تنظیم اساتذہ کا اجلاس اور شرکاء کے خیالات


خود کہہ رہے ہیں عشق کی راہوں کے پیچ وخم
منزل بہت حسین ہے، رستہ خراب ہے
(ڈاکٹر ولا جمال العسیلی)

اس خراب رستے کی درستی اور عشق کی راہوں کے پیچ و خم میں محو سفر رہنا صاحبان جنوں کا کام ہے جو اپنا گھر بار، مال و متاع اور اہل و عیال کو خدا کے سپرد کر کے راہ عمل میں نکلے کھڑے ہوتے ہیں اور خدا کے فرمان ”نکلو اللہ کے راستے پر چاہے ہلکے ہو یا بھاری“ کو حرز جاں بنا لیتے ہیں ، پھر خدائے لم یزل بھی ان کو بے آسرا نہیں چھوڑتا۔ منزلیں ان کے قدموں کی خاک بنتی ہیں تو فلک جھک کر سلامی پیش کرتا ہے۔ تاریخ کے سنہرے اوراق انھیں اپنی آغوش میں لے کر امر کر دیتے ہیں۔

آج کچھ ایسے ہی صاحبان جنوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا جو عددی قوت میں تو کم مگر فکری و قلبی قوت میں کوہ ہمالیہ بھی ان کے سامنے ہیچ نظر آتا تھا۔ یہ صاحبان علم و دانش پنجاب کی مختلف درسگاہوں میں معلمی کے پیشہ سے وابستہ تھے اور ”تنظیم اساتذہ“ کے نظم میں بندھے علمی درسگاہوں میں اعلائے کلمۃ اللہ کے نقیب و علمبردار تھے۔

آ ج جہانیاں ماڈل ہائی سکول میں تنظیم اساتذہ کی نئے امیدواران رکنیت اور ارکان تنظیم کا تربیتی پروگرام تھا۔ جس کی صدارت صوبائی صدر تنظیم اساتذہ پاکستان پروفیسر غلام اکبر قیصرانی صاحب نے کی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور پروفیسر ڈاکٹر محسن علی صاحب نے تزکیۂ نفس کے موضوع پر درس قرآن دیا اور دین اسلام کے عملی پہلوؤں خصوصاً اخلاقی، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور سماجی پہلوؤں کے زندگیوں پر اطلاق پر زور دیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ اور اصحاب پیغمبر رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت صرف عبادات کا مجموعہ ہوتی تو کفار مکہ اتنی شدومد سے مخالفت نہ کرتے۔ ان کی دعوت نظام کہن کے خاتمے کی دعوت تھی جس نے سرداران مکہ کی اجارہ داریوں پر ضرب لگائی۔ جس نے فرسودہ و ظالمانہ رسوم و رواج سے بغاوت کی راہ دکھائی۔ جس نے نفرتوں کے الاؤ کو محبت کی شبنم ڈال کر ٹھنڈا کیا۔ آج اسلام کی اسی روح کو پھر سے زندہ کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی ضرورت ہے۔

محمد رمضان ظفر صاحب نے انفاق فی سبیل اللہ کے موضوع پر درس حدیث پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریکوں کو پنپنے اور آگے بڑھنے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ مالی وسائل اس تحریک سے وابستہ لوگ فراہم کرتے ہیں۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے جذبہ ایثارو قربانی کی مثالیں پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا وہ لوگ ہمہ وقت ایک دوسرے سے انفاق فی سبیل اللہ میں آگے بڑھنے کے متمنی رہتے تھے۔

ڈاکٹر عبداللہ ظفر صاحب صدر تنظیم اساتذہ ضلع خانیوال نے افتتاحی خطاب میں تنظیم اساتذہ کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 1969 میں جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے نعروں سے گونج رہا تھا اور تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ ڈالنے والے بنگالی ہندو اساتذہ کے پراپیگنڈے کا شکار ہو کر سڑکوں پر ریاست مخالف نعرے لگا رہے تھے تو کچھ درد دل رکھنے والے لوگوں نے آئندہ نسلوں کی اسلامی خطوط پر تربیت، نظریہ پاکستان کا دفاع کرنے اور اس کی ترویج کے لیے اس تنظیم کی بنا رکھی۔ قرآن و سنت کی روشنی میں طلبا کی تعمیرسیرت و کردار اس کا مقصد تھا۔ ابتدا سے آج تک یہ تنظیم اپنے مقصد سے جڑی ہوئی ہے۔ نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

نفاذ اردو کے لیے عملی تدابیر کے موضوع پر ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر محمد اشتیاق صاحب نے پر مغز اور مدلل گفتگو کرتے ہوئے کہا خالق کائنات نے اپنا الہامی پیغام جس قوم کی طرف بھی بھیجا ان کی قومی زبان میں بھیجا۔ اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ قوموں کی تعلیم و تربیت ان کی قومی زبان میں ہی ممکن ہے۔ دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے ملک نے بھی اس قانون قدرت کو سمجھ لیا مگر بدقسمتی سے نہ سمجھ سکے تو ہم نہ سمجھ سکے ، اس لیے آ ج بھی بھکاری ہیں اور اقوام عالم میں ذلیل و رسوا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ارباب اقتدار یہ کہتے ہیں کہ اردو میں سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ ممکن نہیں۔ یہ ان کی دروغ گوئی اور بد نیتی ہے اردو سائنس بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان جیسے ادارے بہت پہلے اس پر کام مکمل کر چکے ہیں اور ضخیم جلدوں میں یہ اصطلاحات وضع کر چکے ہیں مگر صاحبان اقتدار سامراجی ایجنڈے پر چلتے ہوئے اس سے چشم پوشی اختیار کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اصطلاحات سازی دراصل ایجادات کے زمرے میں آ تی ہے۔

ایجادات آزاد ذہن کرتے ہیں اور مقتدر طبقہ ہمیں وہ آزادی نہیں دینا چاہتا۔ یہ آزادی چھیننا پڑے گی۔ انھوں نے شرکاء کو اپنی کاوشوں سے آ گاہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا اوڑھنا بچھونا اب یہی ہے۔ میں دو ہزار سے زائد اصطلاحات وضع کر چکا ہوں اور کتابی شکل میں بھی منظر عام پر لا کر یاران نکتہ دان کو صلائے عام دے چکا ہوں۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا چکا ہوں مگر ہنوز منزل دور است۔ لیکن مایوس نہیں۔ اپنے محدود وسائل میں رہ کر یہ جدوجہد جاری رکھوں گا۔ انھوں نے تنظیم اساتذہ کی قیادت سے اپیل کی کہ وہ اردو کے عملی نفاذ کو اپنا مقصد اولین بنائے اور دارالترجمہ کی بنیاد بھی رکھی جائے کیونکہ یہ دور حاضر کی ضرورت ہے۔

زوال امت میں تعلیم کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے بانیٔ تحریک نفاذ اردو اور ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر رانا غلام مصطفیٰ صاحب نے کہا کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کے مصداق زوال امت میں بادشاہانہ طرز حکومت نے بنیادی کردار ادا کیا۔ خلافت بنو امیہ کے بعد نہ صرف فتوحات کا سلسلہ رک گیا بلکہ فکری، تعلیمی، تہذیبی ارتقا بھی خلافت کے حقیقی جانشین کی بحث کی نظر ہوا اور تاتاریوں نے آ کر یہ جھگڑا یوں نمٹایا کہ بغداد کو تما م ترعلمی، فکری اور تہذیبی ورثے سمیت دجلہ و فرات برد کر دیا۔

اس کے برعکس بر صغیر میں انتقال اقتدار میں جمہوری روح برقرار تھی اور غلام بھی صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر بادشاہ بنے اس لیے یہاں تاتاریوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ مغلیہ خاندان نے موروثیت کو رائج کر کے اسلامی روح ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آ ج اردو زبان کو عملی طور پر نافذ نہ کیا گیا تو مسلمانوں کے ہزار سالہ دینی، تہذیبی، علمی و فکری اثاثہ ضائع ہو جائے گا اور ہماری آنے والی نسلوں کا دین اسلام پر قائم رہنا بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

اختتامی خطاب میں صدر تنظیم اساتذہ صوبہ پنجاب پروفیسر غلام اکبر قیصرانی صاحب نے تنظیم کے احیاء کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کفر الحاد کے اس دور میں اعلائے کلمۃ اللہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد موجود صالح سوچ رکھنے والوں کو اس پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرنا ہو گا۔ خود کو بھی قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا ہو گا اور طلبا کی تعمیر سیرت و کردار اسی نہج پر کرنا ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی اساتذہ کو اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنا پڑی تنظیم اساتذہ کے ارکان اس میں فرنٹ لائن پر موجود رہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب ٹیچر یونین سے لے کر یونیورسٹی کی سٹاف اکیڈیمک ایسوسی ایشن تک ہمارے تربیت یافتہ لوگ ہیں جو نہ کبھی نہیں جھکے اور نہ ہی بکے۔

انھوں نے کہا کہ چھپن اسلامی ملکوں میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں سب کو کام کی آزادی حاصل ہے۔ یہاں ملحدانہ افکار کا پرچار کیا جاتا ہے اور غیر ملکی این جی اوز بھی اپنے ایجنڈے نافذ کرنے کے مشن پر ہیں۔ ان سب کا تدارک اور ان کو منہ توڑ جواب صالح سوچ والے افراد کے اکٹھ سے ممکن ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہم اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے نکلتے ہیں تو نصرت خداوندی ہمارے ساتھ ہوتی ہے۔

اس کے بعد اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہونے والے دو اساتذہ محمد یونس زاہد صاحب اور محمد یونس اسماعیل صاحب کو الوداع کیا گیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں تنظیم کے ساتھ وابستہ یادوں کو تازہ کیا اور نئے آنے والوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ آخر میں اجتماعی دعا ہوئی اور نماز ظہر کی باجماعت ادائیگی کے بعد شرکاء کو پر تکلف ظہرانہ دیا گیا۔ اس پروگرام سے واپسی پر میرے دل و دماغ میں اقبال علیہ الرحمہ کی یہ غزل گونج رہی تھی۔ دعا ہے رب کائنات سے کہ یہ ایک دن حقیقت کا روپ دھارے اور میرا وطن رہتی دنیا تک قائم۔ و دائم رہے۔

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
یہ مدرسہ یہ جواں یہ سرور و رعنائی
انہیں کے دم سے ہے مے خانۂ فرنگ آباد
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد
فقیہ شہر کی تحقیر کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرت پرویز
خدا کی دین ہے سرمایۂ غم فرہاد
کئے ہیں فاش رموز قلندری میں نے
کہ فکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments