یوٹرنوں کے بعد



”ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو امریکہ چاہتا ہے کرلیتا ہے۔“

”اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کے پاس طاقت ہے، اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی ہے، عالی دماغ لوگ ہیں، مالی وسائل ہیں، وہ لوگ آئین اور قانون کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ وہاں افراد نہیں اداروں کی حکمرانی ہے۔“

”انہوں نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا۔“

”یہ کہانی بہت خوبصورت ہے اور بہت بد صورت بھی۔ بد صورت کہانی میں بہت سے پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔“

”پہلے بد صورت کہانی سناؤ“
”تم نے Roots پڑھی ہے۔“
”نہیں کتابیں پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔“
”پھر ایسا کرو Roots دیکھ لو۔ تیرہ گھنٹے کی فلم ہے۔ تم امریکہ کی بد صورتی سے واقف ہو جاؤ گے۔“
”فلم پھر کبھی دیکھ لوں گا اب مختصراً سناؤ۔“

”یہ تو تم جانتے ہو کہ امریکہ دریافت ہوا تو تمام یورپ کے مہم جو اور جرائم پیشہ لوگوں نے امریکہ کا رخ کیا۔ اٹھارہویں صدی کے دوسرے تیسرے عشرے میں یہ سلسلہ کافی آگے بڑھ چکا تھا۔ سارا امریکہ غیر آباد پڑا تھا۔ زمینیں آباد کرنے کے لئے افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ جرائم پیشہ امریکیوں نے اس کے لئے افریقیوں کو پکڑ پکڑ کر غلام بنا کر امریکہ لے جانا شروع کر دیا۔ ایک کے بعد دوسرا جہاز آتا اور کالوں کا شکار کرنے کے لئے ٹیمیں ساحلی علاقوں میں پھیل جاتیں۔

کچھ مقامی غداروں کو بھی خرید لیا جاتا جو ان کی رہنمائی کرتے۔ جہاز ہفتوں کھڑے رہتے اور شکاری ٹیمیں جو مرد، عورت اور بچہ ہاتھ لگتا ہے پکڑ کر لاتیں۔ بستیوں پر دھاوے بھی بولے جاتے۔ انسانوں کا شکار اور ان کی فروخت بہت منفعت بخش کاروبار بن گیا۔ باقاعدہ کمپنیاں وجود میں آ گئیں۔ اخبارات میں اشتہار شائع ہوتے کہ غلاموں کی تازہ کھیپ آ گئی ہے، نیلامی فلاں تاریخ کو ہوگی۔ مویشیوں کی طرح زنجیروں میں جکڑے افریقی مردوں اور عورتوں کا بالکل قربانی کے جانوروں کی طرح معائنہ کر کے گاہک قیمت لگاتے اور پھر گھوڑا گاڑیوں کی سیٹوں کے نیچے کتوں کی طرح بٹھا کر انہیں اپنے زرعی فارموں پر لے جاتے جہاں ڈربہ نما گھروں میں انہیں رکھا جاتا۔ ہر کمپنی اپنے نیلام کردہ غلام کے کندھوں کے پیچھے آگ میں سرخ کیے ہوئے لوہے سے اپنا مونوگرام“ چھاپ ”دیتی جو عمر بھر اسے ذلت کے احساس سے آزاد نہ ہونے دیتا۔ مرد عورتیں دن رات کھیتوں میں کام کرتے، مالک عورتوں سے دوہری خدمت لیتے۔

”جنسی مشقت کے لئے دن رات کی تخصیص نہ تھی۔ جب بھی مالک کا دل چاہتا اور پھر ان کی آپس کی شادیوں اور مالک کی زبردستی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے مالک کی ملکیت شمار ہوتے اور وہ انہیں فروخت کرنے کا قانونی حق رکھتا تھا۔ ماں باپ تڑپتے لیکن ان کی نظروں کے سامنے ان کے جگر گوشے بیچ دیے جاتے جس طرح پالتو مویشیوں کے بچے فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ تاہم“ رحم دل ”مالک بچوں کو جوان ہونے دیتے جو ان کی افرادی قوت میں اضافہ کرتے۔ تنومند غلاموں کو نسل کشی کے لئے بھی استعمال کیا جاتا اس طرح“ اچھی نسل ”کے غلام بچے بھاری قیمت پاتے۔“

”لیکن سارے امریکی تو ایسے نہیں کرتے ہوں گے، مہذب اور پڑھے لکھے امریکیوں کا طریقہ مختلف ہو گا“

”امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے 200 حبشی غلام تھے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے امریکی صدر کے غلاموں کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی۔“

”اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آج کے کالے امریکی انہی غلاموں کی اولاد ہیں۔“

”امریکہ لائے جانے والے بیش تر غلام مسلمان تھے جنہیں جبراً عیسائی بنایا گیا۔ بغاوت کرنے والے غلاموں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے تھے۔“

”یہ امریکی اتنے ظالم ہیں!“

”اس سے بھی زیادہ انہوں نے امریکہ کے لاکھوں کی تعداد میں باشندوں کو مار مار کر ختم کر دیا۔ اب محض چند باقی رہ گئے ہیں۔“

”لیکن وہ تہذیب کے سبق انسانی حقوق کا واویلا۔ یہ سب کیا ہے۔“
”امریکی مہذب بھی ہیں، انسانی حقوق کے چیمپئن بھی لیکن اس حد تک جہاں ان کے مفادات متاثر نہ ہوں“

”اور خوبصورت کہانی کون سی ہے؟“

”خوبصورت کہانی یہ ہے کہ انہوں نے 1776ء میں اپنا آئین بنایا کانگریس منتخب کی، صدارتی نظام اپنایا، سوچ سمجھ کر قوانین اور ضابطے بنائے اور پھر سوا دو سو سال میں کسی کو ان قوانین کی مٹی پلید نہیں کرنے دی۔ دو صدیوں میں آئین میں دس ترامیم بھی نہیں کیں۔ قانون کی خلاف ورزی اگر صدر نے بھی کی تو اس کو بھی نکال باہر کیا۔ صدر نکسن اور سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔“

”آئین اور قانون کی بالادستی کے ساتھ ساتھ تقریر و تحریر اور فکر کی آزادی نے حقوق و فرائض کا ایسا شعور پیدا کیا کہ امریکی معاشرہ مذہبی، سماجی اور معاشی آزادی کا شاندار نمونہ بن گیا۔“

”اچھا امریکہ میں جرنیل صدر نہیں بنتے؟“

”بنتے ہیں لیکن بندوقوں کے زور پر وائٹ ہاؤس میں داخل ہو کر منتخب صدر کو ہتھکڑیاں لگا کر نہیں بلکہ اسی طریقہ سے اور ان تمام مراحل سے گزر کر جن سے سول امیدوار گزر کر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہیں۔“

”آئزن ہاور، کینیڈی کارٹر، کلنٹن سابق فوجی تھے۔ امریکہ کا پہلا صدر جارج واشنگٹن جرنیل تھا لیکن کسی نے بندوق دکھا کر صدر بننے پر اصرار نہیں کیا؟

”امریکہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ کیوں پھنساتا ہے؟“

”امریکہ کو دنیا کا چوہدری بننے کا سودا ہے۔ اس کے پاس طاقت ہے اور طاقتور کی نفسیات ہے کہ وہ دوسروں کو زیرنگین دیکھنا چاہتا ہے۔“

”تیل کا مسئلہ کیا ہے؟“

”تیل امریکہ کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پوری دنیا میں جتنا تیل استعمال ہوتا ہے اس کا 80 فیصد امریکہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر امریکہ کو تیل نہ ملے تو زمین سے لے کر مریخ تک نقل و حرکت متأثر ہوتی ہے۔ اس لئے وہ ایسا انتظام چاہتا ہے کہ دنیا بھر میں تیل کا کاروبار اس کی مرضی سے چلے اور وہ اپنا حصہ حاصل کرنے کے بعد ہی باقی دنیا کو تیل استعمال کرنے کی اجازت دے۔“

”افغانستان میں امریکہ کو خوش کرنے کے لئے یوٹرن ہم نے لیا، اپنے دیرینہ دوستوں کو امریکہ سے بھی مروایا اور خود بھی مارا لیکن تمام تر فائدہ بھارت کو پہنچ رہا ہے اور ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔“

”امریکی ہمیں گھڑے کی مچھلی سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی کمزوری دکھانے والے سے کسی کو ہمدردی نہیں ہوتی ہمیشہ طاقت کی عظمت کو سلام کیا جاتا ہے۔“

”مگر پاکستان اتنا طاقتور تو نہیں کہ امریکہ کا مقابلہ کر سکے۔“

”مقابلہ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ افغانستان میں کارروائی کے لئے پاکستان امریکہ کی مجبوری تھا مگر ہم نے محض امریکہ کو خوش کرنے ے لئے تقریباً مفت میں افغانستان پر امریکہ کا قبضہ کروا دیا اور خوش وہ پھر بھی نہیں ہوا۔ ھل من مزید کا تقاضا جا رہا ہے“

اگر غلامی ہی کرنی ہے تو پیٹ کیوں کاٹیں۔ ٹوٹی سڑکوں پر کیوں چلیں۔ گندا پانی کیوں پیئں۔ بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا گلا کیوں گھونٹیں۔ ظلم یہ ہے کہ افغانستان پر یوٹرن ہم نے لے لیا، کشمیر پر لینے والے ہیں، پھر شاید ایٹمی پروگرام بھی (خدانخواستہ) یوٹرن کی نذر ہو جائے۔ اتنے ”یوٹرنوں“ کے بعد عوام کو کیا ملے گا۔ کیا ہاتھی فارم بند ہو جائیں گے؟ ”

”جب تک مملکت خداداد پاکستان کی وسیع و عریض زمینوں پر ہاتھیوں کے چرنے کے لئے چراگاہیں موجود ہیں، ہاتھی فارم برقرار رہیں گے۔“

”ہاتھیوں سے نجات کا کوئی طریقہ ہے؟“
”ہاں ہے۔ تھاؤزینڈ کٹس (Thousand Cuts)“
”پہیلیاں نہ بھجواؤ، صاف صاف بات کرو۔“
”ہاتھی کے جسم پر ایک ہزار زخم لگا دو وہ بھاگ جائے گا۔“
”ہاتھی کے جسم پر ایک زخم بھی لگانا مشکل ہے ، تم ایک ہزار کی بات کر رہے ہو۔“
”نظر بچا کر ایک زخم روزانہ لگایا کرو۔“
”اس طرح تو تین سال مزید ہاتھیوں کی سرداری تلے جینا ہو گا“
”ہاتھیوں سے زمین چھڑوانے کے لئے قیمت تو ادا کرنا ہی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments