اردو زبان و ادب اور موجودہ ہندوستانی منظر نامہ


یہ بات عام طور پہ کہی جاتی ہے کہ اردو زبان جاننے والے اور ان میں اچھا ادب تخلیق کرنے والے اب ہندوستان میں خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس زبان کی تاریخ کو پڑھو تو اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ دو سو برس میں اس زبان میں ایک سے ایک ادیب اور شاعر پیدا ہوئے۔ انہوں نے اس زبان کو کسی بھی احساس کمتری کے بغیر اپنی زبان کہا اور اس میں اپنے تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی جوہر دکھائے، لہذا اس زبان میں اتنا ادب تخلیق ہو گیا کہ یہ دنیا کی بڑی زبانوں سے آنکھ ملانے کے قابل ہو گئی۔

یقیناً اردو زبان میں لکھا ہوا جتنا ادب اب تک ہمارے سامنے آیا ہے یا یوں کہا جائے کہ شائع ہو چکا ہے اور متواتر ہو رہا ہے وہ کل کا آدھا بھی نہیں ہے، اور وہ ادبی شہ پارے یا شاعر و ادیب جو عالمی شہرت یافتہ کہے جاتے ہیں وہ کل ادیبوں اور شہ پاروں کے بالمقابل ایک فی صد ہیں۔ اردو ایک بڑی زبان ہے جس میں کئی بولیاں اور زبانیں شامل ہیں جن سے اس زبان کا لغت تیار ہوا ہے اور اس لغت کا استعمال کر کے بہت کچھ مختلف موضوعات کے تحت لکھا بھی گیا ہے، مگر ادھر کچھ بیس برس سے جب کہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوئے ہیں ہمارے لیے یہ مسئلہ بہت بڑا ہو گیا ہے کہ اردو زبان میں لکھا ہوا ادب کیوں اتنی تیزی سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ اس زبان میں ایسے لکھنے والوں کی تعداد روز بہ روز کم ہو رہی ہے جیسے لکھاری اس زبان کو انیسویں اور بیسویں صدی میں ملے تھے، حالاں کہ یہ صورت حال ہندوستان میں آزادی کے بعد ہی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی کہ اس زبان کے زیادہ تر ادیب اور شاعر پاکستان ہجرت کر گئے تھے، علاوہ ازیں جو لوگ بچے تھے ان میں بھی معدودے چند تھے جو سر بر آوردہ ادیب کہے جا سکتے تھے۔ پھر بھی قحط کی یہ صورت نہ تھی۔

اکیسویں صدی میں ہم جب ہندوستان کی ادبی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو کچھ باتیں بہت واضح طور پہ سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جب ہم پورے ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو اس ملک کے پھیلے ہوئے رقبے سے کل ادبا کا اجتماعی تصور کچھ صاف نہیں ہو پاتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لکھنے والوں کی کتنی بڑی تعداد کسی عہد میں ایک ساتھ موجود ہے اس کا اندازہ تاریخ مرتب کرتے وقت ہی ہوتا ہے۔ ایک ادیب جو دلی میں موجود ہے اسے کلیتاً یہ معلوم ہو کہ گجرات میں کتنے ادیب ہیں اور وہ کیا کام کر رہے ہیں یہ ایک مشکل امر ہے، اس کے باوجود آج چونکہ ہم سوشل میڈیا کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، اور طرح طرح کے لکھنے والے سوشل میڈیا کے ذریعے آئے دن ٹکراتے رہتے ہیں اس لیے یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ اغلب صورت حال سے واقفیت بھی اب مشکل ہے۔ یقیناً کوئی ایک آدھ شخص اچانک اگر کچھ بہتر لکھنا شروع کر دے تو جلد منظر عام پہ آ جاتا ہے، ہاں وہ لوگ دیر تک پردہ اخفا میں رہتے ہیں جو کسی منصوبے کے تحت کام کر رہے ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اردو زبان میں ادب تخلیق کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہمیں سوشل میڈیا پہ نظر آتی ہے جو ایک خوش آئند بات معلوم دیتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زبان میں اچھا ادب تخلیق کرنے والوں کو انہیں میں سے چھانٹو، یا ان رسائل سے جو آن لائن شائع ہو رہے ہیں، وہ پرچے جو پانچ سو یا آٹھ سو چھپ رہے ہیں یا ان طلبہ میں سے جو یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہے تو بہت حد تک مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اردو ادب کی موجودہ صورت حال میں یہ ما یوسی ایک بڑا سوال قائم کرتی ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں نظر آنے والے ٹام، ڈک، ہیری میں کوئی سر بر آوردہ شخصیت نہیں ہے؟ کیا ایک بڑی تعداد جو کچھ ادب کے نام پہ لکھ رہی ہے خواہ وہ شعری پیرائے میں ہو یا نثری پیرائے میں سب کچھ کوڑا ہے؟ تو افسوس کے ساتھ اس لکھے ہوئے کے پچانوے فی صد کے متعلق یہ ہی رائے بنتی ہے۔ یقیناً میں غزل کی دنیا کو بھی اس میں شامل کر رہا ہوں جہاں صرف دہرائی ہوئی اور نقالی کے ساتھ کہی ہوئی شاعری بڑے پیمانے پہ نظر آتی ہے۔

یہ تو ایک عام سی بات ہے، اس بات سے اگر کسی کو اختلاف ہے تو میں اس سے بھی خوش ہی ہوں گا کیوں کہ دوسرا جو سب سے بڑا مسئلہ ادب کے تخلیق کرنے کی صلاحیت کے عنقا ہونے سے وابستہ ہے وہ عدم مطالعہ کا مسئلہ ہے۔

کسی بھی زندہ زبان اور معاشرے کی یہ علامت ہے کہ وہ اپنے ادب کو سر آنکھوں پہ رکھتی ہے اور اس کے کلاسیکی اور جدید سرمائے سے کماحقہ واقف ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی میں جہاں علم کی شمع روشن کرنے کے ہزاروں وسیلے ہمارے پاس ہیں اور مختلف سطحوں پہ کام کرنے کا تجربہ بھی ہمیں حاصل ہو چکا ہے اس کہ باوجود مطالعے سے ہمارا رشتہ روز بہ روز کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اردو ادب کے نام پر ہم میر، غالب، اقبال، فیض اور فراق سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہیں وہ بھی اس طرح کہ ان شعرا کے کلام کا بھی سستا اور مشہور ترین ہی حصہ ہمیں رٹا ہوتا ہے، نثر میں منشی پریم چند اور منٹو پہ گاڑی ر کی ہوئی ہے۔ ذرا کچھ مزید ہاتھ پاؤں چلانے والے ملتے ہیں تو وہ سر سید کا ذکر کر دیتے ہیں۔ تنقید کے میدان میں جہاں مطالعہ سب سے پہلی شرط ہے ہم بنا سوچے سمجھے شمس الرحمن فاروقی اور نارنگ کے نام کی تکرار گزشتہ چالیس برس سے کر رہے ہیں۔ علاوہ از ایں دو چار تراجم جو پڑوسی ملک سے ہم تک پہنچ گئے ہیں اس کا ذکر محفلوں میں کر کے خوش ہو جاتے ہیں یا ایک، دو سر پھرے ناولوں کے ساتھ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کے دو، چار عدد ناول زیر بحث رہتے ہیں۔

ذہنی قلاشی اردو والوں میں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ انگلیوں پہ گننے کے بعد بیس سے پچیس نام بھی پورے ہندوستان سے نہیں ملتے جو بیک وقت کلاسیکی اور جدید ادب سے یکساں طور پہ واقف ہوں۔ جنہوں نے شاعری اور نثر کا یکساں مطالعہ کیا ہو یا کسی ایک میدان میں کسی کو مہارت حاصل ہو، تحقیق اور تنقید کے مسائل، زبان اور ادب کے مسائل، صحافت اور فلم کے مسائل ان سب پہ کسی کی نگاہ ہو۔

اور اس خواب کو تو آپ شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھیں گے ہی نہیں کہ کسی کو اردو زبان و ادب کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی ادب سے بھی کچھ شغف ہے۔

یقیناً کوئی شخص خواہ اپنی پوری زندگی بھی کسی فن میں ماہر ہونے میں گزار دے تو وہ مکمل نہیں ہوتا، لیکن یہاں رونا اس بات کا یہ کہ کوئی شخص پوری زندگی تو بہت بڑی بات ہے روز کا یا ہفتے کایا ماہ کا، گھنٹا دو گھنٹا مطالعہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا۔

اردو کے وہ ادبی رسائل جو کسی زمانے میں نئی زندگی کے مسائل سے پر ہوا کرتے تھے، جن میں ادب کے وہ مباحث جگہ پاتے تھے جو بحثیں عالمی سطح پہ زندگی کو متاثر کر رہی تھیں، آج ان کا یہ عالم ہے کہ ان میں چھپی ہوئی ایک تحریر اس قابل نہیں ہوتی کہ اسے پڑھا جائے۔ جو کتابیں اکیڈمیز سے شائع ہو کر منظر عام پہ آتی ہیں ان کو ہاتھ میں لینے کو جی نہیں کرتا، جو تحقیق یونیورسٹیز میں ہوتی ہیں وہ بوگس اور سڑی ہوئی بحثوں اور الم غلم باتوں سے بھری ہوتی ہیں۔ مشاعرے سستے اور ہلکے شعرا کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ سمینار عقل کو طاق نسیاں پہ رکھ کر منعقد کیے جاتے ہیں اور اردو کے وہ بڑے جلسے جنہیں اس زبان اور ادب کے سر کا تاج سمجھا جاتا ہے ان میں صرف وہ لوگ جاتے ہیں جو زندگی اور ادب کے مسائل سے کوسوں دور جلسوں میں ملنے والے چھولے پوری کے ذائقے کو اپنا حاصل گردانتے ہیں۔

ادب کیسے خلق ہوتا ہے؟ اس کے لیے کتنی سنجیدگی کی ضرورت ہے؟ اس سے کسی کو کوئی علاقہ نہیں۔ غزل میں جو اردو کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اس میں ہاتھ آزمانے والوں کی ایسی کھیپ اب ہندوستان میں پیدا ہو چکی ہے جو بنا سوچے سمجھے موٹے موٹے اور پچیس، تیس طے شدہ الفاظ سے اپنی غزل سجانے میں مصروف ہے۔ جیسے کو تیسا والی صورت یہ ہے کہ جس طرح شاعر بنا سوچے سمجھے شعر کہہ رہے ہیں اسی طرح سامعین بنا سوچے سمجھے اس پہ تالیاں بجا رہے ہیں۔ یونیورسٹی میں موٹی تنخواہ لینے والے اساتذہ ایک طرف اپنے ہونے کا ثبوت دینے کے لیے احمقانہ محفلیں منعقد کرتے ہیں اور پھر ان میں ایک دوسرے کی سستی جملہ بازیوں پہ داد دیتے ہیں، طلبہ اساتذہ کو دیکھ کر خربوزے کی طرح رنگ پکڑتے ہیں اور جو کچھ حماقت نامے استاد پیش کرتے ہیں اس کی کاربن کاپی تیار کر کے وہ بھی اپنی نمائش میں لگ جاتے ہیں۔ اردو کے اداروں کی حالت روز بروز تباہ ہو رہی ہے جن کے ذمہ داران نہ تو زبان و ادب سے کسی طرح کا لگاو رکھتے ہیں نہ ہی ان کا کسی نوع کا مطالعہ ہوتا ہے۔ چاپلوس اور جاہل، خواب خرگوش کے مزے لینے والے اردو اداروں کے ذمہ دار بنتے چلے جا رہے ہیں جو اس زبان اور ادب کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ اخبارات کو صحت زبان اور صحت املا سے دور کا بھی لگاو نہیں، ادبی معیار قائم کرنا اور عوام کے دلوں میں ادب کے لیے ایک گوشہ پیدا کرنا تو بہت دور کی بات ان میں عوامی زندگی سے متعلق وہ خبریں ہوتی ہیں جنہیں معیاری اخبار کوڑے کے ڈھیر میں پھینکنا بھی گوارا نہ کریں۔ معاشی طور پہ ٹوٹے ہوئے لوگوں کی زبان میں لکھے جانے والے ادب کے طور پہ اس ادب کا پرچار کیا جاتا ہے، حالاں کہ کروڑوں روپیہ سرکار سے اس کی فلاح اور ارتقا کے لیے وصول کیا جاتا ہے۔ اچھے لکھنے والے جو کہیں کہیں دوچار سر اٹھا رہے ہوتے ہیں، ان کی انا کو اس قدر ٹھیس پہنچائی جاتی ہے کہ وہ بھی یا تو چاپلوسی کرنے لگتے ہیں یا جلد ہی اس زبان کے جہالت خانے کو خیر باد کہہ کر کسی اور طرف نکل جاتے ہیں۔

اردو زبان و ادب کی صورت حال کے بے شمار مسائل ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ اس زبان میں کسی بھی قسم کے منظم نظام کی عدم موجودگی کاہے۔ موجودہ حالت میں ادب لکھنے والوں کی کسی طرح کی کوئی ٹریننگ نہیں ہے، ٹریننگ سے میری مراد کہ اچھا ادب لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والی جماعتیں جہلا کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ادبی مباحث کو معیار بخشنے کے لیے لوگوں کو ادب کی طرف مائل کرنے والی جماعتیں کرپشن کا شکار ہیں اور وہ لوگ جو کچھ بہتر منظر نامہ بنا سکتے ہیں وہ حاشیے پہ ڈال دیے گیے ہیں۔ ترجمہ، تخلیق، تنقید ہر میدان میں سطحی اشخاص کی اجارہ داری ہے۔ ادب کی ایسی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے کہ اس سے وابستہ سنجیدہ ادیب جو بہت کم مقدار میں ہیں انہوں نے کونا پکڑ لیا ہے۔ ترجمہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے، شعر سمجھنے اور اس کی بصیرت کو روشن کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ گھٹیا مباحث اور چٹپٹی باتیں کرنے والوں کو پسند کرنے والے روز بہ روز بڑھ رہے ہیں اور سوشل میڈیا پہ ایسی چونی چھاپ ادیبوں کی ایک فوج پیدا ہو گئی ہے۔ ادب اور اس کے مباحث اور مسائل کس طرح زیر بحث لائے جائیں؟ یا وہ کون سے مسائل ہیں اس کا ادراک اردو کے موجودہ منظر نامے میں پچانوے فی صد لوگوں کو نہیں ہے۔ لہذا ان مسائل اور مباحث کی طرف غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس رویے کو اجاگر کرنے کے لیے اس سعی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اس زبان و ادب کے مسائل کا ادراک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments