جنوبی پنجاب کا مقدمہ


جوں جوں جنوبی پنجاب کے لوگ سیاسی طور پر باشعور ہوئے ہیں ان کا اپنے لئے ایک الگ صوبے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کافی عرصے سے لسانی بنیادوں پر ایک علیحدہ سرائیکی صوبے کے لئے ایک کمزور سی تحریک جاری ہے۔ یہ سرائیکی تحریک اگرچہ سیاسی طور پر بہت کمزور ہے لیکن سرائیکی دانشور کافی عرصے سے اس حوالے سے مزاحمتی ادب تخلیق کرتے رہے ہیں جن میں ان کے حقوق غصب کیے جانے کی باز گشت سنائی دیتی رہی ہے۔جس کا نقطۂ عروج عاشق بزدار کی نظم ”اساں قیدی تخت لاہور دے“ ہے۔ یہ نظم سرائیکی علاقوں میں زبان زد عام ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ عوامی سطح پر ایک علیحدہ صوبہ بنانے کے لئے حمایت کافی دیر سے موجود ہے۔

سرائیکی علاقوں میں آباد پنجابی بولنے والوں کی بڑی آبادیاں موجود ہیں جن کو لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تقسیم خطرے کا باعث لگتی رہی ہے اور ان کے مطابق لسانی بنیادوں پر صوبے کا قیام لوکلوں اور آبادکاروں میں کشیدگی پیدا کر سکتا ہے، جس وجہ سے یہ مسئلہ تعطل کا شکار رہا ہے مگر حال ہی میں لسانی بنیادوں کی بجائے پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بات سامنے آئی ہے جس سے پنجابی آباد کاروں کے تحفظات ختم ہوئے ہیں۔ انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے اگرچہ کچھ سرائیکی بولنے والے اضلاع نئے صوبے میں شامل نہیں ہو پائیں گے مگر اس سے اس نئے صوبے کی ایک بہت بڑی آبادکار آبادی مطمئن ہو گی۔

ماضی میں تمام پارٹیوں نے اس مطالبے سے پہلو تہی کیے رکھی۔ خاص کر نون لیگ پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف رہی ہے کیونکہ اس کی قیادت پر اپر پنجاب کے سیاست دانوں کا مکمل ہولڈ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پہلی دفعہ برٹش پنجاب کی تقسیم عمل میں لائی گئی جس سے مشرقی پنجاب انڈیا کے حصہ میں آیا اور مغربی حصہ نئے ملک پاکستان کا ایک بڑا صوبہ بن گیا۔ انڈیا جانے والا پنجاب کا حصہ پاکستانی پنجاب سے کم آبادی پر مشتمل ہونے کے باوجود اب تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔

ہریانہ اور ہماچل پردیش کے نام سے دو مزید صوبے بن چکے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں پنجاب کے اس حصہ کو بدنیتی سے مقدس گائے بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسا ظاہر کیا گیا ہے جیسے پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم کرنے سے کوئی قیامت برپا ہو جائے گی حالانکہ پنجاب کی تقسیم سے جنوبی حصہ کے لوگوں کو تو فائدہ ہونا ہی ہے اس سے وفاق کو تقویت پہنچنے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ پنجاب آبادی اور وسائل کے لحاظ سے ملک کے دوسری صوبائی اکائیوں میں بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے۔

یہ ایسا ہے جیسے قیام پاکستان کے وقت بنگال کی آبادی باقی تمام صوبوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی جس سے وفاق میں توازن نہ بن سکا اور بعد میں ون یونٹ بننے کے باوجود یہ عددی برتری ختم نہ کی جا سکی۔ بنگال کی یہ عددی برتری انیس سو ستر کے الیکشن کے رزلٹ کے تباہ کن نتائج پر منتج ہوئی اور جس سے ملک کی سالمیت کو برقرار نہ رکھا جا سکا۔ تو کیا اب یہ پنجاب کی فیصلہ کن عددی برتری اور اکائیوں کے درمیان عدم توازن وفاق کے لئے خطرناک ثابت نہیں ہو گا؟

ہمیں زیادہ دیر تک اس عدم توازن کو برقرار نہیں رکھنا چاہیے۔ اور اس کا ایک ہی حل ہے پنجاب کو دو صوبوں میں تقسیم کرنا۔ پیپلز پارٹی سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بہت زیادہ توقعات تھیں ملتان سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی نے مگر وزیراعظم بننے کے بعد اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی۔ لگتا ہے جنوبی پنجاب صوبے کا معاملہ صرف عام لوگوں کا مسئلہ ہے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے و ڈیرے اور سیاستدان اس معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔

ان کو بس اپنے عہدے عزیز ہوتے ہیں وہ اپنی مدت پوری کرنے کے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں بجائے اس طرح کے متنازع معاملات کو چھیڑنے کے جیسے کہ مخدوم سجاد قریشی، مصطفی کھر، شاہ محمود قریشی، فاروق لغاری، مخدوم احمد محمود، اور اب عثمان بزدار پنجاب میں سیاسی لیڈر شپ حاصل کرنے کے بعد الگ صوبے کے مطالبہ پر خاموشی کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھی قیادت نے جہاں اپنے ہمسائے سرائیکیوں کو دغا دیا وہیں پر مسلم لیگ نون نے اپنے پیش رو فرنگی حکمرانوں کے پرانے فارمولے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کو اپناتے ہوئے تین صوبوں کا شوشہ چھوڑ دیا۔ دراصل یہ جنوبی پنجاب کے مطالبے کو کمزور کرنے کی نپی تلی چال تھی اس سلسلہ میں بہاولپور کو ملتان کے سامنے لایا گیا اور اس کا نتیجہ تخت لاہور کی توقعات کے عین مطابق نکلا۔ پنجاب برقرار رہا اور اس کے ٹکڑے کرنے کے خواہش مند اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے اس خطہ کے لوگوں کو امید کی ایک اور کرن نظر آئی جب جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ با اثر سیاست دانوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے ایک پارٹی بنائی۔ مستقبل کی حکمرانی کے لئے فیورٹ جماعت کو جنوبی پنجاب سے سیٹوں کی اشد ضرورت تھی۔ چونکہ سندھ اور وسطی پنجاب کو فتح کرنا مشکل نظر آ رہا تھا اس لئے جنوبی پنجاب کو ان الیکشن میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس حوالے سے صوبہ محاذ کے ساتھ بات چیت کے بعد تحریک انصاف نے ان کے ساتھ الیکشن میں حمایت کے بدلے حکومت میں آنے کے بعد جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا تحریری وعدہ کر لیا جس کے بعد جنوبی پنجاب کے ان سیاست دانوں نے اپنی جماعت ختم کر کے تحریک انصاف کے ٹکٹ لے لئے۔

الیکشن کے بعد جنوبی پنجاب کی وجہ سے تحریک انصاف حکومت لینے میں کامیاب ہوئی۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی جنوبی پنجاب سے لیا گیا۔ کچھ عرصے بعد الگ سے صوبہ بنانے کی بجائے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ بنا دیا گیا جو گونگھلوؤں سے مٹی جھاڑنے والی بات ہے۔ اس سیکرٹیریٹ کے تو آفسیرز ہی مارے مارے پھر رہے ہیں جن کو نہ اپنے دفاتر کا پتہ ہے نہ اپنے اختیارات کا۔ یہ بھی نہیں پتہ چلا کہ اس سیکٹرٹیریٹ کا صدر مقام ملتان ہے، بہاولپور یا پھر لاہور جہاں اکثر افسر ابھی بھی براجمان ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے سابقہ لیڈران بھی منسٹریاں اور عہدے لینے کے بعد خاموش ہیں۔ نئے صوبہ بننے کے دور دور تک آثار نہیں ہیں۔ جنوبی پنجاب کی عوام کے ساتھ ان کے لیڈران ایک دفعہ پھر ہاتھ کر چکے ہیں جیسے وہ پچھلی کئی دہائیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔

نئے صوبے کا سب سے بڑا فائدہ لاہور کو ہونا ہے۔ اس شہر پر آبادی کی یلغار کم ہوگی ٹریفک کے اژدہام ختم ہوں گے۔ شہر میں جو سیمنٹ اور سریے کے پہاڑ قائم کیے جا رہے ہیں ان کی ضرورت نہیں رہے گی۔ شہر کے ارد گرد کی قیمتی زرعی زمینیں رہائشی کالونیوں کی نذر ہو رہی ہیں۔ لاہور کا قدیم کلچرل چہرہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ ایئر کوالٹی دنیا میں بدترین ہو چکی ہے۔ نیا صوبہ بننے سے لاہور کو بھی سکون کا سانس نصیب ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments