ایف اے ٹی ایف: کیا حکومتی اقدامات پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال پائیں گے؟


حافظ سعید

حافظ سعید کو لاہور کی ایک عدالت نے دہشت گردی کی مالی اعانت کرنے کے دو الگ الگ الزامات میں سے ہر الزام میں ساڑھے پانچ برس کی سزا سنائی تھی

منی لانڈرنگ اور شدت پسندوں کی مالی امداد کی روک تھام کے عالمی نگراں ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا تین روزہ اجلاس جاری ہے۔ جس میں پاکستانی حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی فنانسنگ کے خلاف اقدامات کی اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا اور فیصلہ ہوگا کہ آیا پاکستان کو مزید عرصہ گرے لسٹ میں رکھا جائے یا نہیں۔

گذشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا گیا تھا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماضی میں ادارے کی جانب سے پاکستان کو تجویز کردہ 27 میں سے 6 سفارشات پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ابھی پاکستان کو فروری 2021 تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس 22 سے 25 فروری تک جاری رہے گا جس میں 205 رکن مملک اور بین الاقوامی تنظیموں کے 205 مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔ 25 فروری کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر اجلاس میں ہونے والے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔

کورونا وبا کے باعث اس کا انعقاد ورچوئلی یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کی جدوجہد

ایف اے ٹی ایف: امریکہ پاکستان کی کیا مدد کر سکتا ہے؟

پاکستان میں دہشتگردوں کی مدد، مالی معاونت کے خلاف قوانین مزید سخت

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس: پاکستان اگلے چار ماہ تک ’گرے لسٹ‘ میں رہے گا

پاکستان کےگرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کس بنیاد پر ہوگا؟

دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور شدت پسندوں کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے 40 سفارشات مرتب کی گئی ہیں اور ان سفارشات پر عملدرآمد کو مدنظر رکھتے ہوئے رکن ممالک کو گرے یا بلیک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔

2018 میں جب پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا تو پاکستان کے مالی نظام اور قوانین کو ایف اے ٹی ایف کی 40 میں سے 13 سفارشات کے مطابق پایا گیا جبکہ باقی 27 سفارشات پر عمل درآمد کرنے کے لیے پاکستان کو ایک سال کا وقت دیا گیا تھا۔ تاہم فروری 2020 تک پاکستان صرف 14 سفارشات پر ہی عمل درآمد کر سکا لہٰذا پاکستان کو اکتوبر 2020 تک کا مزید وقت دیا گیا تاکہ باقی 13 سفارشات پر بھی عمل درآمد کروایا جا سکے۔

لیکن اکتوبر 2020 میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس نے 6 سفارشات پر عمل درآمد کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے چار ایسے شعبوں کی نشاندہی کی جس میں مزید کام درکار ہے اور اس کے لیے پاکستان کو فروری 2021 تک کا اضافی وقت فراہم کیا۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جن چار شعبوں کی نشاندہی کی گئی وہ یہ ہیں:

1) پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا عملی مظاہرے کریں کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق جرائم کی نشاندہی کر کے نہ صرف اس کی تحقیقات کر رہے ہیں بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد اور کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

2) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف جو قانونی کارروائی کی جائے اس کے نتیجے میں انھیں سزائیں ہوں جس سے ان جرائم کا مکمل خاتمہ ممکن ہو پائے۔

3) اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشتگردوں اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف مالی پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ انھیں فنڈز اکھٹا کرنے سے روکا جا سکے اور ان کے اثاثوں کی نشاندہی کر کے منجمد کیا جائے اور ان تک رسائی روکی جائے۔

4) پاکستان یہ بھی یقینی بنائے کہ دہشت گردی کی معاونت سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں جیسا کہ بینک وغیرہ کو انتظامی اور دیوانی سزائیں ملیں اور اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی ادارے تعاون کریں۔

ایف اے ٹی ایف کے جاری اجلاس میں ان چار شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ آیا پاکستان کو مزید عرصہ گرے لسٹ میں رکھا جائے یا نہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر مکمل عمل درآمد کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس کے لیے پاکستان نے سخت کوششیں بھی کی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہے انھیں امید ہے کہ ایف اے ٹی ایف میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا اور پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو سراہا جائے گا۔

پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کون سے اقدامات کیے ہیں؟

گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے بہت سے مشتبہ دہشت گردوں اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاریاں بھی کی ہیں۔ اسی سلسلے میں اپریل 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ سے منسلک تنظیموں اور افراد کو بھی گرفتار کیا گیا اور سزائیں سنائی گئیں۔

جولائی 2019 میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا اور پھر ان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی جبکہ گذشتہ سال نومبر میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حافظ سعید کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں ساڑھے 10 سال قید کی سزا سناتے ہوئے ان کے تمام اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔

رواں برس جنوری میں لاہور ہی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمٰن لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے جرم میں پانچ سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات پوری کرنے اور ٹیرر فاننسنگ کی روک تھام کے لیے 15 معاملات پر قانون سازی بھی کر چکا ہے۔

پاکستان گرے لسٹ میں کیسے آیا؟

منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جو 40 سفارشات مرتب کی گئی ہیں ان کے نفاذ کو انٹرنیشنل کارپوریشن ریویو گروپ نامی ایک ذیلی تنظیم دیکھتی ہے۔

نومبر 2017 میں انٹرنیشنل کارپوریشن ریوویو گروپ کا اجلاس ارجنٹینا میں ہوا جس میں پاکستان سے متعلق ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ، جیش محمد اور جماعت الدعوۃ جیسی تنظیموں کو دی جانے والی مبینہ حمایت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی جس کے بعد فرانس اور جرمنی نے بھی اس کی حمایت کی۔

پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے امریکہ اور دیگر تین مملک سے پاکستان کا نام واپس لینے کی درخواست کی لیکن سب سفارتی کوششیں رائیگاں گئیں اور جون 2018 میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان سنہ 2013 سے سنہ 2016 تک گرے لسٹ کا حصہ رہ چکا ہے۔

اس وقت دنیا کے اٹھارہ ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایک بلیک لسٹ بھی ہے جس میں اس وقت دنیا کے دو ممالک ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔

گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp