کرک کے مشہود کا پارکور کا جنون انھیں پشاور سے ہالی وڈ تک لے گیا


یہ کہانی ہے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے کرک سے تعلق رکھنے والے نوجوان مشہود عالم کی جن کا لڑکپن پشاور کے اسلامیہ کالج کے برآمدوں میں پارکور کرتے گزرا۔

ایکشن سے لگاؤ تو مشہود کو اس وقت ہی ہو گیا تھا جب بچپن میں انھوں نے جیکی چین کی فلم دیکھی۔ یہ ایکشن فلمیں تو ہم سب نے بھی شوق سے دیکھی ہیں مگر مشہود نے تو ان ایکشن فلموں کے سٹنٹس کو دہرایا بھی۔

لیکن مشہود کو پارکور میں دلچسپی کی شروعات 2003 میں اس وقت ہوئی جب انھوں نے ڈسکوری چینل پر اس سے متعلق جمپ برٹن نامی ڈاکیومنٹری دیکھی۔ اس وقت یوٹیوب کا کوئی نام و نشان نہیں تھا کہ وہ فوراً اس ڈاکیومنٹری کو دوبارہ دیکھ پاتے۔

مشہود اس ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا پارکور بھول نہیں پائے۔ ان کے بقول انھیں تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ پارکور کوئی بندہ ہے یا کھیل کا نام۔

‘جب 2005 میں یوٹیوب آیا تو سب سے پہلے میں نے پارکور کی ویڈیوز ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ میں نے سوچا یہ پارکور بندہ تو کتنا کول ہے، میں اس کا بہت بڑا فین ہوں۔‘

اس کے بعد مشہود نے دن رات ایک کر کے اُن ویڈیوز میں کیے گئے کرتب دہرانا شروع کیے۔ اپنے بھائی سرمد کی مدد سے انھوں نے اپنی پریکٹس کی ویڈیوز بھی بنائیں۔

یہ بھی پڑھیے

وزیرستان کا نو سالہ ’گنیز ریکارڈ ہولڈر‘

مارشل آرٹ کے ماہر پاکستانی کھلاڑی کا ایک اور عالمی ریکارڈ

برف پوش چوٹیوں پر افغان لڑکیوں کا مارشل آرٹ

مشہود کہتے ہیں ’میں جب کوئی ویران، خالی عمارت دیکھتا تھا تو وہاں پارکور کرنے لگ جاتا تھا اور سرمد میری ویڈیو بناتا تھا۔ اکثر وہاں موجود چوکیدار مجھے بھگانے آ جاتے تھے۔ وہ جاتے تھے تو میں پھر آ جاتا تھا۔‘

سنہ 2013 میں فیس بُک پر اپ لوڈ کی گئی انھی ویڈیوز میں سے ایک ویڈیو پر لوکل پروڈکشن کمپنی کی نظر پڑ گئی۔ مشہود نے ان کے ساتھ ایک پراجیکٹ پر کام بھی کیا لیکن میمری کارڈ میں تکنیکی مسئلے کی وجہ سے ویڈیو ڈیلیٹ ہو گئی۔

مشہود نے بتایا ’پروڈیوسر نے مجھ سے کہا ویڈیو تو نہیں رہی۔ لیکن مجھے افسوس نہیں ہوا مجھے اب ویڈیو میں پرفیکشن چاہیے تھی۔‘

پریکٹس چلتی رہی اور ایک بار حیات آباد سپورٹس کمپلیکس کی چھت پر چھپ کر پارکور کرتے ہوئے مشہود نے میدان میں تائی کوانڈو کرتے گروپ کو دیکھا۔

گروپ کے کوچ نوید کہتے ہیں ان کو مشہود پہلی نظر میں ہی قابل لگے اور انھوں مشہود کو فوراً اپنی کلاس میں جگہ دے دی۔

اسی دوران مشہود کو لاس اینجیلس میں قائم پارکور اکیڈمی کا پتا چلا جہاں پارکور کے ورلڈ چیمپیئن ٹریننگ کرواتے تھے۔ یہ سننا تھا کہ انھوں نے فوراً وہاں جا کر ٹریننگ حاصل کرنے کی ٹھان لی۔

سنہ 2014 میں مشہود امریکہ تو چلے گئے لیکن ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی فلم کے مشہور ہیرو کی طرح سیدھا ہالی وڈ پہنچ گئے۔

مشہود بتاتے ہیں ’میں وہاں کسی کو نہیں جانتا تھا اور جا کر میں نے نوکری کرنا شروع کی تو ٹریننگ کے لیے وقت نہیں مل پا رہا تھا۔‘

مشہود کی محنت رنگ لائی اور انھیں اسی اکیڈمی میں کوچنگ کرنے کا موقع بھی ملا۔ لیکن ان کے مطابق ’پشاور میں جیسی ٹریننگ ہوتی تھی ویسی سخت ٹریننگ یہاں نہیں ہوتی۔‘

پارکور اکیڈمی میں آنے والے ہالی وڈ سٹنٹس مین کو ان کے کرتب بھائے اور انھوں نے مشہود کو ہالی وڈ پروڈیوسرز سے ملوایا۔

اس کے بعد مشہود کو دی ایڈونچرز آف الادین، دا کیور، فاسٹر میں سٹنٹس مین کے علاوہ اداکاری کرنے کا موقع بھی ملا۔

چونکہ مشہود سے میری ملاقات کا مقام حیات آباد سپورٹس کمپلیکس تھا جہاں جو روز ٹریننگ کے لیے آتے ہیں تو میں نے انھیں ٹریننگ کرتے دیکھا۔ وہ بجلی کی سی پھرتی سے کہیں بھی چڑھ جاتے۔ مجھے وہاں تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں استعمال کرنی پڑتیں اور تین چار منٹ لگ جاتے۔

میں نے نظر دوڑائی اور دیکھا کہ ہمارے پیچھے لوگوں کا ایک ہجوم موجود تھا۔

اس پر مشہود نے بتایا ’سٹنٹس کرنے کے لیے پرائیویسی چاہیے ہوتی ہیں ورنہ تمام توجہ آس پاس کھڑے لوگوں پرچلی جاتی ہے اور چوٹ لگنے کا خدشہ رہتا ہے۔‘

پاکستان میں انھیں کچھ اور بھی مسائل پیش آئے۔ انھوں نے کہا ’یہاں پر ہر کوئی کرکٹ یا فٹبال کا شوقین ہے، میرا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ اس وقت پارکور کے لیے میرا کوئی کوچ بھی نہیں تھا جو مجھے گائیڈ کر سکتا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔‘

ہمیں تو لگتا ہے کہ رسک سٹنٹس مین کی زندگی کا حصہ ہے لیکن مشہود ایسا نہیں سوچتے۔ ان کے مطابق ‘اگر آپ کو لگے کہ 50-50 چانس ہے تو رسک مت لیں۔ لوگ اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں، صرف تب کچھ کریں جب یقین ہے کہ یہ بار بار کر سکتے ہیں۔‘

پاکستان میں پارکور اور ایکشن کرنے میں دلچسپی رکھنے والوں کو کیا کرنا چاہیے، اس بارے میں مشہود کہتے ہیں کہ فیلڈ کے لوگوں سے دوستی کریں کیونکہ لوگ ہی آپ کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ محنت کریں، منزل کی پرواہ نہ کریں سب کچھ خود بخود ہو جائے گا۔‘

مشہود کے مطابق جسم کی لچک، جسمانی فٹنس اور جسم کی قوتِ برداشت وہ تین چیزیں ہیں جن پر کام کر کے کوئی بھی انسان سٹنٹس مین بن سکتا ہے کیونکہ کرتب یا ایکشن ٹرِکس تو ایک دن میں بھی سیکھی جا سکتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ پارکور اس لیے کروں تاکہ ایکشن فلموں میں کام کر سکوں یا اس لیے کہ مجھے بہت شہرت ملے۔ مجھے یہ کام پسند آیا اور میں نے دل سے کیا، باقی سب ایک انعام کے طور پر ملا۔’

یہ چیز ان کے کردار اور جینے کے انداز میں کافی نمایاں ہے۔ حالانکہ مشہود کافی عرصے سے سٹنٹس کر رہے ہیں مگر ان کا سب سے پسندیدہ لمحے کا ہالی وڈ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ واقعہ ایک تقریب کے دوران پیش آیا۔

‘اکیڈمی میں ایک انٹرنیشنل ایونٹ ہو رہا تھا اور وہاں یونان سے تعلق رکھنے والا پارکور ورلڈ چیمپیئن ڈی کے آیا ہوا تھا۔ وہ ایک ٹرِک کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس سے نہیں ہو پایا۔ مجھے جوش آیا اور جذبے سے میں نے دوسری بار میں کر دکھایا۔‘

یہ دیکھ کر ان کے دوستوں نے انھیں کندھے پر اٹھا لیا اور کہنے لگے ‘جو ڈی کے نہیں کر سکا وہ ہمارے مشہود نے کر لیا۔‘

آج کل مشہود نیٹ فلیکس کے لیے ایک ترکش ایکشن ڈرامے کے لیے ٹریننگ کر رہے ہیں جس کی شوٹنگ جلد استنبول میں شروع ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp