میاں نواز شریف صاحب کے نام کھلا خط


میاں صاحب، آپ چالیس سال سے سیاست میں ہیں۔ آپ کو تین مرتبہ حکومت بنانے کا موقعہ ملا، پانچ مرتبہ اپوزیشن سیاست کا۔ مگر آپ ایک ایسا الیکشن کمیشن تشکیل نہ دے سکے جو الیکشن کے عمل کو آزاد اور شفاف بنا پاتا۔ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں عملے اور بیلٹ باکسز کے غائب ہونے کا واقعہ ابھی کل ہی کا ہے۔ اتنے موقعے آپ کو ملے، دو تہائی اکثریت بھی عوام نے تفویض کی پھر بھی اتنی بنیادی اہمیت کا معاملہ حل طلب ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ نہ صرف حل طلب ہے بلکہ یہ تک معلوم نہیں کہ اسے حل کیسے کرنا ہے۔ کیا یہ آپ کی سیاسی بصیرت اور انتظامی سوجھ بوجھ پر سوالیہ نشان نہیں؟

مسئلہ صرف الیکشن کمیشن تک محدود نہیں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو حکومت کے خلاف ایک کیس سننے سے روک دیا ہے اور اگلے پورے ہفتے ان کا نام کسی بھی کیس کی شنوائی کے روسٹر میں نہیں تھا۔ چالیس سالہ سیاست میں آپ نے ایک بار، ایک مرتبہ بھی عدالت عظمیٰ کی آئینی اور انتظامی حدود کو عوامی بحث کا موضوع نہیں بنایا۔ آپ کی حکومت کے تیسری مرتبہ غیر جمہوری طریقے سے خاتمے کی وجہ عدالت عظمیٰ کا اپنی حدود سے ماورا اقدام تھا۔ بار بار کے تجربے کے بعد بھی آپ نے کبھی اس معاملے پر عوام کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اس کا کوئی آئینی حل نہیں نکالا۔ کیا یہ آپ کی ترجیحات پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟

عدلیہ ہی کی طرح فوج کے ادارے میں بھی آرمی چیف کے انتظامی اختیارات بے پناہ ہیں۔ آپ ان اختیارات کے براہ راست وکٹم ہیں کیونکہ تین دفعہ آپ کو غیر جمہوری طریقے سے گھر بھیجنے میں فوج اور اس کے ذیلی اداروں کا ہاتھ تھا۔ پھر بھی آپ نے فوج کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کی کبھی کوشش نہیں کی۔ کبھی پارلیمنٹ میں اس موضوع کو بحث کا حصہ نہیں بنایا؟ کبھی کوئی ایسا پیپر جاری نہیں کیا جو آپ کی پارٹی کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرے، لوگوں کو ایجوکیٹ کرے کہ یہ مسئلہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ آج دن تک اس مسئلے کا ادارہ جاتی حل کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا، آخر کیوں؟ آپ کا کیا ارادہ ہے کہ ایک سوراخ سے کتنی مرتبہ ڈنگ کھانا ضروری ہے؟

عوام کی نمائندہ اکثریت سمجھتی ہے کہ سابقہ حکمران یعنی آپ، آصف علی زرداری صاحب اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو چور تھے اور موجودہ مسائل کی وجہ آپ سب کی منی لانڈنگ، کک بیکس اور کرپشن ہے۔ اس کا ثبوت بیرون ملک آپ سب کی پراپرٹیز، بنک بیلنس اور کاروبار ہیں۔ یہ رائے اس منظم پراپیگنڈے کا نتیجہ ہے جو جنرل ضیاء الحق کے مرنے کے بعد سیاست دانوں، جمہوریت اور جمہوری عمل کو بدنام کرنے کے لئے کیا گیا۔ ابلاغ کے تمام ذرائع سرکار کی سرپرستی میں استعمال ہوئے۔

صحافیوں سے لے کر کالج کے اساتذہ اور باربر شاپ پر بیٹھے بابوؤں سے لے کر چائے ہوٹل کے بابوں تک سب اس پراپیگنڈے کا ایندھن بنے۔ چالیس سال منظم طریقے سے آپ کی قوم کو گمراہ کیا جاتا رہا، جمہوری عمل سے متنفر کیا جاتا رہا۔ لوگ کھلے لفظوں مانتے رہے کہ ”کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے“ ۔ جب نفرت کا یہ بیچ بویا جا رہا تھا، اور وہ بھی عین آپ کی ناک تلے، آپ نے اسے روکنے کے لئے کیا کیا؟ کیا ہم یہ مان لیں کہ ان بنیادی مسائل کا آپ کے پاس کوئی حل ہی نہیں؟ تو پھر آپ سیاست میں کس جواز کے تحت بار بار عوام سے ووٹ مانگنے آتے ہیں؟

ہماری دو نسلیں اس پراپیگنڈے کو سچ مانتی ہیں، اور اس میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کی عمریں ابھی مشکل سے سولہ سال ہیں۔ سوشل میڈیا پر اگر کوئی آپ کے حق میں نہ سہی، جمہوریت کے حق میں بھی بات کرے تو دشنام کی ماہر پوری فوج عزتیں تار تار کرنے کود پڑتی ہے۔ اتنی زیادہ گانٹھیں کہ جو اب دانتوں سے بھی نہیں کھل رہیں جب باندھی جا رہی تھیں تو آپ کیوں خاموش رہے؟ کیوں اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کی اور وقت سے پہلے اس معاملے کو اتنا خراب ہونے سے نہیں روکا؟ کیا سٹیٹس مین شپ ایسی ہوتی ہے؟ کیا آپ اس کے تقاضوں سے بالکل بے بہرہ ہیں؟

آج آپ ”ووٹ کو عزت“ دو کا نعرہ لگا رہے مگر کیا گارنٹی ہے کہ جب چوتھی بار حکومت ملے تو پھر سے کوئی پس پردہ قوت آپ کو واپس سڑکوں پر نہیں دھکیلے گی۔ اگر ماضی میں آپ نے بنیادی سیاسی اور انتظامی سوالات پر توجہ ہی نہیں دی تو آئندہ ایسی کسی صورتحال سے بچنے کے لئے آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے

آپ نے میاں شہباز شریف کے ساتھ مل کر پوری کوشش کی کہ عوامی فلاح کے میگا منصوبوں اور بہتر گورننس کے ذریعے لوگوں کو جمہوریت کی مثبت شکل دکھائی جائے مگر آپ بھی جانتے ہیں کہ آج کے دن تک جیت پراپیگنڈے کی ہوئی، کارکردگی کی نہیں۔ اس کی بہت بڑی وجہ وہ کردار ہیں جو پچھلے چالیس سال سے لوگوں کی ذہن سازی کے ذمہ دار ہیں۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ وہ سارے ہیرے آپ ہی نے چنے تھے؟ کیا آپ نے کبھی اپنی مردم شناسی پر غور فرمایا ہے؟

جو لوگ پہلے سائیکل، ٹانگے، ویگن اور ٹیمپو پر سفر کرتے تھے آج ایکڑوں پر پھیلے فارم ہاؤسز میں فور ویل انٹر کولر پر پھرتے ہیں۔ لاکھوں اور کروڑوں میں تنخوائیں لیتے ہیں، مگر جمہوریت اور سیاست دانوں کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں اور آپ کو چور کہتے ہیں۔ ذہنوں سے کھیلنے والے یہ نابغے آپ ہی نے ڈھونڈے تھے جو آپ ہی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ پہلے اخبارات کے اداراتی صفحے اور اب پرائم ٹائم ٹی وی شوز پر انہی کا قبضہ ہے۔

یہ سب میڈیا سٹار وہی ہیں جنہیں آپ نے ذرے سے ستارہ بنایا۔ نیوز روم میں بیٹھ کر یہی آج آپ ہی کی تقریروں اور بیانات سینسر کرتے ہیں۔ باتوں کو توڑتے مڑورتے ہیں۔ لوگوں کے تعصبات کو زبان دیتے اور جمہوریت کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ کیا ان ذہن سازوں کی سلیکشن آپ کی مردم شناسی اور ٹیم سلیکشن پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟ اگر آج بھی کسی ایک فون کے نتیجے میں کیبل آپریٹر چینل بند کر دیتے ہیں، صحافیوں کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے، چند ہزار میٹرز کی بنیاد پر 23 کروڑ آبادی کے ملک میں پروگرامز، اور چینلز کی ریٹنگ کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ دنیا اس کیبل اور چند سو ریٹنگ میٹر جیسے بوسیدہ نظام کو کب کا چھوڑ چکی مگر ہم اسی سے چپکے ہیں تو اس میں کیا آپ کی بھی حصہ داری نہیں۔ ابھی کل ہی تو آپ کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے ۔ کیوں اس مسئلے کو سائنسی طریقے سے حل نہیں کیا گیا؟

موجودہ حکومت نے پچھلے اڑھائی سال میں ہر وہ کام کیا جو ان کے وعدوں، دعوؤں، اور عوام کو دکھائے خوابوں سے الٹ تھا پھر بھی لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ (موجودہ حکمران) نہیں تو پھر کیا وہی پرانے چور ڈاکو؟ کیا کبھی آپ نے اپنی میڈیا ٹیم سے پوچھا کہ آپ کا امیج اتنا خراب کیوں ہے؟ یقیناً ساری ذمہ داری پس پردہ قوتوں پر تو نہیں ڈالی جا سکتی اور اگر ڈالی جا سکتی ہے تو پھر آپ کی لیڈرشپ کیس کام کی ہے؟

میاں صاحب کیا یہ دکھ کی بات نہیں کہ 1991 میں جب آپ پہلی بار وزیر اعظم پاکستان بنے تو اقتدار سنبھالنے کے صرف تین مہینے کے اندر اندر آپ نے ملکی معیشت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کیں۔ تیس چالیس ارب ڈالر کی ملکی معیشت آج اگر تین سو پینسٹھ ارب ڈالر پر کھڑی ہے تو اس کی وجہ وہ بنیادی اور سٹرکچرل تبدیلیاں اور واضح سمت تھی جو آپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں طے کی۔ آپ نے خارجہ اور دفاعی پالیسی میں سویلین سوچ کی نمائندگی کی۔

عراق جنگ میں جارح کی بجائے مظلوم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا حالانکہ فوج کی رائے اس سے بالکل الٹ تھی۔ آپ کے معاشی وژن کو ہمسایہ ملک میں من موہن سنگھ نے نرسمہا راؤ حکومت میں نافذ کیا اور معاشی ترقی کی جو نیو آپ نے رکھی ، اس کا پھل بھارت نے کھایا۔ آج کتنے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں اور گاڑیاں بیچنے کی فکر نہیں کی جاتی معیشت کے بنیادی سٹرکچرل مسائل پر توجہ دی جاتی ہے۔

کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ 23 کروڑ آبادی کے ملک کی ترقی مرغی، کٹوں، بھنگ کی کاشت یا پیٹرول پمپس کے ٹوائلٹ صفائی پر توجہ دینے سے نہیں ہوتی، پرائیوٹائزیشن، ڈی ریگولرائزیشن، فارن ڈایئریکٹ انویسٹمنٹ اور پرائی جنگوں سے خود کو الگ کرنے سے ہوتی ہے۔ وہ کام جو تیس سال پہلے آپ نے کر کے بھی دکھا دیے آج کی نسل کو اس کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ یہ سب بتانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ہر اگلے جلسے میں آپ موٹر وئے اور ایٹمی دھماکے کا ذکر کرتے ہیں جبکہ ایٹمی دھماکے کا تذکرہ فوج کے بیانیے اور موٹر وے کا تذکرہ کرپشن کے بیانیے کو اینڈورس کرتا ہے۔ آپ کی میڈیا ٹیم اس قدر نالائق ہے کہ اتنی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ آخر کیوں؟

اکیسویں صدی کا نوجوان اسی کی دہائی کے میڈیا ماہرین کے قابو نہیں آ سکتا۔ جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے والی قوتوں کے چالیس سالہ پراپیگنڈے کا توڑ صرف میگا پراجیکٹ یا دشنام اور جوابی دشنام کی ٹویٹس اور فیس بک پوسٹس نہیں ہو سکتیں۔

آپ کب اور کیسے اس بنیادی چیلنج کا جواب دیں گے جس کا تعلق ماضی کی تلخ سیاسی سچائیوں اور عوام تک جمہوریت اور جمہوری عمل کے شعور کی منتقلی سے ہے۔

کیا ایک ووٹر کی حیثیت سے مجھے اور میرے جیسے بہت سوں کو ان بنیادی سوالوں کا جواب مانگنے کا حق ہے؟ یا ہم ذہنی طور پر تیار رہیں کہ اگلی بار پھر سے آپ یا مریم نواز سڑکوں پر لوگوں سے پوچھتی پھریں گی کہ ”مجھے کیوں نکالا“ ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments