سینیٹ انتخابات: کمزور امیدوار یا اپنے ہی اراکین پر عدم اعتماد، ایوان بالا کا الیکشن تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی کیوں؟


عمران خان

پیر کا دن ایسے دنوں میں سے تھا جیسے کسی خاص الیکشن کے موقع پر ہوتا ہے۔ پشاور میں وزیراعظم عمران خان کے سامنے خیبرپختونخوا سے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بیٹھے ہوئے تھے۔

وزیراعظم نے حسب معمول ان اراکین پارلمینٹ کے ساتھ سینیٹ کے تین مارچ کو ہونے والے انتخابات کے دوران شفافیت برقرار رکھنے اور الیکشن میں کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے ایک جذباتی گفتگو کی۔

عمران خان کے سامنے بیٹھے اراکین اسمبلی نے ان کی باتوں کی تائید میں سر ہلانا شروع کیے تو وزیراعظم نے انھیں بتایا کہ سنہ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں بھی ایسے ہی پارٹی کے اراکین اسمبلی نے سر ہلائے تھے لیکن جب الیکشن کے نتائج آئے تو ’جو لوگ بِکے تھے ان میں وہی سرہلانے والے سب سے زیادہ تھے۔‘

سنہ 2018 کے سینیٹ الیکشن کے بعد عمران خان نے صوبے میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سفارش پر ووٹ کے عوض مبینہ رشوت وصول کرنے والے اپنے بیس سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔

پیر کے اجلاس میں حاضرین کے علاوہ کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو کسی وجہ سے اس میٹنگ میں نہیں آئے اور یہی وہ لوگ تھے جن کے سینیٹ الیکشن میں پھسل جانے کے خدشات سے بھرپور ہیڈلائنز ٹی وی چینلز پر چل رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

عاصمہ شیرازی کا کالم: اب کی بار نیوٹرل امپائر؟

سینیٹ الیکشن: جیت کر بھی ہار جانے کا خوف، آخر کیوں؟

سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلٹنگ کا معاملہ: ’نوٹوں سے بھرے بیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں‘

اجلاس میں شریک نہ ہونے والوں میں گذشتہ سینیٹ انتخابات میں پیسوں سے بھرے بیگ کی ویڈیو میں نظر آنے والے سابق وزیر قانون سلطان محمد خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک شامل تھے جنھوں نے حالیہ ضمنی انتخابات میں پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں مبینہ طور پر مسلم لیگ ن کے امیدوار کو مدد فراہم کر کے ضلع نوشہرہ کے تحریک انصاف کے ’ناقابل تسخیر گڑھ‘ ہونے کے تاثر کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔

ہال سے میڈیا کو بھیجی جانے والی ویڈیو میں وزیراعظم عمران خان سمیت سب بڑے خاموش اور سنجیدہ بیٹھے ہوئے تھے جس نے اس تاثر کو مزید تقویت دی کہ جیسے اجلاس کے اندر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی کارکردگی اور سینیٹ الیکشن کو لے کر تناؤ پایا جاتا ہو۔

غیر حاضر اراکین قومی و صوبائی اسمبلی

صوبے سے تحریک انصاف کے منتخب ایم این ایز میں سے سات رکن اس اہم ملاقات میں موجود نہیں تھے جن میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، علی محمد خان، صالح محمد، ارباب عامر، یعقوب شیخ اور صاحبزادہ صباحت اللہ شامل تھے جن کی غیرموجودگی کی الگ الگ ذاتی اور دیگر وجوہات تھیں۔ جبکہ ایک وفاقی وزیر عمر ایوب ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کا حصہ تھے۔

اسی طرح صوبائی اسمبلی کے پانچ پارٹی اراکین ضیااللہ بنگش، ستارہ آفرین اور ملیحہ علی اصغر نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ جبکہ سلطان محمد اور لیاقت خٹک بھی موجود نہیں تھے۔

صوبے میں حکومت کے ترجمان کامران بنگش سے جب اس معاملے پر استفسار کیا گیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ اراکین مختلف وجوہات کی بنا پر غیر موجود تھے اور ان سب نے وزیراعظم یا مجاز لوگوں سے پیشگی اجازت بھی لی تھی۔

تاہم بعض میڈیا اداروں نے اپنی خبروں میں اس بات پر زور دیا کہ وزیراعظم کے زیر صدارت اس اجلاس میں شریک نہ ہونے والے ایم این ایز کی تعداد 12 سے 14 تھی جبکہ ان میڈیا اداروں کے مطابق شریک نہ ہونے والے ایم پی ایز کی تعداد چھ تھی جن کے بارے میں یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے وہ بھی سینیٹ انتخابات میں پارٹی پالیسی سے نالاں ہیں۔

کیا وزیراعظم نوشہرہ میں پارٹی کے اندر اختلافات اور حالیہ ضمنی الیکشن ہارنے پر پریشان ہیں اور اسی وجہ سے یہ سب پشاور میں جمع ہوئے تھے؟

اس سوال کے جواب میں وزیر اعلی محمود خان نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان ان کی دعوت پر پشاور آئے تھے اور انھیں یہ دعوت ضمنی انتخابات سے پہلے دی گئی تھی۔

محمود خان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کسی معاملے پر پریشان نہیں اور انھوں نے اگر نوشہرہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ہاری ہے تو اس کے مقابلے میں سابقہ قبائلی علاقے کرم سے این اے 45 پر قومی اسمبلی کی نشست جیتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ضمنی انتخابات میں کوئی بڑا نقصان ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں نوشہرہ میں ایک سیٹ جیت سکی ہیں تو انھوں نے بھی تو کرم سے مولانا فضل الرحمن کی جماعت کی قومی اسمبلی کی نشست جیتی ہے۔

نوشہرہ میں پی کے 63 کی نشست تحریک انصاف کے مرحوم صوبائی وزیر جمشید الدین کاکا خیل کی وفات سے خالی ہوئی تھی جس پر اب مسلم لیگ نون کے اختیار ولی کئی دیگر اتحادی جماعتوں کی مدد سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔

جبکہ تحریک انصاف کے حصے میں آنے والی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 45 کی نشست جمعیت علمائے اسلام کے منیر اورکزئی کی وفات سے خالی ہوئی تھی جس پر حکومتی جماعت کے ملک فخر زمان خان بنگش کامیاب ہوئے ہیں۔

سینیٹ انتخابات کی منصوبہ بندی

وزیراعظم عمران خان پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی سے کیا چاہتے ہیں، اس کے جواب میں پشاور سے منتخب رکن قومی اسمبلی شوکت علی خان نے کہا کہ اجلاس میں ایسی منصوبہ بندی کا فیصلہ ہوا ہے کہ پارٹی کا کوئی ووٹ باہر نہ جا سکے بلکہ ’اپوزیشن کے ووٹ بھی ہمارے امیدواروں کو ملیں۔‘

خیبر پختونخوا سے پانچ سینیٹرز منتخب کرانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور ہر سینیٹر کے لیے ایم پی ایز کا ایک گروہ ہو گا جس کے اراکین کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جائے گا تاکہ گذشتہ بار کی طرح اس بار بھی پارٹی کو نقصان نہ ہو۔

شوکت علی خان کا کہنا تھا کہ گذشتہ بار ایم پی ایز کو ملنے والی سزاؤں کا یہ نتیجہ ہے کہ اس بار پارٹی کے ووٹ بہت کم بکنے کا امکان ہے۔

اجلاس کے شرکا کے مطابق یوں تو تحریک انصاف سینیٹ انتخابات کے بارے میں بالکل بھی پریشان نہیں تاہم اسی اجلاس میں موجود بعض اراکین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اب کے بار بھی اس اجلاس کا مقصد اپنے سینیٹ امیدواروں کو کامیابی سے منتخب کرانا ہی ان کا ایجنڈا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے خاندان سے شکست کی جانب جو سفر شروع ہوا ہے اس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور اگر سینیٹ انتخابات سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہوئے تو گذشتہ بار کے مقابلے میں ’زیادہ لوگوں کے پھسلنے کا چانس‘ موجود ہے۔

ایک پارٹی رہنما سے جب وزیراعظم عمران خان کے اضطراب کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ سال 2018 کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ پہلے کے مقابلے میں مختلف حوالوں سے ’کمزور‘ لوگوں کو ملی ہیں۔ اس لیے پارٹی اور وزیراعظم دونوں اس بار کسی حد تک پریشان ہیں اور اگر پارٹی کے یہ سب منتخب اراکین اتنے ہی قابل اعتماد ہوتے تو عمران خان کو سب کے سامنے اس بات کا اعلان کرنا چاہیے تھا کہ چلیں جس بھی طریقے سے الیکشن کرانے ہوں وہ اس کے لیے تیارہیں۔

ان ’کمزور‘ اراکین کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی بھی عمران خان کی پریشانی کا باعث ہے جس کی وجہ سے ووٹنگ کے لیے شو آف ہینڈ کی تجویز پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔

وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی وزیراعظم کو اپنے اہل خاندان کی جانب سے گذشتہ ضمنی انتخابات میں شکست کے عوامل پر بریف کیا اور بتایا کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے اور وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی اصل ملزم قانون کے نرغے میں ہوں گے۔

کچھ شرکا نے اس بات کی تصدیق کی کہ پارٹی کے ریجنل صدر فضل محمد خان نے شکوہ کیا کہ سینیٹ امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے میں انھیں اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ جبکہ بعض لوگوں نے سرکاری افسران کی جانب سے عدم تعاون کا شکوہ بھی کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp