گمنام گاؤں کا آخری مزار



کتنی ہی ایسی کتابیں ہیں جنہیں پڑھ کر آپ یہ کہہ سکیں کے یہ کردار تو اپنے ہی معاشرے کے لگتے ہیں۔ یقیناً بہت کم اور اس بہت کم میں ایک رؤف کلاسرا صاحب کا ”گمنام گاؤں کا آخری مزار ہے“ جسے پڑھ کے کہیں بار، کہیں گمنام چہرے آنکھوں کے گرد پہروں چھائے رہے۔ سوچتا رہا کہ ہمیں کیوں ان کرداروں کے یہ پہلو نہیں دِکھے۔

یہ کتاب گمناموں ہی کی کہانیاں ہے، اور یہ اس کی خاص بات ہے۔

گمنام گاؤں کے چاچا میرو عرف چاچا ٹھک ٹھک سے مجھے اپنے محلے کا چاچا صوالی یاد آیا، ایسا ہی ایک کردار، اکثر چیزیں مشترک، اور غم بھی مشترک تھے۔ چاچا میرو کے بعد مجھے رات بھر چاچا صوالی یاد آتے رہے۔ ایک عجب کیفیت تھی۔ رسیوں سے لدے چاچا صوالی کو ستاتے میں بچپن کی گلیوں میں کھو گیا۔ جب ہوش آیا رات کے دو بج چکے تھے، سبز چائے ٹھنڈی پڑ چکی تھے اور کتاب بس آنکھوں کے سامنے تھی اور ذہن بھول بھلیوں میں گم۔

خدا بخش قصائی کے دکھ سے آنکھیں بھیگ گئی اور پچھلے سال ایکسیڈنٹ میں زخمی وہ بچہ یاد آ گیا جس نے پسنی کے سول اسپتال میں آکسیجن ماسک اور بجلی کی عدم فراہمی سے گرمی میں دم توڑا تھا۔ اور سیاست دانوں کی سنگ دلی پہ ایک نفرت کا ہول دل میں اٹھا تھا۔ لگا کہ پاکستان کا ہر غریب زندگی میں کبھی نہ کبھی خدا بخش قصائی بن جاتا ہے۔

کابل کی بیوہ نے جنگ سے نفرت کو مزید ممیز دی۔ کابل کی بیوہ پڑھنے کے بعد جنگ اور امن کے بارے میں تمام شش و پنج یقین میں بدل گئے کہ واقعی

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کی حل دے گی

ایک قبر دو پتھر سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے درد کو محسوس کرنے کا جیسے بہانہ مل گیا۔ یوں لگا کہ انہیں یہ دو پتھر بھی نصیب نہیں ہوئے۔ وچھوڑے کا یہ دکھ کتنا کربناک، کتنا درد ناک ہے اور یقیناً یہی اصل مونجھ ہے۔  جسے لکھا جا سکتا ہے نہ بیان کیا جاسکتا ہے بلکہ اسے فقط محسوس کیا جا سکتا ہے۔

لیہ کالج کی تین خالی کرسیوں نے ایک حسرت اور ایک عجیب اداسی سے دامن گیر کیا۔ حسرت بروٹس سے ناراض جی ایم صاحب کے شاگرد نہ ہونے کا اور اداسی ان استادوں کے جہان فانی میں کوچ کر جانے کا۔

بدین کے فہمیدہ اور لیہ کے حسینہ نے تو دل چیر دیا تھا۔ رات چار بجے دل کر رہا تھا کہ بس روؤں اور پیٹوں جگر کو میں۔ کہانی عکس ہے ہمارے سماج کی منافقت کا جس میں غریب ہی کی زندگی اور موت سخت کوشی میں گزر جاتی ہے۔

اسی طرح اور حسینہ بی بی مر گئی، ایک فاسٹ بولر کی کہانی، جلتے گھر جلتے مندر، جلتے دل، ملتان کا راشد رحمن، لیہ کا ماسٹر اسلم یہ تمام کردار و واقعات گمنام گاؤں کے ہیروز کی وہ داستانیں ہے جو آپ کو بے بسی کے سرحد میں داخل کر کے آپ کے سامنے سوالیہ نشان بن کے کھڑے رہیں گے۔

یہ کتاب درد اور مونجھ کی ہی کتاب ہے۔ ظاہر سی بات ہے تیسری دنیا میں بسنے والے ایک غریب کی زندگی کا سرمایہ تو دکھ ہی ہوگا۔ اسی لئے گمنام گاؤں دکھوں کا گاؤں ہے۔

میرے عزیزو تمام دکھ ہے
حیات دکھ ہے ممات دکھ ہے
جدائی تو خیر آپ دکھ ہے، ملاپ دکھ ہے
یہ زندہ رہنے کا باقی رہنے کا شوق یہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے، کلام دکھ ہے، یہ ہونا دکھ ہے
نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے
میرے عزیزو تمام دکھ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments