پاوری نہیں ہو رہی!


حمزہ شہبازشریف کی آخرکار ضمانت ہوگئی۔ چونکہ منی لانڈرنگ کیس شہباز شریف پر نہیں بلکہ حمزہ شہباز شریف تھا، اس لیے اب یہ چند ہی ہفتوں کی بات ہے جب شہباز شریف بھی جیل سے باہر ہوں گے۔ اس میں بلاشبہ سازش کی تھیوریوں، اسٹبلشمنٹ کا ہمہ گیر ہاتھ، تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ حمزہ کو کیس میرٹ کی بنیاد پر ضمانت نہیں مل سکتی تھی… اس کے خلاف فرد جرم تیار کرنے میں نیب کو سترہ ماہ لگے تھے۔ اگر اسٹبلشمنٹ کی مرضی نہ ہوتی تو بلاشبہ اُسے مزید وقت کے لیے جیل میں رکھا جاتا۔ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ اسٹبلشمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان واقعی کوئی ڈیل ہوچکی ہے؟

ریاست کا ادارہ،الیکشن کمیشن آف پاکستان آزادانہ فیصلے کرنے کی شہرت نہیں رکھتا، لیکن حالیہ دنوں اس کے کچھ غیر معمولی فیصلوں نے بھی ڈیل کی تھیوری کو تقویت دی۔ تحریک انصاف کی حکومت سینٹ کے انتخابات کے لیے کھلی رائے شماری چاہتی ہے، لیکن چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف بہت دلیرانہ موقف اختیار کیا۔ اس فوراً بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ایک جھٹکا لگا۔ اس نے پی ڈی ایم کا موقف قبول کرتے ہوئے این اے 75 میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔ ایسا کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے مطالبے کو مسترد کردیا جو صرف بیس پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ چاہتی تھی۔ اس سے بھی اہم، بلکہ غیر معمولی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس میں ملوث ڈی سی، ڈی پی او، اے سی، ایس ڈی پی او کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔نیزکمشنر اور آر پی او کی فوری معطلی کا حکم دیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس کو وضاحت کے لیے ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔ ”گمشدہ“پریزائڈنگ آفیسر کا ٹرائل ہوگا جس کے نتیجے میں اُنہیں تین سال تک قید ہوسکتی ہے۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان اتنے دلیرانہ فیصلے کرسکتا تھا اگر اسٹبلشمنٹ حکومت کا ساتھ دینے سے گریز نہ کرتی؟

پی ڈی ایم کے کچھ اہم راہ نماؤں کے بیانات نے بھی سازش کی تھیوری کو مزید تقویت دی۔ ان بیانات کا لب لباب یہ تھا کہ اب اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف کی حکومت کو کھل کر کندھا فراہم نہیں کررہی۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو رپورٹ کرنے والی ایجنسیاں اور انتظامیہ، جیسا کہ آئی بی اور سپیشل برانچ ڈسکہ دھاندلی کے ذمہ دار تھے۔ بلاول بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور حتیٰ کہ رانا ثنا اللہ کا بھی کہنا ہے اسٹبلشمنٹ کا اب تحریک انصاف کی طرف جھکاؤ دکھائی نہیں دیتا۔ نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی خاموشی بھی بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ ابھی کل تک یہ سب اسٹبلشمنٹ پر کڑی تنقید کررہے تھے۔

”اسٹبلشمنٹ کے منہ موڑ لینے“ کا حتمی اور کھلا ”ثبوت“ اگلے ہفتے سینٹ کے انتخابات میں دیکھنے میں آجائے گا۔ اگر پی ڈی ایم یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینٹر منتخب کرانے میں کامیاب ہوجاتی اور تحریک انصاف ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو سازش کی تھیوریوں کی تصدیق ہوجائے گی۔ اس کا مطلب تحریک انصاف کی حکومت پر عدم اعتماد ہوگا۔ پنڈتوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد یہ دیر تک اپنا بچاؤ نہیں کرپائے گی۔

لیکن کاش خواہش کے گھوڑے پر سواری کی جاسکتی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان پانچ سال سے تاخیری حربوں اور معاملے کو گڈ مڈ کرتے ہوئے عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس سے بچائے ہوئے ہے۔ اس نے فیصل ووڈا کو قومی اسمبلی کی سیٹ سے نااہل ہونے سے پہلے سینٹ کا الیکشن لڑنے کا موقع دے دیا۔ دوسری طرف پنجاب ہاؤس کا بل ادا نہ کرنے کی وجہ سے پرویز رشید کو راتوں رات نااہل قرار دے دیا گیا۔ جہاں تک حمزہ شریف کی ضمانت کا تعلق ہے تو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ کو ضمانت دینے سے انکار کیا تو اُنہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اُنہیں واپس لاہور ہائی کورٹ کے پاس جانے کا کہا۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو اس بنیاد پر چیلنج کرے کہ اس پر سترہ ماہ کے بعد کہیں جا کر فرد جرم عائد ہوئی ہے۔ اگر وہاں دادرسی نہ ہو تو وہ دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حمزہ شہباز کی رہائی کا قانونی بندوبست کئی ماہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔

ہم تصویر کے دوسری طرف کچھ اور عوامل کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو اسٹبلشمنٹ کے کردار کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں۔ جب چند ماہ پہلے نواز شریف اور ان کے رہنماؤں نے گوجرانوالہ جلسے میں اسٹبلشمنٹ پر کڑی تنقید کی تھی تو سیاسی مبصرین کے کان کھڑے ہو گئے تھے کہ کوئی اس طرح نام لے کر اسٹبلشمنٹ کو نشانہ بنا کر کس طرح بچ سکتا ہے؟ لیکن صورت ِحال اس کے برعکس دکھائی دی۔ وجہ یہ تھی کہ الزام لگانے والا کوئی دورافتادہ بلوچ، سندھی یا پختون لیڈر نہیں (جن کی حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے) بلکہ ایک مقبول پنجابی لیڈر تھا۔ اسٹبلشمنٹ اس لیے بھی ہل کر رہی گئی کہ ایک تو خراب سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے اسے اپنے گھر میں کھل کر ہدف بنایا جارہا تھا، دوسرے اس کے کچھ افسران کی ذاتی مفاد پرستی کی وجہ سے پورا ادارہ بدنام ہورہا تھا۔

چنانچہ اگر ڈیل ہوئی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ ”ہمارے ادارے کو، اوریقینا افسران کا نام لے کر تنقید نہ کریں، ہم عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف آپ کی جدوجہد میں غیر جانب دار رہیں گے۔“اس طرح اب ریاست کے ادارے، جیسا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ایس سی پی اب نسبتاً آزادانہ فیصلے کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ان سے اسٹبلشمنٹ کے مفاد کو زک نہ پہنچے۔

لیکن کب تک؟ اگر سپریم کورٹ نے کھلی رائے شماری پر تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیے دیا؟ اگر پی ڈی ایم سینٹ میں تحریک انصاف کو برتری حاصل کرنے سے نہ روک سکی؟ اگر عمران خان مریم نوازشریف کو گرفتار کرکے ڈیل کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں؟ اگر لانگ مارچ عمران خان کو گھر بھیجنے میں ناکام رہتا ہے؟ اگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی کو پیپلز پارٹی زک پہنچاتی ہے؟ اگر آصف زرداری تحریک انصاف سے درجن بھر اراکین قومی اسمبلی کو توڑ نے میں ناکام رہتے ہیں اور یوں عدم اعتماد کی تحریک اپنی موت مر جاتی ہے؟ اگر عمران خان کو نکال باہر کرنے باوجود پیپلز پارٹی اور ن لیگ آگے بڑھنے کے لیے کسی اتفاق ِرائے تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں؟

بہت سے سوالات ہیں۔ لیکن تاحال ان کا کوئی جواب موجود نہیں۔ اسٹبلشمنٹ کا معمولی معاملات پر اپنی غیر جانب داری کا اعلان کافی نہیں، جبکہ وہ پی ڈی ایم سے نفرت کرتی ہو۔ نہ ہی پی ڈی ایم کامیاب ہوسکتی ہے تاوقتیکہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں اتفاق ہوجائے کہ اپنے دعووں کے مطابق اسٹبلشمنٹ سے کس طرح نمٹنا ہے۔

جب تک یہ معاملات واضح نہیں ہوتے، دھند چھائی رہے گی اور کوئی پاوری نہیں ہونے جا رہی۔

بشکریہ: دی فرائیڈے ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments