاء نہ تو ریاست کا تابع ہوتا ہے نہ قوم پرستی کا۔ ریاست تسلط سے زبان کو تبدیل کر سکتی ہے بالکل بجا، تحریکیں زبان کا احیاء بھی کر سکتی ہیں یہ بھی درست ہے اور میں اس دوسری والی پوزیشن کا حامی بھی ہوں۔

لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں زبان اور کلچر کا تنوع بہت زیادہ ہے ، وہاں اگر ریاست کا زبان مسلط کرنے کا جبر درست نہیں تو قومیت پسندوں کا ایک زبان کا نفاذ ہی درست ماننا بھی درست نہیں بلکہ اوپر بیان کیے گئے عوامل جیسے کہ معاشرے میں تنوع، ارتقاء، علم کی ترویج اور پیچیدہ معاشرتی ساخت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے اور ایک ترقی پسند اور معقول پوزیشن کو اپنانا چاہیے۔ کسی بھی زبان کی سیاست اچھی بری ہو سکتی ہے، افادیت بھی کم زیادہ ہو سکتی ہے لیکن کوئی زبان بحیثیت خود اچھی بری نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر عاکف خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر عاکف خان

مصنف فزیکل سائینز میں پی ایچ ڈی ہیں۔ تدریس اور ریسرچ سے وابستہ ہونے کے ساتھ بلاگر، کالم نویس اور انسانی حقوق کےایکٹیوسٹ ہیں۔ ٹویٹر پر @akifzeb کے نام سے فالو کیے جا سکتے ہیں۔

akif-khan has 10 posts and counting.See all posts by akif-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments