انڈیا چین تعلقات: سرحد پر تنازعے کے دوران بھی اربوں کی تجارت کیسے جاری رہی؟


انڈیا اور چین

لداخ کی سرحد پر انڈیا اور چین کے درمیان جھڑپوں اور سنگین کشیدگی کے باوجود چین سال 2020 میں انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ گذشتہ مالی سال میں انڈیا نے چین سے پچاس ارب ڈالر کا سامان خریدا۔

گذشتہ سال انڈیا نے چین سے 58.7 ارب ڈالر مالیت کا سامان درآمد کیا جو امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے درآمد کیے گئے سامان سے زیادہ تھا جبکہ انڈیا نے چین کو 19 ارب ڈالر کا سامان برآمد کیا۔

وادی گلوان میں ہونے والے تصادم میں 20 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ ماحول تھا۔ چین نے چند روز قبل ہی اعتراف کیا ہے کہ اس کے چار فوجی بھی مارے گئے تھے۔ تاہم انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس جھڑپ میں چینیوں کی ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں۔

گلوان کے واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت پر کچھ اثر ضرور پڑا لیکن بہت زیادہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا، چین فوجی ٹکراؤ کتنا سنگین؟

انڈیا،چین تنازع: کب کیا ہوا؟

انڈیا کے جی ڈی پی میں ’تاریخی کمی‘ اور چینی تجارت میں اضافے کا راز

تجارت کی معطلی سے زیادہ نقصان کسے ہو گا؟

انڈیا کی حکومت نے چین سے ہونے والی تمام سرمایہ کاری پر پابندی کے ساتھ ساتھ 200 سے زیادہ چینی ’ایپس‘ پر بھی ملک کی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کردی تھی جس میں مقبول ایپس ٹک ٹاک، وی چیٹ اور ویبو شامل تھے۔

خود انحصاری مہم کتنی موثر ہے؟

گذشتہ سال مئی میں انڈین حکومت نے خود انحصاری کی ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد درآمدات کو کم کرنا، برآمدات کو بڑھانا اور مقامی صنعتوں کو فروغ دینا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سب اقدامات کا مقصد چین پر انحصار کم کرنے کے بارے میں زیادہ توجہ دینا تھا۔

لیکن تجارت سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان تمام اقدامات کے باوجود چین پر انڈیا کا انحصار کم نہیں ہوا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق انڈیا اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت گذشتہ سال 77.77 ارب ڈالر تھی جو وزارت تجارت کے عارضی اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال سے کچھ کم تھی۔ اس سے پچھلے سال دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 85.5 ارب ڈالر تھا۔

دوسری طرف انڈین حکومت نے چینی سرمایہ کاری کو ایک بار پھر اجازت دینے کے بارے میں میڈیا میں آنے والی خبروں کو غلط قرار دیا۔ ویسے بھی چین انڈیا میں کبھی بھی بڑا سرمایہ کار نہیں رہا۔ چین نے 2013 سے 2020 کے درمیان بھارت میں 2.174 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

یہ رقم انڈیا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ وزارت تجارت کے مطابق سال 2020 میں اپریل اور نومبر کے درمیان انڈیا میں 58 ارب ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی۔

دلی کے فور اسکولز مینجمنٹ میں چینی امور کے ماہر ڈاکٹر فیصل احمد کا کہنا ہے کہ خود انحصاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک میں درآمدات رک گئیں یا غیر ملکی سرمایہ کاری نہ آئے۔

وہ کہتے ہیں ‘آنے والے وقت میں چین پر انڈیا کا درآمدی انحصار زیادہ رہے گا۔ ضروری ہے کہ ہمیں خود کو بین الاقوامی تجارت میں نفع بخش بنانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہ ہمارے معاشی مفاد میں بہتر ہو گا اور ساتھ ہی خود انحصار ہونے میں مدد کرے گا۔’

مودی

انڈیا میں خود انحصاری پر زور

ڈاکٹر فیصل کا مزید کہنا ہے کہ ’انڈیا کو خود انحصار بنانے کے لیے اہم ذریعے کے طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم صنعتی شعبے میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کو دیکھ رہے ہیں، ان کو بین الاقوامی سطح پر لے جانے میں ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ گلوبل ویلیو چین (جی وی سی) میں حصہ لے سکیں۔ اس کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری یا ایف ڈی آئی ضروری ہے۔‘

در حقیقت اگر غیر ملکی سرمایہ کاری چین سے بھی آتی ہے تو یہ خود انحصاری کے اصولوں کے منافی نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا چین کو اپنی برآمدات میں بھی 11 فیصد کا اضافہ کرنے کے قابل ہے اور مختلف شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے سے انڈیا کی برآمدی مسابقت کو بھی فروغ ملے گا۔

اس وقت انڈیا چین میں تیار ہونے والی بھاری مشینری، ٹیلی مواصلات کے ساز و سامان اور گھریلو آلات پر زیادہ انحصار کرتا ہے اور وہ چین سے درآمدی سامان کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کے ساتھ سنہ 2020 میں دو طرفہ تجارتی فرق تقریباً 40 ارب ڈالر تھا۔ اتنا بڑا تجارتی عدم توازن کسی دوسرے ملک کے ساتھ نہیں ہے۔

ڈاکٹر فیصل احمد مزید کہتے ہیں کہ ’آج کے نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں ہمیں اسے اپنے معاشی مفاد میں بھی دیکھنا چاہیے۔ عالمی امور بالخصوص بحر الکاہل میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے کردار کو دیکھتے ہوئے یہ ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے اور ساتھ ہی اب وقت آ گیا ہے کہ خطے میں معاشی مفادات کو تیزی سے متحرک کیا جائے۔’

چین تھوڑا محتاط ہے

چین میں سچوان یونیورسٹی سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ ڈین پروفیسر ہوانگ یونسانگ انڈیا اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت اور انڈیا میں چینی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے حق میں ہیں لیکن وہ احتیاط کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم دوطرفہ تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے کی ایک اچھی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن کافی احتیاط کے ساتھ۔‘

مستقبل میں انھوں نے چینی سرمایہ کاری کے بارے میں کہا ‘چینی سرمایہ کاروں نے یہ مشکل سبق سیکھا ہے کہ سیاست کس طرح معیشت کو ہلا سکتی ہے اور اسی وجہ سے چینی سرمایہ کاروں میں اس وقت زیادہ خطرہ مول نہ لینے اور محتاط رہنے کا رحجان ہے۔ چینی سرمایہ کاروں میں اس وقت انڈین مارکیٹ کا ایک بار پھر جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘

پروفیسر ہوانگ یونسانگ چینی سرمایہ کاری، باہمی تجارت اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں کہتے ہیں ’ابھی ڈس انگیجمینٹ کے بہت سے مراحل باقی ہیں، اور آگے آنے والے تمام خطرات کو نظرانداز کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔‘

چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ اس وبا سے پہلے انڈیا چھٹے نمبر پر تھا۔ دو سال پہلے انڈیا اور چین کے درمیان باہمی تجارت 90 ارب سے زیادہ تک جا پہنچی تھی۔

لیکن اس میں 2019 میں کمی دیکھی گئی۔

فی الحال انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا زور چین کے ساتھ تجارتی عدم توازن کو کم کرنا ہے جس کے لیے ملک کو خود کفیل بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انڈین اور چینی فوجی

چین سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے

متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال چین سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے اور انڈیا کا چین پر انحصار اگلے کئی برس تک جاری رہے گا۔ لیکن ڈاکٹر فیصل احمد کہتے ہیں کہ اس مسئلے کو کسی ٹائم فریم میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ خود انحصاری ایک مستقل عمل ہے اس میں وقت کی کوئی حد نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم ایک بڑی برآمدات کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہمیں بھی ایک بہت بڑا درآمد کرنے والا ملک بننا پڑے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور چین دونوں بڑے برآمد کنندگان اور بڑے درآمد کنندہ بھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برآمدی مسابقت کا انحصار لاگت سے فائدے پر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ہم برآمدات میں اضافے کے لیے خام مال درآمد کرتے ہیں اور بہت سے شعبوں میں خام مال اور پارٹ پرزے درآمد کرتے رہنا پڑے گا اس لیے خود انحصاری کو ٹائم فریم میں نہیں رکھا جا سکتا۔‘

چین اس وبا کی تباہ کاریوں سے انتہائی مضبوط طریقے سے ابھرا ہے اور چینی معیشت مستحکم پلر پر ٹکی ہوئی ہے۔ انڈیا کی معیشت بھی آہستہ آہستہ کورونا کے اثرات سے باہر آ رہی ہے۔ ماہرین کی رائے میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون سے دونوں ہی ملک فائدہ اٹھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp