جنرل ایوب اور مولوی تمیز الدین اب بھی موجود ہیں؟


روایت ہے کہ ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کی داغ بیل جنرل ایوب خان نے ڈالی۔ ان کی ایک حسرت یہ بھی تھی کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام حکومت لایا جائے۔ ایک دفعہ اسی موضوع پر ان کا ٹاکرا مولوی تمیزالدین سے ہو گیا۔ جنرل ایوب مولوی تمیز الدین کو اپنے دلائل اور آڑے ہاتھوں سے لینے کے باوجود اپنا ہم خیال نہ بنا سکے لیکن جنرل ایوب مولوی تمیزالدین کے اپنے نظریے پر یقین کامل اور ان کی بیباک جرأت کی برجستہ تعریف کرنے پر بھی مجبور ہوئے۔

ذیل میں جنرل ایوب اور مولوی تمیزالدین کے اس دلچسپ مکالمے کا مختصر اقتباس جنرل ایوب کی ہی زبانی پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ 6 دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ بحث اب تک ختم کیوں نہیں ہوئی؟

”ایک دفعہ میں نے مشرقی پاکستان میں چند آدمیوں کو ملاقات کے لیے بلوایا۔ ان میں مولوی تمیزالدین اور نورالامین بھی شامل تھے۔ میں نے ان سے آئینی مسائل کے تمام پہلوؤں پر تبادلۂ خیال کیا۔ مولوی تمیزالدین نے کہا میں صدارتی نظام حکومت کے سخت خلاف ہوں۔

میں نے پوچھا آپ کو کیا اعتراض ہے؟ وہ بولے مجھے یہ اعتراض ہے کہ مسلم تاریخ میں اکثر و بیشتر شخصی حکومت نظر آتی ہے اور ہمارا اپنا سیاسی تجربہ بھی اسی قسم کا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہم آزادی اور جمہوریت کے باوجود پھر اسی طرف لوٹ جائیں گے۔ میں نے کہا اگر یہ بات مسلمانوں کے خون میں رچی ہوئی ہو تو آپ اسے کیسے نکال سکتے ہیں؟ بہرصورت کیا آپ ایک مطلق العنان حکمران اور منتخب شدہ صدر میں فرق محسوس نہیں کرتے؟ کیا ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صدر نہیں ہوتا اور کیا امریکہ میں جمہوری حکومت نہیں ہے؟

پھر اس ملک میں جہاں 10 یا 15 سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، جن میں مسلم لیگ (اس وقت مسلم لیگ ایوب خان کی فیورٹ جماعت تھی) کو چھوڑ کر نہ تو کسی کا کوئی قومی نقطۂ نگاہ ہے اور نہ ہی کوئی قومی منصوبہ، آپ پارلیمانی نظام جمہوریت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟ ان کی رائے تھی کہ ہمیں ایسا قانون بنا دینا چاہیے کہ ملک میں دو سے زیادہ پارٹیاں نہ بننے پائیں۔ میں نے جواب دیا تمیزالدین صاحب اگر آپ قانون کے ذریعے لوگوں کے ضمیر پر قابو پا سکتے ہیں تو مسلمانوں کو ایک ہی فرقے کا پیرو کیوں نہیں بنا لیتے؟جبکہ مسلمانوں میں کئی فرقے ہیں۔

یاد رکھیے کہ آپ قانونی تدابیر سے لوگوں کے ضمیر کو قابو میں نہیں کر سکتے۔ وہ بولے میں پھر بھی پارلیمانی نظام ہی کو پسند کروں گا۔ مایوس ہو کر اور زچ ہو کر میں نے ان کو ذرا آڑے ہاتھوں لیا۔ بڑے میاں نے برا نہ مانا۔ نورالامین خاموش رہے۔ میرا خیال ہے وہ اس مباحثے سے الگ رہنا چاہتے تھے لیکن مولوی تمیزالدین بڑے یقین کے ساتھ بولتے رہے اور یہ ان کا سچا خیال تھا، گو غیرحقیقت پسندانہ ہی سہی۔

میں ان کی جرأت کا ہمیشہ معترف رہا ہوں۔ اسی طرح ایک زبردست بحث چھڑ گئی کہ پارلیمانی نظام حکومت اور صدارتی نظام حکومت میں سے کون سا بہتر ہے۔ مولوی تمیزالدین کی طرح بعض کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام کو کافی مہلت دیے بغیر رد کر دیا گیا ہے۔ غالباً ان کا مطلب یہ تھا کہ اس نظام کی رسی اتنی دراز نہ ہونے پائی کہ اچھی طرح ملک کا گلا گھونٹ دیتی۔ سچ یہ ہے کہ اگر ہم پانچ دس برس اور اس راستے پر چلتے رہتے تو ہمارا خدا ہی حافظ تھا۔

بات یہ ہے کہ پارلیمانی نظام اسی وقت پنپ سکتا ہے جب ملک میں بڑی منظم جماعتیں ہوں اور ان کی تعداد تھوڑی ہو اور ان میں سے ہر ایک کوئی واضح سماجی اور اقتصادی منصوبہ رکھتی ہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر ملک میں پانچ یا دس پارٹیاں ہوں تو حرج ہی کیا ہے ہم ملی جلی حکومت تو بنا سکتے ہیں لیکن کیا یہی ملک کی بہترین خدمت ہے؟ کیا ملی جلی حکومتیں ایک ترقی پذیر ملک میں مضبوطی کے ساتھ بڑے بڑے فیصلے کر سکتی ہیں اور کیا یہ فیصلے کسی صورت میں ملکی روایات اور رسم و رواج کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں؟

ایک ذمہ دار حکومت رائے عامہ کی متلون مزاجی کی جکڑبند میں نہیں رہ سکتی۔ آپ کو رائے عامہ سے آگے بڑھ کر سوچنا پڑتا ہے اور لوگوں کو اپنی راہ پر لانا پڑتا ہے۔ میرے سامنے دو مقصد تھے۔ قوم کو متحد کرنا اور ملک کو ترقی دینا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک مضبوط نمائندہ اور دیرپا حکومت اور ملکی ترقی کے منظم منصوبوں کی ضرورت تھی۔ قوم کو عزم راسخ کے ساتھ سائنس اور فنی مہارت کے عہد میں داخل ہونا تھا اور اپنے عقیدے اور نظریہ حیات کے لازمی ارکان پر بھی مضبوطی کے ساتھ جمے رہنا تھا۔

یہ کہہ دینا آسان ہے کہ ہمیں ماضی کے ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والے عوامل کو دور کر دینا چاہیے لیکن عملی زندگی میں ان عوامل سے بچنا دشوار امر ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے جب ملک میں بڑے بڑے زمیندار موجود ہوں جو ہزاروں رائے دہندگان پر اثر ڈال سکتے ہوں؟ پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے جب یہاں پیروں فقیروں کی بہتات ہو جو لوگوں کو ورغلا سکتے ہوں؟ پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے، پائیدار حکومت کیونکر بن سکتی ہے جب یہاں کئی سیاسی جماعتیں ہوں جن میں سے کسی کا بھی کوئی قومی فریضہ نہ ہو؟

پارلیمانی جمہوریت کیسے پنپ سکتی ہے جب یہاں ابتدائی تعلیم عام نہ ہونے پائے؟ ایک نیا نظام قائم کرنے کے سلسلے میں یہ بڑی آسان بات ہے کہ کوئی انگریزی امریکی یا روسی کتاب اٹھا لی جائے اور کہا جائے کہ دیکھو ان لوگوں نے یوں کیا تھا ہم بھی کیوں نہ ایسا ہی کریں۔ سوال یہی ہے کہ کیا یہ کوشش کامیاب ہوگی؟ کیا اس سے لوگوں کی دلجمعی ہو سکے گی؟ کیا وہ اسے اپنا کہہ سکیں گے؟ اگر نہیں تو پھر یہ ساری کوشش بیکار ثابت ہو گی۔ ایک دفعہ مجھ سے پوچھا گیا کہ میرے پیش کردہ آئین کی بنیادی باتیں آپ کو کس کتاب سے حاصل ہوئیں؟ میں نے کہا پاکستان کی کتاب سے۔ اس کی بنیاد وہ علم ہے جو میں پاکستان کے عوام اور پاکستان کی خاک پاک کے بارے میں رکھتا ہوں“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments