’قائد اعظم اسلام سے دور اور قتل عام کے ذمہ دار ہیں، مجھے قیادت دو‘ مولانا مودودی


\"\"

زاہد چوہدری 1922 میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1944 میں لاہور سے نوائے وقت جاری ہوا تو اس کے رپورٹر کے طور پر صحافت شروع کی۔ اس کے بعد سول اینڈ ملٹری گزٹ، پاکستان ٹائمز اور نیشنل نیوز کے لئے کام کیا۔ ان کی کئی جلدوں پر مشتمل ’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘ میں مضبوط عصری حوالوں کی بنیاد پر تاریخ کو قلمبند کیا گیا ہے۔ بارہ جلدوں پر مشتمل یہ سیٹ پاکستان کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اہم کتاب ہے۔ زاہد چوہدری کا انتقال 1985 میں ہوا۔

مندرجہ ذیل اقتباس ان کی کتاب کی گیارہویں جلد کے صفحہ نمبر 176 پر موجود مضمون سے لیا گیا ہے۔ زاہد چوہدری کی زبان سے ہم اختلاف رکھتے ہیں کیونکہ ہماری رائے میں وہ اردو کے اسلوب کے لحاظ سے نہایت شائستہ نہیں ہے مگر غالباً یہ اسلوب ان کے تین چار دہائیوں تک انگریزی صحافت کا عادی ہونے کی وجہ سے ان کی اردو میں در آیا ہے۔ آئیے زاہد چوہدری کی کتاب سے اقتباس پڑھتے ہیں۔


مودودی کا مطالبہ کہ چونکہ قائد اعظم اسلام سے بہت دور ہیں اور تقسیم کے دوران مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں اس لئے ان کو قیادت سے ہٹا کر اسے قائد بنا دیا جائے۔

\"\"

جماعت اسلامی کے امیر ابوالاعلی مودودی کو بھی پاکستان کے ان 80 فیصد ان پڑھ غریب عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ انہیں نسلی مسلمان کہتا تھا اور انہیں چڑیا گھر کے جانوروں سے اونچا درجہ نہیں دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو موٹر پر آیا ہے وہ موٹر پر چلے، جو پیدل آیا ہے وہ پیدل چلے اور جو لنگڑا آیا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلے۔

تاہم جولائی 1948 میں جب کہ قائد اعظم محمد علی جناح کوئٹہ ککے نزدیک زیارت کے مقام پر ایک چھوٹے سے ریسٹ ہاؤس میں بستر مرگ پر پڑے ہوئے تھے، ابو الاعلی مودودی پاکستان کی قیادت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہا تھا اور اس نے اپنی اس تمنا کا اظہار اپنے ماہنامے ترجمان القرآن کے جولائی 1948 کے شمارے میں کر بھی دیا۔ اس نے لکھا کہ ”اسی حل کو مسلمانوں نے قبول کیا (یعنی پاکستان کو) اور اپنی ساری قومی قوت، اپنے تمام ذرائع اور اپنے جملہ معاملات اس قیادت کے حوالے کر دیے جو ان کے قومی مسئلہ کو اس طرح حل کرنا چاہتی تھی۔ دس برس کے بعد آج اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس نے کس طرح، کس صورت میں ہمارے مسئلہ کو حل کیا۔

جو کچھ ہو چکا، وہ تو انمٹ ہے اب اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ (اگر بدلا جا سکتا تو مودودی اس کو پھر اکھنڈ بھارت کر دیتا)۔ اس پر اس حیثیت سے بحث بیکار ہے اور یہ کیا جاتا تو کیا ہوتا۔ البتہ اس حیثیت سے اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ جو مسائل اب ہمیں درپیش ہیں کیا ان کے حل کے لئے بھی وہی قیادت موزوں ہے جو اس سے پہلے ہمارے قومی مسئلہ کو اس طرح حل کر چکی ہے؟ کیا اس کا اب تک کا کارنامہ یہی سفارش کرتا ہے کہ اب جو بڑے بڑے اور نازک مسائل ہمارے سر پر آ پڑے ہیں جن کا بیشتر حصہ خود اسی قیادت کی کارفرمائیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے، انہیں حل کرنے کے لئے ہم اس پر اعتماد کریں“۔

\"\"نوائے وقت نے مودودی کے اس مضمون پر اپنے ادارتی تبصرے میں اس لئے خوشی کا اظہار کیا کہ ”حضرت مولانا نے 10 سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ دل کی بات کھل کر کہی اور صاف لفظوں میں مسلمانوں سے کہا کہ محمد علی جناح کی جگہ مجھے قائد اعظم مانو۔ اب صرف اتنا کرم فرمائیں کہ مسلمانوں کو یہ بتا دیں کہ آپ کا ٹھوس سیاسی پروگرام کیا ہے؟ اب یہ پروگرام مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو گا تو مسلمان قائد اعظم کو چھوڑ کر آپ کو اپنا لیڈر مان لیں گے۔ اپنا پروگرام نہ بنانا اور محض نعروں ہی سے مسلمانوں کا دل بہلانا یا قائد اعظم کو ’احمق‘، ’غلط کار‘ اور ’دین میں ہلکا‘ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہنا ہرگز آپ کے شایان شان نہیں۔ قائد اعظم کو مسلمان آزما چکے ہیں اور ان کا ریکارڈ قوم کے سامنے ہے۔ آپ کو ابھی قوم نے آزمانا ہے۔ جب تک آپ مسلمانوں کو اپنا ٹھوس پروگرام نہیں بتائیں گے آپ قائد اعظم کو ہزار گالیاں دیجیے مسلمان آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے“۔

نوائے وقت نے اپنے اس اداریے میں ملا مودودی کے اس مضمون کا یہ اقتباس نہیں دیا تھا کہ تحریک پاکستان کے ”اجزا ترکیبی میں مومن اور کھلے کھلے ملحد سب شامل تھے بلکہ دین میں جو جتنا ہلکا تھا وہ اتنا ہی اوپر آیا۔ اس میں اخلاق کی سرے سے کوئی پوچھ نہ تھی۔ عام کارکنوں سے لے کر بڑے بڑے ذمہ دار لیڈروں تک میں انتہائی ناقابل اعتماد سیر کے لوگ موجود تھے۔ بلکہ تحریک کا قدم جتنا آگے بڑھا اس قسم کے عناصر کا تناسب بڑھتا ہی چلا گیا۔ اسلام کو اتباع کے لئے نہیں بلکہ صرف عوام میں مذہبی جوش پیدا کرنے کے لئے فریق جنگ بنایا گیا تھا۔ کبھی ایک دن کے لئے بھی اس کو یہ حیثیت نہیں دی گئی کہ وہ حکم دے اور یہ اسے مانیں اور کوئی قدم اٹھاتے وقت اس سے استصواب کریں“۔

مودودی کی اس تحریر میں ”اسلام کے اتباع“، ”اسلام کے حکم“ اور ”اسلام سے استصواب“ کے جو الفاظ استعمال کیے گئے تھے ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ چونکہ تحریک پاکستان ابو الاعلی مودودی کے زیر قیادت نہیں تھی، چونکہ اس تحریک میں اس سے حکم نہیں لیا گیا تھا اور چونکہ اس سے کوئی استصواب نہیں کیا گیا تھا اس لئے یہ غیر اسلامی تھی۔ اور محمد علی جناح محض اس لئے قائد اعظم بنا تھا کہ وہ ”دین میں ہلکا“ تھا، ”اخلاق سے عاری“ تھا، اور اس کی سیرت ناقابل اعتماد تھی۔

\"\"

ابو الاعلی مودودی نے اپنے ماہنامے کے جون 1948 کے شمارے میں بھی قائد اعظم جناح پر اسی قسم کا حملہ کر کے بین السطور میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ قیادت عظمیٰ میرے سپرد کر دی جائے۔ اس نے لکھا تھا کہ ”دس سال سے مسلمانوں کی قیادت عظمیٰ جس لائحہ عمل پر چل رہی ہے وہ سلطان عبدالحمید خان کی سیاست سے ملتا جلتا تھا۔ جس طرح وہ 33 سال تک محض دول یورپ کی باہمی رقابت سے فائدہ اٹھا کر جیتے رہے اور اس دوران میں خود ٹرکی کی کوئی طاقت انہوں نے نہ بنائی جس کے بل بوتے پر وہ جی سکتا، اسی طرح اس قیادت کا بھی سارا سیاسی کھیل بس انگریز اور کانگریس کی کشمکش سے فائدہ اٹھانے تک محدود تھا۔ پورے دس سال میں اس نے خود اپنی قوم کی اخلاقی، مادی اور تنظیمی طاقت بنانے اور اس کے اندر قابل اعتماد سیرت پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جس کی بنا پر وہ اپنے کسی مطالبے کو خود اپنی قوت سے منوا سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جونہی انگریز اور کانگریس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی، اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا جیسے اس کے پاؤں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہو گئی کہ جو کچھ بھی، جن شرائط پر بھی طے ہوا اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لے۔ بنگال و پنجاب کی تقسیم اسے بے چون و چراں ماننی پڑی، سرحدوں کے تعین جیسے نازک مسئلے کو اس نے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ انتقال اختیار کے لئے جو وقت اور جو طریقہ تجویز کر دیا گیا اسے بھی بلا تامل اس نے مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی اور انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت روز اول ہی سے متزلزل بنیادوں پر اٹھی“۔

زاہد چوہدری صاحب نے اس سے آگے اس باب میں ان بیانات کی بنیاد پر جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ ہمارے لئے نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات خود اس کتاب کا مطالعہ کریں تو مناسب ہے۔


نوائے وقت نے کیوں کہا تھا کہ سید مودودی محمد علی جناح کی جگہ لینا چاہتے تھے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
12 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments