مادری زبانیں، سندھ حکومت اور بھانڈے کے کوے


سندھی زبان میں ملاح دریا یا نہر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے جو پڑاؤ لگاتے ہیں ،ان کے لیے بھانڈے کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ بھانڈے کے کوے بڑی عجیب و غریب طبعیت کے مالک ہوتے ہیں۔ بھانڈے کی جگہ اگر کھانے پینے کی اشیاء سے خالی ہو تو دور دور تک ان کوؤں کا نام و نشان نہیں ملے گا مگر اشیائے خورونوش کی خوشبو محسوس ہوتے ہی وہ بھانڈے پر وارد ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے زیادہ چیزیں پانے کے لیے اپنا اپنا گروپ بنا کر طرح طرح کے حربے استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور چیزیں ملتے ہی رفو چکر ہو جاتے ہیں۔

بس کچھ ایسا ہی بھانڈے جیسا حال ہمارے ہاں زبانوں کے ناموں پر لگنے والے میلوں ٹھیلوں کا ہے۔ کبھی یہ میلہ مادری زبانوں کے نام پر سجایا جاتا تھا ، اب کچھ تبدیلی کے ساتھ پاکستانی زبانوں کے نام پر سجایا گیا۔ نام کی تبدیلی تو چلو مثبت تھی مگر اس کے علاوہ زبانوں کی تحقیق و ترویج، ترقی اور ناپید ہونے والی زبانوں کے بچاؤ کے حوالے سے کچھ مثبت پہلو نظر نہ آئے۔

زبانوں کا میلہ چاہے اسلام آباد میں ہو یا حیدر آباد میں یا پھر کراچی میں ، سندھ حکومت کی فنڈنگ انہی گنے چنے گروپس کو ہی ملتی ہے جو ہمیں زندگی کے ہر میدان میں آل راؤنڈر کی طرح نظر آئیں گے۔

پھر چاہے وہ آبی ماہرین ہوں یا کیفے چلانے کے ماہر ہوں یا پھر ماحولیاتی آلودگی ہو یا کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا کام ، سب ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تھرکول میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند تو کوئلے سے بجلی بنانے میں ناکام ہوئے مگر یہ جناب تھر سے سونا بھی ہر حال میں نکال ہی لیں گے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے پاکستانی زبانوں کے میلے میں سیشنز کے عنوانات کو دیکھ کر مطالعۂ پاکستان کی نصابی کتب ذہن میں آ رہی تھی۔

کورونا اور سائنس سے شروعات کے بعد میلے کا اختتام موسیقی اور بس موسیقی پر ہو گیا اور یوں زبانوں کا میلہ منعقد کرنے کا یہ فریضہ سندھ حکومت کے تعاون سے مکمل ہوا۔ مادری زبانیں تو ویسے ہی اس طرح کے ڈیولپمنٹ سیکٹر کے ماہرین کے ہاتھوں اپنی موت آپ مر جائیں گی جنہیں مادری زبانوں کی ترقی و تحقیق اور ان کے بچاؤ سے کوئی غرض نہیں بلکہ بھانڈے کے کوؤں کی طرح صرف اپنے مفادات سے ہے اور اگر مادری زبانوں کے بھانڈے سے فنڈنگ ملنا بند ہوئی تو یہ دوسرے بھانڈے کی طرف دوڑ لگاتے نظر آئیں گے ، پھر چاہے وہ میدان سائنس کا ہی کیوں نہ ہو بوقت ضرورت اس طرح کے گروپس ہر رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیتے ہیں۔

دیکھا جائے تو اس طرح کے گروپس کچھ مخصوص اشخاص پر مشتمل نظر آئیں گے، پسند نا پسند کی بناء پر کچھ تبدیلی شاید ہوتی ہو مگر وہ بھی صرف چچا بھتیجا یا دوست طرز کی۔ نہ الیکشن کا کوئی نظام نہ ہی آڈٹ کا کوئی تصور۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ سندھ حکومت اتنے بڑے بڑے فنڈز کس طرح اور کن بنیادوں پر جاری کرتی ہے جس پر ادب اور مادری زبانوں کی ترقی تو نظر نہیں آتی صرف یہی ڈیولپمنٹ سیکٹر کے چند گروپس مال بناتے نظر آتے ہیں۔

ایک عام لکھاری، فنکار، موسیقار فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ تھر کے مقامی لوگوں کی زبانیں بچانا تو دور کی بات ہم نے انہیں خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ مادری زبانوں کی حفاظت کے لیے تو سندھ حکومت بلند بانگ دعوے کرتی اور بے دریغ فنڈز جاری کرتی ہے مگر جب تھرپارکر چھاچھڑو میں ایک حاملہ عورت کو سرکاری نہ ہی پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرنے پر سڑک کنارے چادر کا پردہ لگا اس کی ڈیلیوری کرائی جاتی ہے ، تب سندھ حکومت کہاں سوئی ہوتی ہے اور اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا؟

جب ایک ماں کے ساتھ ایسا بے رحمانہ سلوک ہو رہا ہو تو ماں بولیوں کی حفاظت کا کیا کرنا۔ کیوں ماں بولیوں کی حفاظت کے لیے ملکی سطح پر قائم اداروں کی خدمات نہیں لی جاتیں؟ کیوں ان ڈیولپمنٹ سیکٹرز کے چند گروپس کو اتنے بڑے بڑے ٹھیکے دے کر وقت اور پیسہ دونوں کا ضیاع کیا جاتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments