سیاسی کارکن بھٹک گئے؟


ایک پرانے سیاسی ورکر بتا رہے تھے کہ انہوں نے تحریک لبیک میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ حیرت ہوئی، وہ کبھی جیالے تھے اور بھٹو کے شیدائیوں میں شمار کیے جاتے، بے نظیر کی شہادت پر غمزدہ تھے، زرداری صاحب کے دور میں مایوسی نے گھیرا، عمران خان بہتر لگا، اس کے حق میں دلائل دیتے اس وقت بھی یقین نہیں آتا تھا، موجودہ حکومت کا دور دیکھا، اب معلوم پڑا، ان کی مایوسی بڑھ گئی، وہ زیادہ مختلف رویہ اختیار کر گئے، کچھ کہہ نہیں سکتا، یہ فیصلہ کیسے ہوا۔

بھٹو کا دور جاتے جاتے دیکھا، دائیں بائیں کی تفریق بھی تھی، لیکن سارے ایک اشارے پر متحد ہو گئے۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھٹو ایک ڈکٹیٹر لگتا تھا، انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک چلائی۔ مگر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی قیمت گیارہ سال کے مارشل لا کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔

یہ ایک حقیقت لیکن وہ نظریات اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کا دور تھا۔ تمام پارٹیوں کے ورکرز بڑے مخلص اور نظریاتی ہوتے، اختلاف بھی ہوتا، لڑائی جھگڑے ہوتے، حتیٰ کہ انتخابات میں دھاندلی بھی کرتے، مگر وہ سب پارٹی کی سوچ اور نظریے کا خیال رکھتے، اپنی رائے کا مدلل انداز میں اظہار کرتے، پارٹی کی خاطر سڑکوں پر احتجاج کرتے، پولیس کا لاٹھی چارج، تشدد، جیل جاتے اور پھانسی تک چڑھنے تک کی نوبت آ جاتی، یہ لوگ بے لوث ہو کر پارٹی کے لئے گھربار، خاندان تک کی پروا کیے بغیر نکل آتے۔ اصل میں یہی وہ کارکن تھے، جن کا حوالہ آج بھی پارٹیاں دیتی ہیں، جنہوں نے قربانیاں دیں۔

وقت گزر گیا، حالات بدلے، اب کارکن بھی وہ نہیں رہے، ان کے مفادات بھی تبدیل ہو گئے، نظریات نام کی چیز نہیں۔ جمہوریت کی تعریف معلوم نہیں کیونکہ بات کرنے کی آزادی پارٹیوں میں ختم، اختلاف رائے کی اجازت نہیں۔ دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا کلچر آ گیا۔ تین دہائیوں تک کارکن اور ہمدرد ووٹر اپنی جماعتوں کا ساتھ دیتی رہیں، پھر ایسا بھی ہوا کہ جماعتوں میں دراڑیں ڈالی گئیں، انہیں توڑا گیا، گروپ بنائے، مفاد پرست الگ ہوئے لیکن مخلص کارکن ساتھ رہے، رجحان تبدیل ہوئے، سیاسی مزاج بدلے، ان نظریاتی کارکنوں نے بھی پارٹیاں بدل لیں، پیپلز پارٹی والے مسلم لیگ میں چلے گئے، مسلم لیگ والے پیپلز پارٹی یا کسی نئی جماعت میں چلے گئے، اس سب کے لئے نئی جماعتیں بنائی گئیں تاکہ انہیں سیاسی پناہ گاہ ملے، ایک دور تھا لوگ بڑی تعداد میں مسلم لیگ میں شریک ہوئے، پھر وقت بدلا اور تبدیلی کی سوچ نے مقبولیت حاصل کی، تحریک انصاف میں رضاکارانہ بھرتیاں ہوئیں۔ مقتدر حلقے بھی پس پشت تھے۔ لیکن لوگ جوق در جوق آرہے تھے۔

پچھلے انتخابات میں ایک اور سیاسی قوت بھی سامنے آئی، تحریک لبیک پاکستان، اس کے ووٹوں کی تعداد غیرمعمولی انداز میں کافی تھی، بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے متوازی قوت تیار کی جائے، یہ ایسی جماعت ہے، جس کا اکثریتی مسلک سے جوڑا جاتا ہے، اسلام آباد دھرنے میں ایک غیرمعمولی معاہدے کے بعد اسے قبولیت بھی ملنے لگی۔

اوپر جس واقعے کا ذکر کیا ہے، اس کا حوالہ دیں تو سیاسی کارکنوں کی مایوسی کا نیا رنگ کچھ مختلف لگا۔ ایسے لوگ جن کا رجحان مذہبی نہیں، جنہیں کبھی جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور ایسی جماعتوں سے نسبت نہ رہی، وہ تحریک لبیک میں کیونکر شامل ہو رہے ہیں۔ جمہوریت میں کوئی بھی فیصلہ ہر کسی کا حق ہے، لیکن تازہ ترین رجحانات جمہوری کم اور مجبوری زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ مجبوری اس لئے کہ ایک بڑی سوچ، جسے مایوس لوگوں کی سوچ کہہ سکتے ہیں، جنہوں نے مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی آصف زرداری اور اب تحریک پاکستان عمران خان دیکھ لی، وہ اب بھی کسی نئے مسیحا کی تلاش میں ہیں یا کہہ لیں کسی نئی جماعت کو موقع دینے کے نظریے پر کاربند ہیں۔ وجہ ختم نبوت، جمہوری حق یا کچھ بھی بیان کریں۔

سیاسی کارکن اپنے نظریات سے دستبردار ہوا، جمہوری سوچ ترک کی، وہ کیوں اتنا بے بس یا سیاسی یتیم بن گیا کہ کسی نئی صدا پر لبیک کہنے لگا۔ پاکستان کی سیاست نہ جانے کس طرف چل نکلی۔ جماعتیں اقتدار کے پیچھے مگر عوام اچھی قیادت کی خواہش کے تعاقب میں شاید راستہ بھٹک گئے۔ فیصلہ ساز، ساتھ لے کر چلنے والے لیڈر کی تلاش میں کہیں گم نہ ہو جائیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments