کافکا بر لب ساحل: ہاروکی موراکامی کا ناول



ہاروکی موراکامی کی تخلیق کردہ طلسماتی دنیا میں داخل ہونا آسان ہے لیکن نکلنا مشکل۔ ادب کا کوئی بھی سنجیدہ قاری ایسے ادیب کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ ناول 2002 میں لکھا گیا، 2005 میں اس کا انگریزی ترجمہ سامنے آیا۔ اس ناول کی شہرت ساری دنیا میں پھیل چکی ہے اور کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں اور اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے جناب نجم الدین احمد نے۔

اپنی طلسماتی حقیقت نگاری، منفرد موضوعات اور کہانی میں معمے جنم دینے کے لیے معروف صاحب اسلوب فکشن نگار، موراکامی کے ناول Kafka on the shores کا اردو ترجمہ میں نے ابھی پڑھا ہے۔

یہ پر پیچ ناول، کافکا، نامی ایک پندرہ سالہ نوجوان کی کہانی ہے جو عظیم یونانی ڈراما نگار سوفوکلیز کے لازوال حزنیہ کردار، اڈیپس کی طرح، ایک پیشین گوئی نما بدعا سے بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے۔ ناول میں دو کہانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پہلی کہانی کافکا کی ہے جو اپنی پندرہویں سالگرہ پر اپنے والد کے گھر سے فرار ہوتا ہے تاکہ اپنی گم شدہ ماں اور بہن کو تلاش کرے اور اس عجیب و غریب بددعا سے بھی بچ سکے جو اس کے والد نے اسے دی۔

بددعا دیتے ہوئے والد نے کہا تھا، ”کافکا تم اپنی ماں اور بہن کے ساتھ ہم بستری کرو گے اور مجھے قتل کر دو گے“ یہ بات کافکا کو خواب اور حقیقت سے پرے دھکیل دیتی ہے اور وہ اس بددعا سے بچنے کے لیے فرار ہوتا ہے اور اپنا نام بھی بدل کر کافکا تامورا رکھ لیتا ہے تاکہ کوئی اسے شناخت کر کے سکول اور گھر واپس نہ بھیج دے۔

کافکا کا والد مشہور مجسمہ ساز ہے لیکن اس کی بیوی، اپنی بیٹی کے ساتھ اس وقت گھر چھوڑ کر چلی گئی جب کافکا ابھی تین چار سال کا تھا۔ کافکا کو اپنی ماں کا لمس تو یاد ہے لیکن شکل بالکل یاد نہیں اور بہن جو اس سے عمر میں بڑی ہے، اسے تو دیکھا بھی نہیں۔

دوسری کہانی ایک ساٹھ سالہ بوڑھے کی کہانی ہے جو شرافت، بھلے مانسی اور سادگی کا مرقع ہے۔ بچپن میں جنگ عظیم دوم کے دوران ایک سکول ٹرپ میں وہ پندرہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک حیرت انگیز حادثے کا شکار ہوتا ہے۔ اس حادثے میں سب بچے کسی انجانی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں اور کچھ دیر بعد ہوش میں آتے ہیں جبکہ ناکاتا، ہوش میں نہیں آتا اور اسے ٹوکیو کے کسی فوجی اسپتال میں لے جایا جاتا ہے۔ کافی عرصے کے بعد وہ ہوش میں آتا ہے تو اس کی یادداشت اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہوتی ہے حتیٰ کہ نام تک یاد نہیں۔ لیکن اس میں کچھ عجیب صلاحیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن میں بلیوں سے باتیں کرنا اور ان کی باتیں سمجھنا نمایاں ہے۔ شہر کے لوگ اسے اپنی گم شدہ بلیاں تلاش کرواتے ہیں اور اسے معاوضہ بھی دیتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موراکامی کے شاہکار ناول The Wind-up Bird Chronicle میں بھی ایک گم شدہ بلی کا تذکرہ ملتا ہے۔ ’کافکا بر لب ساحل‘ میں بلیوں کی تعداد کم و بیش 6 ہے جو ناول کے کردار بن کر سامنے آتی ہیں۔ اس ناول میں جگہ جگہ ”کوا“ نامی غیبی لڑکے کا ذکر بھی ہے جو کافکا کو گھر سے بھاگنے اور پیش آنے والے مسائل و مشکلات میں برابر حوصلہ دیتا رہتا ہے۔

ناول کے کردار، سایئکی، کافکا تامورا اور ناکاتا ایک متبادل حقیقت میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ایک اور زبردست کردار اوشیما بھی ہے جو منتشر شخصیت کی عمدہ مثال ہے۔ ان سب کرداروں کے لاشعور سے اٹھنے والی تحریکیں انہیں اپنی اپنی زندگی کا جوہر تلاش کرنے پر اکساتی ہیں۔

یہ ناول ایک مکمل مسٹری ہے اور قاری کے لیے تحت الشعور کی سرنگوں میں بے لگام آوارگی ہے جس کا انجام مزید پر اسرار آوارگی کی طرف گامزن کرتا ہے۔ جب یہ ناول شائع ہوا تھا تو پبلشر نے ناقدین سے کہا تھا کہ وہ ناول کی تفہیم کے لیے ہاروکی موراکامی سے سوال کر سکتے ہیں اور وہ خود ان کے جواب دیں گے۔ تقریباً 8 ہزار لوگوں نے سوال کیے اور 1200 لوگوں کے سوالوں کا جواب موراکامی نے خود دیا۔

کافکا بر لب ساحل میں متعدد پہیلیاں ہیں جن کا حل نہیں دیا گیا لیکن یہی مختلف پہیلیاں مل کر ایک حل بھی پیش کرتی ہیں۔ یہ حل غالباً ہر قاری کے لیے الگ ہو گا۔ گویا یہ پہیلیاں مل کر ناول کا راز کھولتی ہیں۔ ناول، موراکامی کی مخصوص فکشن خصوصیات، پاپولر کلچر، جزیئات نگاری، طلسمی حقیقت نگاری، سسپنس اور بے دھڑک جنسی معاملات کا مرکب ہے۔

ناول میں موسیقی، ناول کے پلاٹ کی بکھری اکائیوں کو جوڑنے کے لیے مرکزی عنصر کے طور پر نظر آتی ہے۔ اس میں مشہور موسیقار بیتھوون کی زندگی کے کچھ حالات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ فلاسفروں میں ہیگل کا ذکر ہے، اوڈیپس کی کہانی ہے اور جاپانی روحانیات کا بھی ذکر ہے۔

کرداروں کی خود کلامی، ان کی باتیں، خواب اور حقیقت کا تعلق، تقدیر کی سفاکی، پیشن گوئیوں کی غیر یقینی جکڑ بندیاں اور لاشعور کا اثر، پورے ناول میں نظر آتا ہے۔ مجھے اگرچہ یہ ناول موراکامی کا شاہکار ناول نہیں لگا تاہم یہ ایک اہم ناول ہے کہ اس میں موراکامی ہی کے دو ناول، نارویجیئن وائند اور برڈز کرانیکل کی تھیم جمع کی گئی ہیں جو نتیجتاً فزکس کے اصولوں کے ساتھ ساتھ روایتی فکشن کو بھی بے دھڑک توڑتا نظر آتا ہے۔

دوسری بات جو اس ناول کو اہم بناتی ہے وہ موراکامی کا تخلیقی وفور، پرکشش بیانیہ اور سحر انگیز پلاٹ ہے۔ یہاں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ناول کی صنف اپنے اندر کتنی امکانی طاقت رکھتی ہے اور ایک تخلیق کار کس طرح بیانیے کو توڑ پھوڑ کر نئے امکانات کو نہ صرف تلاش کرتا ہے بلکہ اس میں کامیاب بھی رہتا ہے۔

موراکامی کا اسلوب، جس طرح سے وہ لفظوں سے کھیلتا ہے، اس پر بات کرنا آسان نہیں۔ ایک مختصر سا لفط قاری کے سامنے جذبات اور احساسات کے وسیع معنی رکھ دیتا ہے۔ اس ناول میں مصنف کا خاص اسلوب بے پناہ خوبیوں کے ساتھ آشکار ہے اور بحیثیت مصنف، موراکامی جس طرح کہانی کو الٹ پلٹ کر تخلیق کرتا ہے وہ ایک الگ پہچان بن جاتی ہے۔

کافکا بر لب ساحل آپ کو کہانی کے ایک دشوار گزار راستے پر تو لے جاتا ہے لیکن قاری کی سوچ کو جلا بھی بخشتا ہے۔ زندگی سے متعلق مختلف نظریات، حقیقتیں، خواب، خود شناسی، علم، محبت، محرومی اور خوبصورتی، یہ سب کہانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں اور قاری ان کے ساتھ۔

کافکا بر لب ساحل کی کہانی دو مختلف زاویوں سے بیان کی گئی نظر آتی ہے لیکن انجام کار ان کی منزل ایک ہی ہے۔

یہاں ناول کے مترجم جناب نجم الدین احمد کا ذکر کرنا ضروری ہے جو خود ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار، ناول نویس اور مترجم ہیں۔ انھوں نے کئی برس قبل اپنے ادبی کیریئر کا آغاز نظم نگاری سے کیا۔ ان کی نظمیں مختلف مؤقر جرائد میں اشاعت پذیر ہوئیں۔ بعد میں افسانوی نثر کی جانب آئے اور اسی کے ہو کر رہ گئے۔

ان کے طبع زاد افسانے اور تراجم مؤقر اردو جرائد کے صفحات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ انہوں نے افسانوی نثر کے ساتھ ساتھ چند تنقیدی مضامین بھی رقم کیے۔ یہ ترجمہ، یقیناً ایک اچھا ترجمہ ہے کہ ناول پڑھتے ہوئے کہیں بھی ابہام یا رکاوٹ نظر نہیں آئی کہ قاری کو اصل متن کی کمی محسوس ہوئی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments