ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے لئے عبرت کا سامان


حالیہ ضمنی انتخاب حکومت کی مقبولیت جانچنے کے لیے کافی ہیں۔ مانتے ہیں حلقہ جاتی سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اصل سیاست مقامی ہوتی ہے۔ تاہم ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ حکومتی جماعت ضمنی انتخابات میں وائٹ واش سے دوچار ہو جائے۔ صورتحال اس نہج تک پہنچنے میں کوئی سمجھ نہ آنے والا فارمولا یا اچنبھے کی بات نہیں۔ تحریک انصاف کی حقیقی یا غیر حقیقی جو بھی مقبولیت تھی وہ صرف اور صرف نعروں اور دعوؤں کی وجہ سے تھی۔

اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کی ستر سالہ محرومیوں کو اس جماعت نے اپنا بنیادی بیانیہ بنایا اور قرار دیا اس خرابی کی وجہ ملک پر مسلط دیگر سیاسی جماعتوں کی کرپشن ہے۔ تحریک انصاف اگر اقتدار میں آئی تو چونکہ اوپر ”ایماندار شخص“ عمران خان صاحب بیٹھے ہوں گے لہٰذا ابتدائی سو دن میں کرپشن مکمل ختم ہو جائے گی جس کے بعد دوسرا کام ملک کی لوٹی ہوئی دولت سے بیرون ملک جمع کیے گئے دو سو ارب ڈالرز بیرون ملک سے واپس لانا ہو گا۔

ان کے دور اقتدار میں میرٹ کا کلچر ہو گا کوئی دوست نوازی اور اقربا پروری نہیں ہو گی، جس کی وجہ سے عوام کو روزگار کے مساوی مواقع دستیاب ہوں گے۔ ملک میں ایک کروڑ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور پچاس لاکھ گھر غریبوں کو دیے جائیں گے۔ زراعت جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور جس سے ملک کی چالیس فیصد ورک فورس وابستہ ہے اس شعبے میں انقلابی اقدامات کیے جائیں گے جس کا اعادہ وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں کیا۔ وعدوں و دعوؤں کی فہرست تو بہت طویل ہے فی الحال اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

کرپشن کے خاتمے، میرٹ کے نفاذ اور انصاف کی فراہمی کے نام پر اقتدار میں آنی والی تحریک انصاف کا محض دو سال کے دوران کس الزام سے دامن داغدار نہیں جس پر وہ مخالفین کو مطعون کیا کرتی تھی۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب کرپشن کا نیا اسکینڈل اور رولز کی سنگین خلاف ورزی کی نئی داستاں سننے کو نہ ملے۔ تحریک انصاف جس طوفانی رفتار سے اٹھی یا اٹھائی گئی تھی اور جس طرح جھاگ کی مانند بیٹھتی جا رہی ہے اس کی اصل دھڑے بندی کی سیاست ہے اور نہ مقامی قیادت کی ریشہ دوانیاں بلکہ اصل وجہ اس کی مرکزی قیادت کے قول و فعل کا تضاد اور کہہ مکرنیاں ہیں۔

کون سا وعدہ پورا ہوا اور کون سا دعویٰ سچ ثابت ہوا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ عوام کے خواب ایک بار پھر سراب ثابت ہوئے؟ عوام کو تو چھوڑیں جن ”دانشوروں“ نے اپنی تحریروں و تقریروں سے تبدیلی کا سونامی برپا کرنے میں دن رات ایک کیا آج وہ سب اپنا گریبان چاک کر کے گریہ کناں ہیں۔ کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے کہ اس حکومت میں دوست نوازی اور اقربا پروری نہیں ہو رہی۔ کون سی تبدیلی آئی ، کیا اس حکومت میں بھی وہی چہرے غالب نہیں جو پچھلی تمام حکومتوں میں کرتا دھرتا تھے۔ نئی نوکریاں کہاں ملنی تھیں پہلے سے جو ملازمتوں پر تھے ان میں سے کئی فراغت کا صدمہ لیے گھر بیٹھ گئے ہیں۔ نئے گھروں کا وعدہ کیا وفا ہونا تھا جو اپنے گھر کے مالک تھے گرانی کے سبب ان کے لیے چولہا جلانا مشکل ہو چکا۔ محض ایوان اقتدار کے مکیں کا چہرہ بدلنے کے سوا کیا تبدیلی آئی؟

آج صرف زراعت کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے، ملک کا 28 فیصد رقبہ زرعی اراضی پر مشتمل ہے، ملک کی 40 فیصد آبادی براہ راست کاشتکاری سے منسلک ہے، مجموعی قومی پیدار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے یعنی زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کسی وقت پاکستان ایک زرعی قوت تھا لیکن، ان اڑھائی سالوں میں زرعی معیشت بدترین بحران کا شکار ہوئی ہے۔ چینی اور گندم ایکسپورٹ کرنے والا ملک اب دونوں چیزیں امپورٹ کر رہا ہے، ملک میں آٹا 70 اور چینی 110 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔

ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میں 60 فیصد حصہ ڈالنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دھاگے اور کپڑے کی تیاری کے لئے کپاس باہر سے منگوانی پڑ رہی ہے حد تو یہ ہے کہ ملک میں سبزیاں تک مہنگی ہو گئی ہیں، پچھلے دنوں ایران سے ٹماٹر اور افغانستان سے پیاز منگوائی گئی۔ دو سالوں سے حکومتوں کی طرف سے گندم اور چینی کی ایکسپورٹ پر درست اور بر وقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی جیبوں سے سینکڑوں ارب نکل کر خوامخواہ ”مافیاز“ کی جیبوں میں پہنچ گئے اور بعد ازاں ان دونوں اشیا کی امپورٹ پر لگ کر قیمتی زرمبادلہ الگ برباد ہوا۔

وزیر اعظم نے اپنے پہلے خطاب کہا تھا کہ ”اگر پاکستان نے تیزی سے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں کسانوں کی مدد کرنی ہو گی کسانوں کے خرچے کم کرنا ہوں گے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانی ہو گی، ایگریکلچر ریسرچ میں کام کرنا ہو گا، ہمارے کسان ہندوستان سے سبزیوں کے بیج لیتے ہیں، انشاء اللہ حکومت کسانوں کی مدد کرنے کے لئے پورا زور لگائے گی“ ۔

یہ باتیں وزیر اعظم نے دو سال پہلے کی تھیں لیکن ابھی تک ان پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا۔ کپاس پاکستان کی انتہائی اہم اور نقد آور فصل تھی۔ کپاس کی بدولت ہی ملک بھر میں 500 کے قریب ٹیکسٹائل ملوں کا پہیہ گھومتا ہے اور یہ سیکٹر ملک کو 13 ارب ڈالر کما کر دیتا ہے لیکن ان دو سالوں میں کپاس کی فصل مکمل تباہ ہو چکی اور اس کی وجہ محض نیا بیج متعارف نہ ہونا ہے۔ ہر سال کپاس کی فصل کو کیڑا لگتا ہے اس حوالے سے کوئی زرعی ادویات متعارف نہیں کرائی گئیں، پہلے والی ادویات اب کارگر نہیں رہیں یہ معمولی ریسرچ حکومت نہیں کرا سکی۔

گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کپاس کی پیداوار میں 30 فیصد کمی کا امکان ہے پچھلے سال 85 کروڑ ڈالر کی کاٹن امپورٹ کی گئی اور تخمینہ ہے کہ اس سال بھی کاٹن کی درآمدات دو ارب ڈالر ہو سکتی ہے۔ کسی وقت ہماری کاٹن کی پیداوار تیرہ سے چودہ ملین بیلز ہوتی ہے جو اس سال صرف 5.5 ملین بلیز ہوئی ہے اور اس کی واحد وجہ غیر معیاری بیج اور ادویات ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر سال ہمارے ٹیکسٹائل سیکٹر کو چلانے کے لیے تقریباً دو ارب ڈالرز کی کپاس درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ ریسرچ کا یہ معمولی کام کروانے میں بھی پچھلے حکمراں رکاوٹ تھے یا اس میں خالی خزانہ آڑے تھا؟

راقم کا تعلق اس علاقے سے ہے جہاں معیشت کا دار و مدار زراعت سے حاصل ہوئی آمدن پر ہے ، بتا نہیں سکتا کہ کاشتکار طبقے کی اس وقت کیا حالت ہے اور وہ حکومت سے کس قدر نالاں ہے۔ دیہاڑی دار اس سے زیادہ بری حالت میں ہے۔ کل ایسے ہی ایک شخص سے ملاقات ہوئی ، کہنے لگا دو سال قبل اس کے گھر کا ماہانہ راشن پینتیس سو میں آ جاتا تھا آج بارہ ہزار میں بھی پورا نہیں ہو رہا۔ سمجھ نہیں آتا راشن کی رقم کہاں سے پوری کروں اور بجلی گیس کے بل اور دیگر ضروریات کہاں سے؟

حکومت اڑھائی سال ضائع کر چکی اور وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے ، اگلے عام انتخابات بالکل سر پر کھڑے ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخاب کے نتیجے کے بعد خان صاحب کو اب اپنی سوچ بدل لینی چاہیے۔ ووٹرز اگلے الیکشن میں مزید اس بہانے بیوقوف نہیں بنیں گے کہ پچھلے لوٹ کر لے گئے اس وجہ سے ملک کی یہ صورتحال ہے وہ یہ سوال کریں گے آپ نے اپنے دور میں کیا بہتر کیا؟

خلق خدا اپنی معاشی حالت دیکھے گی وہ حفیظ شیخ جیسوں کی جادوگری یا خوشامدیوں کی فوج کی شعلہ بیانی سے مطمئن ہونے والی نہیں۔ ضمنی انتخاب کا نتیجہ تماشا نہیں عبرت کی جا ہے اور نوشتۂ دیوار ہے کہ یہی چلن رہا تو اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کا کوئی نام لیوا باقی ہو گا نہ ٹکٹ کا امیدوار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments