حکمران، وائرس اور بونسائی عوام


مرگ انبوہ، مردہ خانے میں عورت، صحرائے لا یعنی اور ہائی وے پر کھڑا آدمی لکھنے کے دوران مجھے بار بار احساس ہوا کہ میں البرٹ کیمو کے زیادہ قریب ہوں۔ کیمو عالمی سطح پر فسطائیت کے جشن سے بوجھل تھا اور ایک ناول کا خاکہ اس کے ذہن میں پیدا ہونے لگا تھا۔ فسطائیت کے بارے میں ناول لکھنے کا خیال 40 کے عشرے کے اوائل میں البیر کیمو کے سامنے آیا جب اس نے اوران میں تعلیم کی اہمیت اور معنویت کو سمجھا۔ تاہم، ناول پر کام 1943 میں شروع ہوا۔

ناول کا کردار ڈاکٹر گھر کے زینے پر ایک مرا ہوا چوہا دیکھتا ہے اور خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر اپنے تمام تجربات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنی اہلیہ سے علیحدگی کا شکار ہے، لیکن وہ شکایت نہیں کرتا ہے۔ شدید تھکن کے باوجود وہ مریضوں کا علاج کرتا رہتا ہے۔ طاعون کا مقابلہ کرنے کے لئے ڈاکٹر پر عزم ہے۔ اس نے چوہوں کی تعداد میں اضافے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔ کچھ دن بعد ، شہر میں چوہے کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ صرف ایک ہی دن میں ہزاروں چوہوں کی لاشیں جل گئیں۔

صرف اتنا ہی نہیں، جلد ہی ڈاکٹر کے گھر کا محافظ عجیب و غریب بیماری سے بیمار ہو گیا اور اس کی موت ہو گئی۔ وقت گزرا۔ اس وقت تک، چوہے غائب ہو چکے تھے، مگر لوگ نامعلوم بخار میں مبتلا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر نے ساتھیوں سے یہ جاننے کے لئے رجوع کیا کہ بیماری کیا ہے۔ گفتگو سے یہ بات نکل کر سامنے آئی کہ یہ طاعون کی ایک غیر معمولی قسم ہے۔ شہر کے عہدیداروں کو اس وبا کا جواب دینے میں جلدی نہیں تھی، اور وہ صرف ڈاکٹر کی کاوشوں سے ہی بچاؤ کے اقدامات کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

دریں اثنا، روزانہ اموات کی تعداد 30 تک پہنچ جاتی ہے، چاروں طرف افراتفری کا ماحول ہے۔ ڈاکٹر سوچتا ہے، انسان ایک غیر مستحکم روح ہے۔ اسے خوف، مایوسی اور نا امیدی کا احساس ہے۔ کیمو کو انسان کی طاقت کا احساس تھا۔ کیموس کے والد امیر آدمی نہیں تھے۔ وہ شراب بنانے والی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان کا خاندان تباہی کے دہانے پر تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، دریائے مارن کے قریب ایک اہم جنگ ہوئی، کیمو کی زندگی اس سے متاثر ہوئی۔

نوجوان کیمو جوانی کے دنوں میں تپ دق کا شکار تھا۔ ناقابل برداشت حالات اور سنگین بیماری نے بھی کیمو کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ اس نے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی کام کیا اور بہت سفر کیا۔ البرٹ کیمو کا فلسفہ نہ صرف جدید مفکرین کے زیر اثر تخلیق کیا گیا ہے بلکہ ایک حد تک کیمو فیوڈور دوستوفسکی سے بہت زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ اس نے ایک ڈرامہ میں کرامازوف کا کردار ادا کیا تھا۔ پیرس پر قبضہ کے دوران، پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، کیمو فرانس کے دارالحکومت میں تھا۔

شدید بیماری کی وجہ سے اسے محاذ پر نہیں لایا گیا تھا۔ لیکن اس مشکل دور میں بھی، البرٹ کیمو نے ایک فعال معاشرتی اور تخلیقی سرگرمی کی رہنمائی کی۔ اس نے پیرس میں زیر زمین تنظیموں میں سے ایک کی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔

جنگ کے آغاز میں، البرٹ کیمو نے اپنی مشہور ترین کتاب لکھی۔ ”طاعون“ ۔ یہ ناول 1947 میں شائع ہوا۔ اس میں، مصنف نے پیرس میں ہونے والے واقعات کی عکاسی کی، جس پر جرمن فوجیوں نے قبضہ کیا تھا، اس نے علامتوں کا خوب استعمال کیا۔ اس ناول کے لئے، البرٹ کیمو کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ طاعون کے پس پردہ فسطائی نظام کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے۔ مرکزی کردار اس خیال کو نہیں چھوڑتا ہے کہ طاعون دوبارہ لوٹ سکتا ہے۔ ناول میں وبا فاشزم کی علامت ہے، جس نے جنگ کے دوران مغربی اور مشرقی یورپ کے لاکھوں افراد کو متاثر کیا تھا۔

2020 میں کورونا کا حملہ ہوا۔ اب ان دو برسوں کو البرٹ کیمو کے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو حکمران حاشیہ پر نظر آتے ہیں۔ کیمو کا انسان طاقتور تھا۔ 2020 کا انسان مجبور اور کمزور۔ میں تصور نہیں کر سکتا کہ کوئی دنیا کیا اس قدر خراب ہو سکتی ہے؟ کیا حقیقت میں وائرس تھے؟ یا دنیا کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ سپر پاور ممالک نے شروع کیا؟ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ وائرس کو علامت بنا کر ملک میں ایک خوفناک کھیل کی بنیاد رکھی گئی۔

حکومت کے دو افراسیاب جادوگر تماشا دکھانے میں مصروف تھے اور ہیں۔ آزادی کے بعد یہ پہلی حکومت ہے جو بدنامی، رسوائی، جہالت کا تمغہ لگائے شٹر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے بیٹھی ہے اور پورا ملک، ملک کی زمینیں بھی امبانی ادانی کے ہاتھوں فروخت کر چکی ہے۔ ہلاکت، خوں ریزی، جنگ عظیم کی وحشتوں کے درمیان بھی انسانی سفر ختم نہیں ہوتا۔ دھول کی چادر میں لپٹی ہوئی زہریلی گیس تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے، یہ ہماری اس نئی دنیا کا سچ ہے، جہاں تمام تر اقدامات کے باوجود ماحولیات کے تحفظ میں ہم ناکام رہے ہیں۔

ایک ایسی دنیا اور سیاسی نظام سامنے ہے جہاں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے خوفناک اثرات کو دیکھتے ہوئے کتنی ہی امن پسند تنظیموں کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ تیسری جنگ عظیم کی صورتحال کو پیداہونے سے روکا جا سکے۔ آج انسانی حقوق و تحفظ سے وابستہ تنظیمیں لاچار ہیں اور ہم آہستہ آہستہ جنگی کہرے میں گھرتے جا رہے ہیں۔ صیہونی فوجیوں کی انتقامی کارروائی، میانمار کے مظالم، روہنگیائی مسلمانوں کی بربادی، کابل میں مسلسل ہونے والے خودکش حملے، شام اور فلسطین میں ہونے والی انہدامی کارروائی، ہندوستان میں سیاہ چوغہ کا غلبہ، اقلیتوں کے لئے نفرت کا کھلا اظہار، چین، جاپان، امریکہ اور روس کی حکمت عملیاں۔ غور کریں تو سیاسی میزائل تاناشاہوں کے حرم سے باہر نکل کر ایک دوسرے پر یلغار کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس بات سے واقف ہیں کہ عالمی سیاست پر آہستہ آہستہ جنگ عظیم کے خطرات منڈلانے لگے ہیں۔

کورونا پر افسانے اور ناول لکھے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مجھے کیمو کے ناول کا ڈاکٹر یاد آتا ہے جس نے ناول کے اختتام پر کہا تھا، وبا ختم نہیں ہوئی۔ ہماری بداعمالیوں سے وبا ایک دن واپس لوٹے گی۔

ارنسٹ ہیمنگوے کا انسان طاقتور تھا۔ ہنری ملر اور کیمو کا انسان بھی۔ مگر 2000 کے بعد کا انسان کمزور ہے۔ وائرس ہوا میں رقص کر رہے ہیں۔ وائرس سے زیادہ خطرناک حکمران، سیاست پر حاوی۔ اور عام انسان بونسائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments