سمندر میں 14 گھنٹے تک کچرے کے سہارے زندہ رہنے والا شخص


سمندری کچرا

سمندر میں زندگی اور موت کی جنگ لڑنے کی کہانیاں تو آپ نے کئی بار سنی ہوں گی۔ یہ انسانی ہمت اور کبھی ہار نہ ماننے والی طاقت کی عکاس ہوتی ہیں۔

اگر آپ ’کاسٹ اوے‘ یا ’لائف آف پائے‘ جیسی فلمیں دیکھ چکیں ہیں تو یقیناً یہ کہانی بھی آپ کو حوصلہ بھی دے گی اور انسانی جرات کے بارے میں بھی بتائے گی۔

یہ کہانی دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہِل کی ہے جہاں سامان بردار کشتی سے گرنے والے 52 سالہ ویدام پیریورتیلوو نے سمندر میں 14 گھنٹے گزارے، لیکن ہمت نہیں ہاری۔

قسمت بھی کچھ ان پر مہربان رہی کیونکہ انھوں نے لائف جیکٹ بھی نہیں پہن رکھی تھی اور وہ صرف سمندر کی موجوں کی رحم و کرم پر تھے۔ ایسے میں کئی کلومیٹر دور انھیں ایک ’سیاہ دھبہ‘ دکھائی دیا۔ یہی وہ چیز تھی جو ان کی جان بچانے والی تھی اور وہ تیر کر اس کی جانب بڑھے۔

یہ دراصل ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والا پانی پر تیرنے والا ’پیراک پیپا‘ تھا جس کا انھوں نے مدد آنے تک سہارا لیے رکھا۔

یہ بھی پڑھیے

سمندر میں کھویا ہوا کیمرا دو سال بعد مل گیا

ستر دن قزاقوں کی قید میں رہنے والا بحری عملہ کیسے آزاد ہوا؟

فلپائن کے ساحل پر بکھری کوکین کہاں سے آئی ہے؟

ان کے بیٹے مارات نے نیوزی نیوز ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے والد کے چہرے سے تھکاوٹ عیاں تھی اور وہ اپنی عمر سے 20 سال بڑے لگ رہے تھے۔‘

لتھوینیا سے تعلق رکھنے والے ویدام پیریورتیلوو اس کشتی کے چیف انجینیئر ہیں جو نیوزی لینڈ کی بندرگاہ ٹورنگا اور برطانیہ کے زیرِ انتظام علاقے پٹکین کے درمیان سامان کی ترسیل کا کام کرتی ہے۔

ان کے بیٹے نے بتایا کہ ان کے والد کو انجن روم میں ایندھن پمپ کرنے کی شفٹ کے دوران ‘گرمی محسوس ہوئی اور چکر بھی آنے لگے‘، جس کے بعد وہ 16 فروری کی صبح چار بجے کے قریب تازہ ہوا کے لیے باہر آئے لیکن اچانک کشتی سے گر گئے۔

ماراٹ کو اپنے والد کے بچنے کی روداد پیغامات کے ذریعے ملی، اور انھیں گمان ہے کہ ان کے والد شاید اس روز بے ہوش ہو گئے تھے کیوں کہ انھیں ایندھن روم سے نکل کر باہر جانا یاد نہیں۔

تاہم اتنی صبح کا وقت ہونے کے باعث کشتی میں کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا ساتھی سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر ہے اس لیے کشتی اپنی رفتار سے چلتی رہی۔

سمندر میں گرتے ہی پیریورتیلوو کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ اب زیادہ دیر پانی کی سطح پر رہنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے اس لیے انھوں نے سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ہلکی سے روشنی میں ایک سیاہ دھبہ دیکھ کر اس کی جانب تیرنا شروع کر دیا۔

ماراٹ نے اس پیراک پیپے کے بارے میں کہا کہ ‘ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والا پانی پر تیرنے والا یہ نشان کسی کشتی کے ساتھ لنگر نہیں تھا، یہ صرف سمندری کچرا تھا، اور کچھ نہیں۔‘

کشتی میں موجود عملے کو جب اپنے ساتھی کے لاپتہ ہونے کی خبر ملی تو ان کو گرے ہوئے چھ گھنٹے بیت چکے تھے، یہ وہ موقع تھا جب کشتی کے کپتان نے کشتی کا رخ موڑ دیا۔

اطلاعت کے مطابق کشتی کے عملے کو ان کے گرنے کے مقام کا اندازہ لگانے میں مدد ان کی جانب سے کشتی پر کام سے متعلق اندراج سے ہوئی اور اس کے مھابق وہ 4 بجے تک تب کشتی پر تھے۔

اس کے بعد اس مقامم کے آس پاس موجود کشتیوں کو مدد کے لیے پیعامات بھیجے گئے۔ فرینچ بحریہ کے طیارے بھی اس مشن میں شامل ہوگئے۔

لیکن آخر کار ان کی اپنی کشتی نے ہی انھیں ڈھونڈ نکالا۔

پیریورتیلوو کو آخر کار اپنی کشتی آتی دکھائی دی تو ان کی جان میں جان آئی۔ انھوں نے شور مچایا اور ہاتھ ہلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی۔ حیرت انگیز طور پر کشتی پر موجود ایک مسافر نے ان کی آواز کو سن لیا اور ان کا ہاتھ نظر آگیا۔

ماراٹ نے کہا کہ ‘ان کا ہمت نہ ہارنے کا جذبہ انتہائی مضبوط تھا۔۔۔ میں شاید فوراً ہی ڈوب جاتا۔ لیکن وہ اپنے آپ کو ہمیشہ تندرست و توانا رکھتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بچنے میں کامیاب ہوئے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp