داستان جاری ہے


کتابیں تو آئے روز خریدا کرتا ہوں اور ظاہر ہے پڑھی بھی جاتی ہیں مگر ایک مدت کے بعد کوئی کتاب پوری پڑھی۔ الف سے یے تک اور بھیا کے نام انتساب سے لے کر ”میرے خاندان کی داستان جاری ہے اور انشاءاللہ قیامت تک جاری رہے گی“ تک۔

واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی کتاب پڑھی نہیں جاتی بلکہ خود کو پڑھوایا کرتی ہے۔ جناب ابوالحسن نغمی کی کتاب ”داستان جاری ہے“ مجھ پر طاری ہی تو ہو گئی جیسے کسی کنواری پر آسیب۔ پیہم ایک ماہ اس کو میں نے تھوڑا تھوڑا پڑھا۔ روزانہ شب بستر پر لیٹ کے بس آٹھ دس صفحے کہ ختم نہ ہو جائے۔ گزری صدی کی پچاس والی دہائی کے لاہور کی سیر تھی جو میں روز رات دیکھتا رہا۔

چار سو صفحات پر مشتمل بڑے سائز کی اس کتاب کے سرورق پر صاحب کتاب کی بزرگانہ وقار کی حامل تصویر ہے۔ سفید بالوں کو بائیں جانب مانگ نکال کر سلجھایا گیا ہے اور بالوں کی ہم رنگ شیروانی زیب تن ہے۔ گزرے وقت نے جلد کی چستی گہنا دی ہے جس سے چہرے کے خطوط، کشش ثقل سے ہار مان کر عمود گرانے لگے ہیں تاہم تصور کہتا ہے کہ اس چہرے کے عضلات کو اگر کسی طور کسا جا سکے تو یہ وقار ایک خوش وضع جمال میں بدل جائے گا۔

”داستان جاری ہے“ جناب ابوالحسن نغمی کی سوانح پر مشتمل ناول ہے اور دراصل چھے بلکہ پونے چھے برس کی روداد، جون 1950ء سے مارچ 1956ء تک۔ پتہ نہیں یہ کتاب ہے کہ ٹائم مشین۔ مہینے بھر تک روز ہی رات کو یہ مجھے، میری پیدائش سے بھی بیس برس قبل کے زمانے میں لے جاتی رہی۔ واہ، کیا کیا مناظر ہیں وہاں۔ پندرہ جون انیس صد پچاس کا نوائے وقت پڑھا۔ ملکہ کوہسار مری کی سیر کی اور وہاں مولانا ظفر علی خان کو اپنے بھائی کے ہمراہ خرام سحر سے لوٹتے دیکھا۔

پشاور اور کوئٹہ کی سیر دیکھی، کراچی گھوما اور پھر لاہور میں تو گلی گلی کی خاک چھانی۔ کتنے ہی اخبار طلوع اور غروب ہوتے دیکھے۔ کالم نگاروں کی باہمی چشمک کا مشاہدہ کیا۔ مشاہیر سے ملا، ان کی خوبیوں، کجیوں اور حلیوں سے آگاہ ہوا۔ نصابی قسم کی کتابوں کا بنایا ہوا شورش کاشمیری کا بت پاش پاش ہوا جب ان کی اپنے دوستوں کے حلقہ میں فحش گوئی سنی۔ انہیں کارکنوں کے پیسے دباتے، تقاضے پر دھمکاتے اور گھونسے ٹکاتے اور پھر مارشل لاء کی فوجی چوکی کے ڈر سے ادائیگی کرتے دیکھا۔

خود کشی کر لینے والے شاعر مصطفیٰ زیدی کو عریاں تصاویر جمع کرنے کا شوق پالتے اور اپنی فحش غزلیں ریڈیو کی سی کلاس گلوکارہ سے گوا کر سرکاری گھر میں جمے حلقۂ دوستاں کو سنواتے دیکھا۔ ایم اسلم ناول نگار کا عروج و زوال اور اس زمانے کے کتنے ہی شاعروں، ادیبوں، صحافیوں کا احوال۔ ہر شب گویا واشنگٹن کے نواح سے اٹھ کر جناب ابوالحسن نغمی میرے سرہانے آن بیٹھتے اور پھر وہ جو کہا کرتے ہیں ”کوثر و تسنیم میں دھلی زبان“ تو ایسی ہی اردو میں اپنی داستاں سنایا کرتے۔

اخلاق احمد دہلوی نے دلی کے ایک سحر بیاں داستان گو میر باقر علی کا جو تذکرہ لکھا ہے، بس ان ہی کے جیسا قصہ جناب نغمی بھی زبان قلم سے ”داستان جاری ہے“ میں کہا کرتے ہیں۔ جدوجہد کے ان دنوں میں انہوں نے بے روز گاری کاٹی، ایک وقت تو گھاس بھی کھائی۔ وکٹوریہ ہوٹل میں رہے، مغلپورے کے مکان اور میکلوڈ روڈ کے بیت القیام کے بعد قلعہ حکیماں کے ”نلکاتے کھلی تھاں“ والے مکان میں رہائش رکھی۔ ماڈل ٹاؤن کی چھے کمروں والی کوٹھی بھی دیکھی جہاں سے حسینی بیگم نے نکالا۔

یہ اسلوب کا اعجاز ہے کہ مجھے لگا میں ان سب کیفیات میں اور ان مقامات پر ان کے ساتھ رہا ہوں۔ ماڈل ٹاؤن ایف بلاک والے کوارٹر کا تذکرہ کچھ تشنہ رہ گیا کہ جناب نغمی کہانی سناتے ہوئے، اس پندرہ برس کے قیام پر اچٹتی نگاہ ڈالتے گزر گئے۔ مجھے لگا سیتا پور سے لاہور کا سفر میں نے بار بار کیا ہے اور کتنی ہی بارمسلم ٹاؤن میں مولانا عبدالمجید سالک سے لمبی پتلی سلپ پرسفارشی رقعہ لینے گیا۔ یہ سوانحی کہانی گزشتہ صدی کے سن پچاس سے بہتر تک کی ہے تاوقتیکہ جناب نغمی اپنے چھے بچوں کو لے کر امریکہ کے لئے اڑان بھر گئے۔ اس اڑان کی نوبت کیوں کر آئی، کیا حالات تھے؟ امریکہ سے کیسے اور کس نے آنے کی پیش کش بھیجی؟ اس بارے نغمی صاحب نے کچھ نہیں بتایا۔ زیر نظر کتاب کے پیچھے ایک اور کتاب کا اشتہار ہے ”امریکہ میں بتیس برس“ ۔ شاید اس میں یہ تفصیلات ہوں۔

سادہ اور رواں انداز میں ، زبان و بیاں کی صحت کے ساتھ داستان بیان کرتے ہوئے جناب نغمی قاری کا ذہن بھی پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ صفحہ نمبر 148 پر جب اہلیہ اور صاحب زادی کو سیتا پور سے لا کر مغل پورے کے مکان میں رہنا شروع کرتے ہیں تو اچانک ایک کردار فاروق کا ذکر آتا ہے۔ مجھے قطعاً یاد نہ آیا کہ یہ ذات شریف کون ہیں۔ تاہم اگلی ہی سطر میں نغمی لکھتے ہیں ”آپ فاروق کو بھولے تو نہ ہوں گے۔“ اور پھر ایک ڈیڑھ سطر میں مجھے فاروق یاد دلا دیا جس کا تفصیلی ذکر پیچھے کہانی میں گزر چکا تھا۔ یہ خوبی بہت کم لکھنے والوں میں ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحریر کو قاری کی نفسیات سامنے رکھ کر قرطاس کی زینت بناتے ہوں۔ ابوالحسن نغمی گفتگو کے انداز میں لکھتے ہیں اور بڑے رسان سے جزئیات نگاری کرتے چلے جاتے ہیں۔

کہنے کو یہ کہانی جناب نغمی کے لاہور میں بائیس سالہ قیام کی ہے مگر ہے دراصل پونے چھ برس کی داستان۔ وہ پونے چھ برس کہ جن کی روداد لکھتے ہوئے نغمی قاری کی انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ در بہ در لئے پھرتے ہیں۔ نوکری کا ملنا، چھوٹا، پھر ملنا پھر چھوٹنا۔ کم روزگاری، مالی بد حالی۔ اماں کی سیتا پور میں دکانوں کی فروخت سے آنے والی رقم سے روزمرہ کی گاڑی کو دھکا دینا۔ یہ تفصیلات پڑھ پڑھ کر قاری بھی اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔

مجھے تو باقاعدہ نغمی صاحب پر غصہ آنے لگا تھا کہ آخر یہ کہیں منشی، کلرک کیوں بھرتی نہیں ہو جاتے۔ مالی بدحالی کے شکار اخبارات کی نوکری میں آخر کیا رکھا ہے جس کے لئے دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور کنبے کو بھی فاقہ کشی کرواتے ہیں۔ مجھے تب بھی بہت غصہ آیا جب زیڈ اے بخاری کی طرف سے ریڈیو پاکستان میں چھ سو روپے ماہ وار پر سکرپٹ رائٹر کی پیش کش محض اس لئے ٹھکرا دی کہ کراچی رہنا نہیں چاہتے تھے۔ نوکری ملے تو لاہور میں وگرنہ فاقہ مستی پر راضی و قانع۔ خدا خدا کر کے صفحہ نمبر 378 کی آخری سطور میں ریڈیو لاہور میں اڑھائی سو روپے ماہانہ کی نوکری ملتی ہے تو قاری کی جان میں جان آتی ہے۔ یہاں پونے چھ برس کا کٹھن دور ختم ہوتا ہے اور باقی کے سولہ برس کا احوال فقط بائیس ہی صفحات میں سمٹ جاتا ہے۔

سولہ برس کے احوال کو فقط بائیس صفحات! ٹھیک ہی ہے، بانٹنے کی چیز اور بتانے کی شے تو دکھ ہوتا ہے اور درد۔ سکھ تو ہم وار لہروں سے بہتی ندی ہے۔ کومل موجوں کا قصہ کوئی کب تک سنائے اور سننے والا کاہے کو سنے؟ کہانی تو بنتی ہی تب ہے جب لہریں اشتعال پر آمادہ ہوں اور جوار بھاٹا زندگی کو نگلنے کے درپے۔ سو مدوجزر سے عبارت پونے چھ سال کی کہانی تین سو اسی صفحات پر پھیلی ہے اور آسودگی کے طویل برس آخری آٹھ دس صفحات میں سمٹ گئے ہیں۔

صفحہ تین سو چوراسی اور پچاسی اردو انشاء پردازی کا نادر و کم یاب نمونہ ہے جب والد کی وفات کا پتہ چلنے پر نغمی صاحب اپنی کیفیات بیان کرتے ہیں۔ کیا منظر کشی ہے اور کیا جذبات نگاری۔ ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملے میں فراق اور پچھتاوے کی اینٹھن ہے۔ ”میں ہمہ عشق، ہمہ درد، ہمہ محرومی“ ۔ ایک بیٹے نے والد کی وفات پر اپنی کیفیات کو باون برس بعد تازہ کیا مگر کیفیات کو ایسا سطر بند کیا ہے کہ گویا ابھی یہ سانحہ گزرا ہو۔

یہ ایک عام مگر قادرالکلام شخص کی آپ بیتی ہے۔ عام آدمی، جو تصنیف کے منبر پر بیٹھ کر ڈینگیں نہیں مارتا۔ ہاتھ میں تھمے قلم پر اختیار کا ناروا استعمال کر کے خود کو خاص اور باقی ساری دنیا کو بین السطور ہلکا اور کم تر ثابت نہیں کرتا۔ یہ تو زندگی کرنے کی جدوجہد میں ناک ناک ڈوبا ہوا عام آدمی ہے مگر اک ذرا درویشی صفات سے متصف۔ صابر، قانع اور غیر منتقم مزاج۔ سلجھا ہوا، باقرینہ اور درگزر کاعادی عام آدمی مگر کمال درجے کا انشاء پرداز۔ ایک عام آدمی کی روداد زیست ہونا ہی اس کتاب کا خاصہ ہے۔ کتاب سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے چند برس قبل شائع کی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments