اپنوں کے ستم سے وزیراعظم گھبرا گئے ہیں


وزیراعظم کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ انہیں سینیٹ کے الیکشن نے خوفزدہ کر رکھا ہے حالانکہ ان کے ووٹ بینک کو ان ضمنی انتخابات میں کوئی زیادہ نقصان پہنچتا دکھائی نہیں دیا۔ پھر بھی یہ پریشانی کیوں ہے؟ پہلے وزیراعظم کا جمعہ 19 فروری کا بیان دیکھ لیتے ہیں۔

خبروں کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن ہمارے لوگوں کو خریدنا چاہتی ہے، یہ کیسی جمہوریت ہے۔ منڈی لگی ہے، سینیٹر بننے کے لیے، سیاست دانوں کو خریدنے کے لیے قیمتیں لگ رہی ہیں۔ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں ہمارے لوگوں کو خرید کر کسی طرح اپنے زیادہ سینیٹر لے آئیں، یہ کون سی جمہوریت ہے، کبھی جمہوریت میں بھی کوئی پیسہ دے کر آتا ہے؟

غالباً اس خوف کی وجہ دو حلقے ہیں۔ ایک تو ڈسکہ کا جہاں بیس پریزائڈنگ افسران، ان کے موبائل فون اور پولیس گارڈ شدید دھند میں گم ہو گئے تھے جبکہ اسی علاقے میں بقیہ 340 افسران کو دھند پکڑنے میں ناکام رہی تھی۔ وہاں مقابلہ سخت تھا۔ خیر ہمیں یقین ہے کہ وہاں الیکشن وہاں بالکل فری اینڈ فیئر ہوئے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ بقیہ 340 پولنگ سٹیشنوں پر ٹرن آؤٹ تیس پینتیس فیصد کیوں رہا اور ان بیس دھندلے حلقوں میں وہ اسی نوے فیصد کیسے ہو گیا، تو ہماری رائے میں اس کا سبب دھند ہے۔ شدید دھند کی وجہ سے وہاں کے ووٹر اپنے کام دھندے پر نہیں جا سکے ہوں گے تو انہوں نے سوچا کہ فارغ کیا بیٹھنا، چلو پولنگ سٹیشن جا کر ووٹ ہی ڈال آئیں۔

ہمارے خیال میں وزیراعظم کو اصل ڈر پرویز خٹک کے شہر نوشہرہ سے لگ رہا ہے۔ سنا ہے کہ ادھر تحریک انصاف کے ایک تیتر اور بٹیر کی لڑائی ہو گئی، لڑتے لڑتے ایک کی دم کھو گئی اور دوسرے کی چونچ۔ یوں ادھر تیتر بٹیر کو ن لیگ کا بڑا سا بلا کھا گیا۔

لگتا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں بھی وزیراعظم کو یہی خوف ہے کہ باہمی لڑائی کے سبب تحریک انصاف کا بٹیرا کہیں پی ڈی ایم کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ خرید فروخت کا کیا ہے، وہ کب نہیں ہوئی۔ آپ کا کیا خیال ہے، ابھی کچھ عرصے پہلے ہی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیا حکومت نے وظائف کے زور پر ناکام کی تھی؟ ادھر پی ڈی ایم کے درجن بھر ووٹر کیوں تحریک عدم اعتماد جمع کروا کر ووٹ اس کے خلاف دے بیٹھے تھے؟ اس وقت بھی تو سوچنا چاہیے تھا کہ ”یہ کیسی جمہوریت ہے، سینیٹ الیکشن میں سیاست دانوں کو خریدنے کے لیے منڈی کیوں لگی ہوئی ہے؟“

ہم تو وزیراعظم کو یہی کہیں گے کہ منڈی لگی ہے تو گھبرانا نہیں ہے، آج کی سرکاری خبر ہے کہ منڈی میں چینی کی فی کلو قیمت ایک ہفتے میں پانچ روپے فی کلو بڑھ کر ایک بار پھر 100 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ جہانگیر ترین اب اپنے جہاز کی ٹینکی کسی فکر کے بغیر فل کروا لیں گے اور سیاسی رابطہ مہم شروع کر دیں گے۔

ہاں خٹکوں کا کھٹکا بہرحال ہے۔ یہ معاملہ اب پیسے کا تو نہیں لگتا۔ وزیراعظم پیار محبت ٹرائی کر لیں۔ سوچیں کہ پرویز خٹک کو کیوں پشتو میں کہنا پڑا تھا کہ میں جسے چاہوں اونچائی پر لے جاتا ہوں اور جسے چاہوں صفر کرتا ہوں اور یہ میری محنت کا نتیجہ ہے۔ خاص طور پر ان کے بیان کا یہ حصہ تو لگتا ہی سینیٹ الیکشن کے متعلق ہے، ”اپوزیشن ارکان میری بہت عزت کرتے ہیں اور تمام اسمبلی ممبران کو میں سنبھالتا ہوں اگر میں گڑ بڑ کروں تو عمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔“
بہرحال گھبرانا نہیں ہے۔ بس یہ دیکھیں کہ یہ ہماری سینیٹ ہے، یہ وزیراعظم ہیں، اور پارری ہو رہی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments