عورت کو آزادی چاہیے مگر کس سے؟


عورت مارچ مطلب میرا جسم میری مرضی، عورت کو آزادی دو اور عزت نہیں انسان ہوں میں وغیرہ وغیرہ۔ چلیں مان لیا ہمارا معاشرہ پدر سری ہے، مرد ظالم ہیں۔ عورت کو دبانا، نیچا دکھانا مشغلہ ہے ان کا، مگر یہ کیا عورت مارچ میں بھی کچھ مرد دکھائی دیں گے؟ تو پھر کس سے آزادی چاہیے؟ یقیناً باقی کچھ مردوں سے۔ تو اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ سب مرد برے نہیں اچھے بھی ہوں گے۔

اب آتے ہیں سلوگن کی طرف تو ایسے پلے کارڈز دیکھ کر لگتا ہے آپ کو کچن سے آزادی چاہیے جیسا کہ ”اپنا کھانا خود گرم کر لو“ یا پھر کپڑوں کی دیکھ بھال سے مسئلہ ہے آپ کو ”مجھے کیا پتہ تمہارا موزہ کہاں ہے؟“ ان کے جواب میں اگر مرد پلٹ کر کہہ دے کہ ”اپنا کھانا خود کما کر کھاؤ“ تو یقیناً آپ اس پر بھی نازاں ہوں گی کہ آپ پڑھی لکھی ہیں، خود کما سکتی ہیں، کسی مرد کی محتاج نہیں۔ مگر یہ سب کہتے ہوئے آپ ان تمام مردوں کی بھی دل آزاری کرتی ہیں جو ایک شجر مانند زمانے کی سختیاں جھیل کر اپنی فیملی کی دیکھ بھال اور کفالت کرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو گھر کے کاموں میں اپنی ماں، بہن اور بیوی کا بخوشی ہاتھ بٹاتے ہیں۔

میرا جسم میری مرضی کا سلوگن جو کافی متنازع بھی رہا، اس سے آپ کی مراد ریپ اور جبری شادی کے خلاف احتجاج ہی سہی مگر ایسے مرد بھی ہیں جو اپنی خواتین کا سائباں ہیں۔ جبکہ کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جو مرد کے اعتماد اور بھروسے کو توڑ کر کے سمجھتی ہیں کہ آزاد ہیں۔ اب دانش کی مہوش کو ہی دیکھ لیں!

عورت اور مرد کی ذات ایک دوسرے کے بنا ادھوری ہے، اب آپ اسے نکاح کی صورت میں برا اور ’ریلیشن شپ‘ کی صورت میں اچھا سمجھیں تو یہ آپ کی مرضی، عورت کے حقوق کی پامالی اگر نکاح کی صورت میں کچھ کیسز میں ہوتی ہے تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ ریلیشن شپ میں اپنے حقوق حاصل کر لیتی ہیں جبکہ وہاں تو آپ کی ریپلیس منٹ بے حد آسان ہیں۔ مرد کتنا بھی وسیع النظر اور روشن خیالات کا حامل ہو جتنا احترام بیوی کے لیے اس کے دل میں ہوتا ہے، شاید ہی کسی غیر عورت کے لیے ہو ۔ اب آپ اسے ڈر سمجھیں یا سمجھوتے کا رشتہ یہ بھی آپ کی مرضی۔

میری اس مختصر سی تحریر کا مقصد بس یہی بتانا ہے کہ کچھ مرد اگر برے ہیں تو کچھ اچھے بھی تو ہوں گے، بالکل ایسے ہی جس طرح ہر عورت مظلوم نہیں ہر مرد ظالم نہیں۔ آپ مارچ ضرور کریں مگر خدارا عورت کے حقوق کو سمجھیں تو سہی یہ چولہا، موزہ، اٹھنا بیٹھنا عورت کا مسئلہ نہیں بلکہ حقیقی مسئلہ تو جہالت ہے اور جاہل تو کوئی ڈگری یافتہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی جو اپنے حقوق کی پہچان نہ رکھتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ عورت کے حقوق کس نے نہیں دیے مذہب نے، قانون نے یا پھر معاشرے نے؟

آپ معاشی، معاشرتی، قانونی طور پر آزاد انسان ہیں۔ کوئی مذہب یا قانون عورت کو تعلیم، نوکری، کاروبار یا پسند کی شادی سے نہیں روکتا۔ استحصال اگر کوئی کرتا ہے تو گھٹیا ذہنیت ہے جس سے نہ تو ننھی زینب محفوظ رہی نہ ہی تعلیم کی خاطر لاہور آنے والی طالبہ مریم۔ بس فرق اتنا ہے کچھ کا استحصال جبری ہوتا ہے اور کچھ کا آزادی کے نام پر فائدہ اٹھایا جاتا ہے، عورت جب تک اپنی طاقت، حقوق اور وقار کو نہیں پہچانے گی، گھٹیا صفت مرد اس کا استحصال کرتے رہیں گے۔ کبھی مذہب کے نام پر قرآن سے شادی کروا کر تو کبھی غیرت کے نام پر بلی چڑھا کر، کبھی کاری تو کبھی ونی کی بھینٹ چڑھا کر۔

مگر جن حقوق کے بینر آپ اٹھائے پھرتی ہیں، کچھ سلوگنز کا تو یہاں ذکر کرنا بھی غیر اخلاقی ہو گا، یہ سب عورت کی حقیقی آزادی نہیں۔ شوہر کے کھانے پینے اور لباس کا خیال کرنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے بالکل ایسے ہی جس طرح آپ کے ناز نخرے اٹھانا مرد کا حسن اخلاق ہے۔

لہٰذا مارچ ضرور کیجیے مگر مہذب اور منطقی نعروں کے ساتھ کیونکہ ہر بات میں اپنی مرضی خود غرضی کہلاتی ہے، رشتوں کے احترام اور محبت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق اور نظریات کو احترام دیا جائے، جہالت اور ظلم کے خلاف مذہب، رنگ ونسل کی تفریق بالا ہو کر آواز اٹھائی جائے ۔ یہی حقیقی آزادی بھی ہے اور تقاضا انسانیت بھی یہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments