عبدالحفیظ شیخ یا یوسف رضا گیلانی، جیت کس کی ہو گی؟


سینیٹ انتخابات 2021ء کے لیے میدان سج چکا ہے، تمام تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ مقابلہ دو فریقوں کے درمیان ہے یعنی حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم ۔ پی ڈی ایم بنیادی طور پر حکومت گرانے اور عمران خان کو گھر بھیجنے کے لیے بنایا گیا تھا، حکومت گرانے کی ابتدائی تدابیر جلسے جلوس، ریلیاں، احتجاج ایک ایک کر کے ناکام ہوتی گئیں یہاں تک کہ ضمنی انتخابات اور پھر سینیٹ کے انتخابات سر پر آ گئے۔

پی ڈی ایم نے اتحاد کو انتخابی اتحاد تک وسیع کر دیا۔ اتحاد میں دو قسم کی واضح سوچ پائی جاتی ہے ، ایک شدت پسند اور دوسری معتدل۔ شدت پسندی میں آر یا پار والی سوچ ہے جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا، منتخب ایوانوں سے مستعفی ہو جانا شامل ہے ، اس سوچ کی حامل جماعتوں میں مسلم لیگ (نواز) اور مولانا فضل الرحمان صاحب کی جماعتیں ہیں۔ وہ انتہائی قدم کے طور پر لانگ مارچ، دھرنے اور اجتماعی استعفوں کو بھی استعمال کرنے کی بات کر رہی تھیں ، اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی اداروں سے نہ ٹکرانے، ایوانوں سے باہر نہ نکلنے کی سوچ کی حامل ہے۔

پی پی کی سوچ تھی کہ حکومت کو جمہوری، دستوری طریقے سے گھر بھیجنے کے لیے آئین میں درج طریقہ کار اپنایا جائے، منتخب ایوانوں میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آپشن شامل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہی پی ڈی ایم اس مقام تک پہنچی کہ وہ ضمنی انتخابات میں حکومت سے ٹکرانے کے قابل ہوئی اور کامیابی بھی ملی، ایوانوں سے باہر نہ جانے پر پی پی نے اسٹینڈ لیا۔ اگر پی پی بھی نون لیگ اور مولانا کی سوچ سے اتفاق کرتی تو آج ملک کی سیاست کا نقشہ مختلف ہوتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی یا آصف علی زرداری کی سیاست نے ملک میں جمہوری عمل کو قائم رکھنے، اسے آگے بڑھانے، جمہوری طریقے سے حکومت کا مقابلہ کرنے کی پالیسی پر دیگر اتحادیوں کو مجبور بھی کیا۔ نون لیگ میں شدت ہے، مولانا صاحب بھی ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے خلاف نو ستاروں کے اتحاد کی تحریک کا انجام ہمیں یاد ہے۔ حکومت نو ستاروں کو نہیں مل گئی تھی۔

ضمنی انتخابات کے نتائج آ چکے ، ڈسکہ کا ضمنی انتخاب خونی انتخاب ثابت ہوا س لیے کہ اس میں دو انسانی جانیں چلی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دے دیا، یہاں دوبارہ پولنگ 18 مارچ کو ہو گی۔ قطع نظر اس کے کہ ان کا تعلق کس سیاسی جماعت سے تھا یہ عمل کسی بھی طور مناسب نہیں کہا جا سکتا۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنے کارکنوں کو اس حد تک جانے سے ہر صورت میں روکنا چاہیے۔ اس قسم کے عمل کے نتائج اچھے نہیں نکلتے، حاصل کچھ نہیں ہوتا۔

مرنے والے مر جاتے ہیں، لواحقین زندگی بھر ان کا غم مناتے رہتے ہیں۔ ماضی کے کراچی میں ہونے والی پر تشدد سیاست کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مرنے والوں کا ذکر خیر بھی نہیں ہوتا۔ گندی سیاست کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی سیاست کس کام کی جس سے دنیا بھی خراب اور آخرت بھی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ’ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے‘ ۔ سینیٹ انتخابات کے لیے سیاسی اتحادوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار دیے گئے ہیں۔

ان پر بحث و مباحثہ، تکرار اور دشنام طرازی کا عمل جاری ہے۔ امیدواروں پر الزامات در الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ کچھ اہم لوگ الیکشن کمیشن کی جانب سے باہر کر دیے گئے، ان کا آپے سے باہر ہونا بنتا ہے۔ جیسے نون لیگ کے پرویز رشید کو الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا،  25 فروری کو معروف صحافی حامد میر نے اپنے کالم میں پرویز رشید کے سیاسی کارناموں سے قارئین روشناس کرایا ہے۔

سینیٹ کی تمام سیٹوں میں اسلام آباد کی نشست پر مقابلے کو چوٹی کا مقابلہ کہا جا رہا ہے اور یہ اپنی جگہ درست ہے۔ اسے آصف علی زرداری صاحب کی سیاسی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایسی چال چلی ہے کہ پورے پاکستان کی نظریں اس مقابلے پر مرکوز ہو کر رہ گئیں ہیں۔ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں تھا لیکن ضمنی الیکشن اور سینیٹ انتخاب نے پی ڈی ایم کو انتخابی اتحاد بھی بنا دیا ہے اور یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی سیٹ پر پی ڈی ایم کے امیدوار ٹھہرے۔وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں، سابق وزیراعظم، وزیر اور اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔

یوسف رضا گیلانی سیاست دانوں میں معتدل، نرم مزاج، سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک قرار دیے جاتے ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ انہیں عدالت نے وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا تھا۔ ایک ہار بھی ان کے گلے پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے ضیاء الحق کے دور سے سیاست کا آغاز کیا، جونیجو صاحب کے دور میں پاکستان مسلم لیگ میں رہے، پھر اختلافات ہو گئے تو پاکستان پیپلز پارٹی میں آ گئے اور پھر مڑ کر نہیں دیکھا ،یہ اچھی بات ہے ان کی۔

تعلیم تو بہت اعلیٰ نہیں ، پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا ہوا ہے، البتہ سیاسی تجربہ اور سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی اثر رسوخ میں یکتا ہیں۔ سینئر صحافی عارف نظامی نے یوسف رضا گیلانی کو مرنجاں مرنج آدمی کہا، ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کی حیثیت سے اسمبلی میں جایا کرتے تھے اور مخالفین سے بھی میل ملاقات رکھا کرتے تھے ’۔ نظامی صاحب کی یہ رائے اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ وہ مخالفین جو پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے ، اب کافی تعداد میں تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں ۔ یوسف رضا گیلانی کو ان حکومتی اراکین کو اپنے حق میں رام کرنے کا سہارا ہے ، تب ہی تو وہ مقابلہ جیت سکیں گے،  ورنہ تو تعداد تو حکومتی اراکین کی زیادہ ہے۔

حکومتی اتحاد کے امیدوار فیصل واؤڈا کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا گیا۔ سندھ سے لیاقت جتوئی سیخ پا ہیں۔ بلوچستان میں ٹکٹ دے کر واپس لینا پڑا۔ تحریک انصاف اپنی جماعت کے اندر ہونے والے اختلافات کا شکار بھی ہے۔ اس پر حکومت مخالف اتحاد خوب لے دے کر رہا ہے۔ اسلام آباد کی سیٹ پر ووٹرز قومی اسمبلی کے اراکین ہیں۔ اس وقت تعداد کے اعتبار سے حکومتی اتحاد کو برتری حاصل ہے۔ انتخاب اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ عدالت میں بھی رائے لینے چلی گئی۔ جس کا فیصلہ جلد متوقع ہے۔

کچھ ذکر حکومتی امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا۔ ان کا تعلق سندھ کے علاقے خیرپور سے ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بوسٹن یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں۔ خالص پاکستانی ہیں، ملک سے باہر خدمات انجام دیں لیکن دوہری شہریت کے حامل نہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی فیکلٹی میں شامل رہے۔ تعلیم کے اعتبار سے وہ سید یوسف رضا گیلانی سے کہیں آگے ہیں۔ انہوں نے سیاست پاکستان پیپلز پارٹی سے شروع کی، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ماہر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، سینیٹر بھی رہے۔

گفتگو میں وہ بھی نرم مزاج ہیں ، دھیما لہجہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جب معاشی مشکلات حد سے بڑھ گئیں تو عمران خان صاحب نے ڈاکٹر شیخ کی خدمات حاصل کیں اور اب انہیں اسلام آباد کی سیٹ پر سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ مقابلہ سینیٹ انتخابات میں سب سے اہم، دلچسپ اور کانٹے دار ہو گا۔

سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ خریدنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ حالانکہ سینیٹ ”ایوان بالا“ ہے ، اس کے اراکین کو تو اعلیٰ تعلیم یافتہ، تجربہ کار، ایمان دار، محب وطن، اعلیٰ اخلاق کا حامل ہونا چاہیے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کو بھی اسی قسم کی خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے۔ اب اگر ہمارے چند نمائندے چند ٹکوں کے عوض ضمیر فروش ہو جائیں تو ایسے منتخب اراکین دنیا میں تو خوشیاں سمیٹ لیں گے، قانون سے بچ جائیں گے، لوگوں میں اپنے آپ کو پارسا تسلیم کرا لیں گے لیکن اللہ کی پکڑ سے کیسے بچیں گے۔

خریدار بھی برابر کے مجرم ہیں، وہ اپنی ناجائز دولت کے بل بوتے پر اراکین کو خرید کر سینیٹ کے رکن بن جاتے ہیں۔ اس وقت کیا رقم گردش کر رہی ہے وزیراعظم عمران خان صاحب از خود بتا چکے۔ حکومت سینیٹ میں اراکین کی خرید و فروخت کو روکنے کے لیے اوپن بیلٹ سے انتخابات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مخالفین جو ماضی میں سینیٹ اراکین کی خرید و فروخت کو روکنے کے لیے اسی قسم کی بات کر چکے ہیں لیکن اس وقت اس کی مخالفت کر رہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ حکومت کو چند نشستوں کی برتری حاصل ہے اور مخالف اتحاد کو قومی اسمبلی، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں، سندھ میں حکومتی اتحاد کو برتری حاصل نہیں۔

حکومت مخالف اتحاد صرف اس وجہ سے حکومت کی اس کوشش کی مخالفت کر رہا ہے کہ اس وقت یہ ترمیم کیوں؟ اس سے قبل حکومت کو یہ خیال کیوں نہیں آیا، بات میں وزن ہے لیکن اچھا کام جب اور جس وقت ہو جائے اچھا ہوتا ہے۔ حزب اختلاف کو علم ہے بلکہ یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد اور سینیٹ الیکشن کا وہی نتیجہ ہو گا جو سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں ہوا، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع میں ہوا، بجٹ کی منظوری میں ہوا اور دیگر بلوں کی منظوری میں ہوا۔ آگے آگے دیکھیے  ہوتا ہے کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments