مذاق، زندگی اور ادب


زندگی وہ نہیں ہوتی ہے جسے دوسرے دیکھتے ہیں۔ ہماری اپنی زندگی ہمارے لئے بھی پیچیدہ ہوتی ہے۔ اور بہت سے معاملات میں ہم زندگی کو سمجھتے ہوئے بھی مختلف گوشوں سے انجان رہتے ہیں۔ اپنی زندگی کے بارے میں، جیسا ہم سوچتے ہیں، محض قیاس ہے، یہ ایک فیصد بھی وہ نہیں ہے جو وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ یعنی جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اس کے ظاہری حصے یا ظاہری حسن، یا ظاہری بد صورتی تک ہی ہماری رسایی ہے۔ سیاست سے عقیدے تک زندگی مختلف ہوتی ہے اور ایک دن زندگی کو سمجھتے سمجھتے شہر خموشاں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ مرگ انبوہ لکھتے ہوئے میں کنڈیرا کے ناول مذاق سے متاثر تھا۔ مذاق میلان کنڈیرا کا پہلا ناول تھا۔

اس ناول کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور پہلے چھ حصوں میں، کسی ایک کردار پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جہاں ہم ان کی نظروں سے واقعات کو دیکھتے ہیں۔ لڈوک جان مرکزی کردار ہے اور اس کے تین حصے ہیں جب کہ جاروسلاو، ہیلینا اور کوسٹکا کا ایک ایک حصہ ہے۔ آخری حصہ، نقطہ نظر کا مرکب ہے کیونکہ سارے کردار ایک ساتھ لائے جاتے ہیں۔ کتاب کے آغاز میں لڈوک اپنے آبائی شہر لوٹ رہا ہوتا ہے۔ وہ برسوں سے وہاں نہیں آیا تھا۔

اس کی ملاقات کوسٹکا نام کی ایک لڑکی سے ہوتی ہے اور یہ شناسایی برسوں پرانی تھی۔ لڑکی اپنے محبوب سے ملاقات کے لئے فلیٹ کا انتظام کرتی ہے۔ اب بیانیہ، ہیلینا کی طرف رخ کرتا ہے، جو لڈوک سے ملنے کے لئے اپنے سفر کی تیاری کر رہی ہے۔ 1948 میں لوڈوک واپس چلا گیا تھا۔ اس وقت وہ کمیونسٹ پارٹی کا ایک نوجوان رکن تھا اور وہ تھوڑامذاق کرنے والا تھا۔ لڈوک کی ایک انتہائی سنجیدہ گرل فرینڈ ہے جسے مارکاٹا کہتے ہیں۔ مارکاٹا کا اکثر مذاق اڑایا جاتا ہے کیوں کہ وہ کبھی بھی کسی لطیفے کو نہیں سمجھ پاتی ہے۔

اب دونوں خطوط کے ذریعہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ ایک دفعہ لڈوک نے ایک پوسٹ کارڈ خریدا اور اسے تکلیف پہنچانے کے ارادے سے لکھا: امید لوگوں کے لئے افیون ہے! امید صحت مند ماحول کو بدبودار بنا دیتا ہے۔ لمبی زندگی کے ساتھ، لڈوک۔ ان کی خط و کتابت جلد ہی ختم ہو جاتی ہے اور جب مارکاٹا پراگ واپس آجاتی ہے تو وہ اپنے تعلقات کی تجدید سے گریزاں ہے۔ اب یہ مذاق خطرناک بن جاتا ہے۔ کمیٹی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ پوسٹ کارڈ پرلکھی تحریر کمیونسٹ مخالف نظر آتی ہے۔

لڈوک کو یونیورسٹی اور پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا دوست بھی اس کی مدد کرنے سے انکار کرتا ہے لہٰذا وہ اپنے آبائی شہر واپس چلا جاتا ہے۔ لڈوک کو اپنی نئی حیثیت کو ایڈجسٹ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ عسکریت پسندانہ طرز زندگی کا عادی ہو جاتا ہے۔ واحد مثبت پہلو یہ ہے کہ اسے مناسب معاوضہ مل جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی زندگی میں لوسی آتی ہے۔ لوسی ایک ہاسٹل میں رہتی ہے۔ لڈوک اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔لیکن وہ لوسی کی ہچکچاہٹ سے مایوس ہے۔ اس کا نتیجہ لڈوک نے اس کے ساتھ عصمت دری کی کوشش کی۔ جب وہ بعد میں اس کے ساتھ رابطے میں رہنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ لوسی غائب ہو گئی ہے۔

یہاں سے یہ داستان آج کی طرف لوٹتی ہے لڈوک کا ایک پرانا دوست ہے، جاروسلاف۔ جو ایک میوزک گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ ناول کے کچھ حصے مل کر ٹکڑے ٹکڑے جڑنے لگتے ہیں اور کرداروں کے مابین روابط واضح ہو جاتے ہیں۔ ناول کے آغاز میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’مذاق‘ سے مراد صرف پوسٹ کارڈ پر ہونے والے لطیفے ہیں۔

تاہم، کتاب کے اختتام تک یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کرداروں کی زندگی میں ہونے والے دوسرے ”لطیفے“ بھی شامل ہیں ہیں۔ اور زندگی کسی مذاق سے کم نہیں۔ انسان، لطیفے کے جال میں پھنس گیا، انسان ذاتی تباہی کا سامنا کر رہا ہے، باہر سے جو مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ اس کا المیہ اس حقیقت میں مضمر ہے کہ لطیفے نے ہٹلر اور مودی جیسوں کی پرورش کی ہے۔ ہم جن باتوں کو مضحکہ خیز تصور کرتے ہیں، ان میں بارود کی بو بھی شامل رہتی ہے۔

مردہ خانے کی عورت میں جج سیاسی مذاق کی بنا پر فیصلہ لیتا ہے۔

ہم بے رحم مذاق اور لطیفوں کی زد میں ہیں۔ لیکن جوکر مذاق کرتا ہے، مذاق سمجھتا نہیں ہے۔ مجھے میلان کنڈیرا کے ناول مذاق کی یاد آ رہی ہے۔ مرگ انبوہ لکھتے ہوئے بھی میں سیاست کے خطرناک مذاق کی زد میں تھا۔ مرگ انبوہ کا تیسرا حصہ صحرائے لایعنی میں ایک لا یعنی نغمہ ایک شخص کی موت کی وجہ بن گیا۔ میں پہلے ہی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور یہ یقین سے بالاتر تھا کہ ایک معمولی مذاق طوفان کھڑا کر سکتا ہے۔ جوکروں کی حکومت، مجھے پروفیسر سبرامنیم کی یاد آئی۔ جوکر مذاق نہیں سمجھتے۔ مذاق کرتے ضرور ہیں اور اس وقت چاروں طرف جوکر ہی جوکر ہیں۔

سڑک پر عام دنوں کی طرح ٹریفک گزر رہا تھا۔ آسمان میں سرخ دھبے موجود تھے۔ مجھے دوبارہ سرخ دھول کا طوفان نظر آیا۔ میں نے سوچا کہ دفتر فون کر کے کسی سے صلاح لوں۔ مگر مجھے یقین تھا کہ اس وقت کوئی بھی میرے کام نہیں آ سکتا ہے۔ میری بائیں طرف ایک رکشہ والا تھا جو حکومت کو گالیاں دے رہا تھا۔ میرے پاس سے ایک کار زناٹے سے ہو کر گزر گئی۔ اس وقت میں خود کو مسخروں کے درمیان دیکھ رہا تھا اور ان مسخروں کی انگلیوں کے ناخن تیز تھے۔

بہت سوچنے کے بعد میں نے مرکز اسلامی کو فون لگایا۔ اتفاق سے ان کا نمبر میرے پاس تھا اور یہ نمبر میں، کبھی کبھی ڈائل کر کے مہتمم کو ڈبیٹ میں آنے کی دعوت دیا کرتا تھا۔ میں نے بتایا کہ ابا گرفتار کر لیے گئے ہیں اور وہ بے گناہ ہیں۔ دوسری طرف سے آہ بھرنے کی آواز آئی اور کہا گیا۔ مسلمان ہونا ہی گنہگار ہونا ہے۔ پریس میں رہنے کی وجہ سے کئی بڑے پولیس والوں سے میں رابطے میں تھا۔ میں نے کئیوں کو فون لگایا مگر ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملا کہ یہ دہشت گردی ایکٹ کا معاملہ ہے اور اس سلسلے میں وہ میری کوئی مدد نہیں کر سکتے۔

میں ابھی گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔ مجھے اس وقت سکون کی ضرورت تھی۔ میں نے جولی کو فون لگایا اور بتایا کہ میں بہت پریشان ہوں۔ جولی نے بتایا کہ وہ گھر پر ہے اور آج اس کی چھٹی ہے۔ میں چاہوں تو گھر آ سکتا ہوں۔ میں نے جولی کے گھر پر آ کر سب کچھ بتا دیا۔ جولی صوفے پر مغموم بیٹھ گئی۔ اس نے جینز اور سرخ رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی مگر اس وقت اس کی آنکھوں میں پرچھائیوں کا رقص چل رہا تھا۔ وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔ بہت برا۔ ایک معمولی مذاق کے لیے۔ میں چیخا۔

انہیں مسلمان چاہیے۔ وہ مسلمانوں میں مذاق تلاش کر لیتے ہیں۔

’ایک معمولی مذاق کے لیے،‘ میں پھر چیخا۔ اور مجھے اس کا اندازہ تھا جو کچھ ہونے والا ہے۔ مگر مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ معاملے اس حد تک بھی بڑھ سکتا ہے۔ ایک گیت۔ ایک بے ڈھب نغمہ۔ جس کا نہ سر نہ پیر۔ یہ نغمہ قیامت ڈھا سکتا ہے۔ یہ ہم کہاں آ گئے ہیں جولی۔ اور یہ کیا ہو رہا ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ گھر والوں کو کیا جواب دوں گا اور ابا کے ساتھ ان کے پانچ چہیتے۔ وہ بھی حراست میں لے لیے گئے ہیں۔

’ دہشت گردی کا مقدمہ۔ اور میرا خیال ہے ضمانت نہیں ملے گی۔ اور میرا خیال ہے گنیش اب تک تھانے پہنچ چکا ہو گا۔‘

’ میرا بھی یہی خیال ہے۔‘ میں پھر زور سے چیخا۔ اظہار رائے کی آزادی کہاں ہے جولی۔ آپ اپنی خوشی کے لیے ایک گیت کی دھن تیار نہیں کر سکتے۔ ایک بہت معمولی گیت جس کا کوئی معنی نہیں ہے۔ لا یعنی۔ میں آہستہ سے بولا۔ ایک صحرا ہے اور اس وقت میری روح اس صحرا میں بھٹک رہی ہے۔ ایک مذاق اس وقت ہوتا ہے جب جج اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ مہندر چندر چور سنگھ نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اور فیصلہ سنانے سے قبل میں زور زور سے ہنسنا چاہتا ہوں۔ اور ہنسنے کے لیے مجھے کسی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ شاید دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا فیصلہ ہے، جس کو سنانے سے قبل ججوں کے بنچ کو ہنسنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ اور میرا خیال ہے ججز کے احترام کے لیے آپ کو بھی اپنی زندگی سے ذرا وقت نکال کر اس ہنسی میں ساتھ دینا چاہیے۔‘

مہندر چندر چور سنگھ رکے۔ پھر انہوں نے ہنسنا شروع کیا۔ باقی دو ججز نے بھی ان کے ساتھ ہنسنا شروع کیا۔ ایوان میں بیٹھے تمام لوگ کھڑے ہو گئے اور سب نے ایک ساتھ ہنسنا اور قہقہہ لگانا شروع کیا۔ سپرا بھی ہنس رہا تھا اور اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ باہر کچھ خانہ بدوش تھے جو ہنسی کی آواز سن کر ایوان میں آ گئے تھے اور دیکھا دیکھی ان خانہ بدوشوں نے بھی ہنسنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر تک ہنسنے کے بعد چندر چور خاموش ہوئے۔ انہوں نے سامنے کھڑے سرکاری وکیل اور ہال میں بیٹھے وکلاء کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر خاموش رہے پھر انہوں نے بولنا شروع کیا۔

’سب سے پہلے یہ سوال کہ میں ہنسا کیوں۔ اور میرے ساتھ باقی دو ججز بھی اس ہنسی میں شامل کیوں ہوئے۔ ؟‘ جو فیصلہ میں سنانے جا رہا ہوں، اس فیصلے میں آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ آپ کو جواب مل جائے۔ یہ جواب آپ کو اپنے دلوں میں بھی تلاش کرنا ہو گا۔ چندر چور نے کہا۔ ’میں نے دیکھا ہے کہ ان دنوں فیصلے جو بھی ہوتے ہیں اور فیصلوں کی جو فائل تیار ہوتی ہے وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں صفحات پر مشتمل ہوتی ہے۔

کیا کسی فیصلے کو لاکھوں صفحات درکار ہیں؟ کیا اس کے باوجود فیصلے صحیح ہوتے ہیں؟ اگر فیصلوں پر عوام مطمئن نہیں ہیں تو لاکھوں لاکھ صفحات کی بربادی کا کیا مطلب ہے؟ اور اسی لیے میرا فیصلہ محض 52 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ فیصلہ محض ایک صفحہ بھی لے سکتا تھا مگر ضروری یہ تھا کہ جو حالات خانہ بدوشوں نے پیدا کیے ہیں، ان حالات سے یہ خانہ بدوش بھی واقف ہوں۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہاں جب میں یہاں یہ فیصلہ سنا رہا ہوں، میں کچھ اور بھی دیکھ رہا ہوں۔

گائے، سانڈ، تتلیاں، مور، مورنی، نیل گائے، ریچھ، بندر، چوہے، مرغابیاں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ جنگل سے آہستہ آہستہ پرندے، جانور نکل کر اس ہال میں جمع ہو رہے ہیں تو کیا آپ میری بات کا یقین کریں گے؟‘ آپ کو یقین کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک جج بول رہا ہے۔ یہ ہائی کورٹ کی عمارت ہے اور ایک جج کہہ رہا ہے کہ جنگل سے نکل کر جانور یہاں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ مگر آپ ان جانوروں کو دیکھ نہیں رہے تو پھر آپ کو اس فرضی خیال پر یقین کیوں کرنا چاہیے۔؟

آپ کو یقین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جب ایوان عدالت میں آپ ان جانوروں کو دیکھ نہیں رہے تو پھر آپ کسی بڑے منصب پر بیٹھے ہوئے شخص پر، یقین کی آنکھیں بند کر کے بھروسا کرتے ہیں تو یہ غلط ہے۔ مگر آپ نے کیا۔ شکاری آئے گا؟ آپ نے تالیاں بجائیں۔ گدھ آرہے ہیں۔ آپ نے یقین کیا؟ آپ نے انسانوں پر یقین کرنا بند کر دیا۔ مگر جانوروں پر آپ کا یقین بحال رہا۔ اور میں لکڑ بگھے کی طرف اس وقت بھی ہنسا، جب کھونٹی سے ایک گائے برآمد ہوئی۔ اور چالیس لوگ مار دیے گئے۔ پھر تیسری کھونٹی سے ایک گائے برآمد ہوئی اور لاکھوں مار د یے گئے۔ گائے مذہب میں آ گئی۔ مذہب میں گائے کی پونچھ آ گئی۔

ہنسیے۔ یہاں ہنسنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اور اتنے تماشے ہیں کہ اس وقت تاریخ، جغرافیہ، سائنس، انسانی نفسیات، معاشیات کی کتابیں، ادب، فنون لطیفہ سے لے کر ساری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ ہنسنا کل ایک برانڈ ہو جائے گا۔ بڑی بڑی میوزک کمپنیاں اس برانڈ کو لے کر سامنے آئیں گی اور بڑے بڑے انڈسٹریلسٹ ہنسی قہقہوں کا بھی سودا کریں گے۔ اور پھر ممکن ہوا تو زمین چھوڑ دیں گے۔ زمین کہاں۔ آسمان۔ مذاق بد ترین مذاق۔

سیاست مذاق۔ زندگی مذاق۔ مور مورنی مذاق۔ پلوامہ مذاق۔ عدالتیں مذاق۔ داڑھی مذاق۔ فقیرانہ صدا مذاق۔ پارلیمنٹ میں مذاق۔ پارلیمنٹ سے باہر مذاق۔

مذاق۔ ناول کا نیا موضوع ہے۔ ٹرمپ بھی ایک مذاق تھا، ہندوستانی جمہوریت بھی ایک مذاق۔ یہ چلتے چلتے ہم کہاں آ گئے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments