جھونگا: گاؤں کے بابا رتنا سے جدید کارپوریشن تک


اکنامکس کے اصولوں پر ایک کتاب میرے زیر مطالعہ تھی تو Persuasion اور Reciprocity جیسے دو الفاظ سے واسطہ پڑا۔ دونوں کا مطلب و معانی پڑھے تو اندازہ ہوا کہ بزنس اور مارکیٹنگ کے وہ اصول و ضوابط ہیں جن کے لحاظ سے گاہک کو اپنی اشیا بیچنے کے لیے کیسے قائل کیا جائے اور اس چیز کو اس خریدار کی ضرورت بنایا جائے۔ صارف کو کیسے فائدہ پہنچایا جائے؟ ”جھونگا“ کیسے دیا جائے؟

جھونگا کا لفظ شاید کچھ اذہان کو یک لخت کسی چھوٹی سی دکان، ٹھیلے، کھوکھے یا گلی محلے کے کونے بنی کچی پکی چھت تلے اشیا بیچنے والے کے پاس لے گیا ہو۔ جس نے بھی بچپن گزارا ہو گا، گاؤں محلے میں وقت بیتا ہو گا اسے دکاندار سے ملنے والا جھونگا ضرور یاد آیا ہو گا۔

چلیں ہم بابا رتنا کی دکان چلتے ہیں۔ ہمارے قصبے کے بازار میں ہندوؤں کے بنے، چھوڑے گھروں میں بنی دو دکانیں بابا رتنا اور بابا بشیر کی تھیں۔ بابا رتنا تلخ مزاج، غصیلا اور تیز مزاج تھا۔ جب کہ بابا بشیر خاموش طبع، دھیما مزاج اور کم گو انسان تھا۔ دونوں کی دکانوں پر ایک جیسی اشیا میسر تھیں، دونوں کے ریٹ بھی ایک جیسے تھے۔ دونوں اذان کی آواز کے ساتھ ہی فروخت بند کرتے، لوٹا اٹھاتے، دکان کے تھڑے کے کنارے بیٹھ کر وضو کرتے اور نماز ادا کرتے تھے۔

ان کے گاہک پورے قصبے کے بچے ہوتے تھے۔ اچھی مونگ پھلی، ریوڑی، گچک، نمکو، مرونڈا، دیسی بدیسی ٹافیاں، رنگ برنگی گولیاں، پاپڑ، چار پانچ اقسام کے چینی، نمک کی کوٹنگ کے بنے چنے غرض کہ ہر چیز ملتی تھی۔

دونوں ایک جیسے بابے تھے۔ سفید چمکتے چہرے، باریش!

مگر سب سے زیادہ رش بابا رتنا کے پاس ہوتا تھا۔ میں نے اپنے پورے بچپن میں کبھی کچھ بھی بابا بشیر سے نہیں خریدا تھا۔ اس کی وجہ محض ایک ہی تھی۔ بابا رتنا جھونگا ضرور دیتا تھا۔ سکول کے بچے ہوں، اردگرد واقع تیس گاؤں کے ہماری منڈی میں آنے والے خریدار ہوں یا ہم مقامی بچے ہوں، بابا رتنا کو سب یاد رہتے تھے۔ جھونگا سب کو ملتا تھا۔ پچاس پیسے کی خریداری پر اسی مقدار تک کا جھونگا مل جاتا تھا۔ ساتھ کھڑے چھوٹے بھائی کو بھی کہا جاتا تھا کہ تم بھی اپنا دامن سامنے کرو۔ بابا رتنا اس میں بھی مٹھی بھر کر مونگ پھلی پھینک دیتا تھا۔

کسٹمر سیٹیسفیکشن، Beyond Customer satisfaction، Social corporate responsibility تو آج کے کنسیپٹ ہیں۔ یہ بابے تو بہت پہلے سے یہ سب کچھ سیکھے ہوئے تھے۔ غریب بچوں کی پہچان ہوتی تھی۔ سوشل کارپوریٹ ذمہ داریاں بھی نبھاتے تھے۔ احساس بھی تھا۔ کاروبار میں برکت اور زندگی میں اطمینان بھی تھا۔

میرے ایک دوست منصور علی ہیرا کے والد صاحب کی اسی بازار میں ڈیری مصنوعات کی دکان تھی۔ وہ برفی نہایت شاندار بناتے تھے۔ بابا تقی محمد۔ ان کی دکان کا دودھ بھی بہت مشہور تھا۔ منصور علی کا بابا رتنا کی دکان پر موجود، سوجی کی برفی کھانے کو جی چاہا۔ بابا رتنا نے یہ سوجی کی برفی اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ساتھ ہی ڈانٹا کہ تمہاری دکان پر اس سے اچھی برفی موجود ہے، وہ کھاؤ۔ منصور نے بہت اصرار کیا مگر بابا رتنا نہیں مانے۔ وہ چاہتے تو اپنی مصنوعات بیچنے کے لیے منع نہ کرتے مگر کسٹمر کیئر انہوں نے بغیر ایم بی اے کے سیکھی تھی۔

بابا رتنا ہمارے قصبے کے ہر بچے کا بچپن ہے۔ آج وہ دونوں بابے دنیا میں نہیں رہے۔ بلکہ سچ بتاؤں تو مجھے آبائی قصبہ چھوڑے طویل عرصہ بیت گیا ہے۔ معلوم نہیں وہ دونوں کب اور کیسے دنیا چھوڑ گئے۔ کبھی چھٹی جاؤں تو ان دونوں دکانوں میں جدید اشیا کی خرید و فروخت کرتے ماڈرن دکاندار نظر آتے ہیں۔ بازار آج بھی وہی ہے۔ مگر وہ بابے نہیں ہیں۔

ایسے بہت سے بابے رتنے اور بابے بشیر اس معاشرے میں بستے ہیں۔ والدین کو کبھی یہ شکایت نہیں رہی کہ ان دونوں بابوں نے بچوں کو بقایا پیسے نہیں دیے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مٹھی میں تھامے تمام پیسوں کی اشیا سے انہیں لاد دیا ہو۔ وہی چیز دی جو اس بچے کے لئے مناسب سمجھی۔

وقت آج بھی وہی ہے۔ ہم امتیاز سپر سٹور سے شاپنگ کرتے ہیں۔ لسٹ بنا بھی لیں تو ہر چیز دیکھ کر ہمارا جی للچاتا ہے کہ ٹرالی میں بھر لیں۔ ضرورت نہیں بھی ہوتی اور اشیا خرید لی جاتی ہیں۔ کیچپ کی ضرورت نہیں ہوتی مگر اس کے ساتھ چپکے شان کے چاٹ مصالحہ کو دیکھ کر خرید لیا جاتا ہے۔ یہ جھونگا کی نئی قسم ہے۔ لاہور میں حافظ جوس کارنر بھی چھوٹا گلاس بطور جھونگا ہی مہیا کرتا ہے۔

اسے ہی پرنسپل یا تکنیک آف Reciprocity کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق گاہک کو چیز خریدنے کے ساتھ کچھ اضافی چیز مہیا کی جاتی ہے۔ کچھ مزید فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ ٹوتھ برش دیا جاتا ہے۔ ڈنٹونک نے ایسا کچھ نہیں کیا، مارکیٹ سے ختم ہو گیا۔ بابا رتنا بھی یہی کرتا تھا۔ اس لیے اس کا کاروبار چمکتا تھا۔ مگر اس سادہ سے بابے نے کبھی ملاوٹ شدہ، پرانی، غیر معیاری اشیا نہیں بیچی تھیں۔ اگر اسے ریسی پروسٹی (Reciprocity) آتی تھی تو (Honesty) ایمانداری بھی آتی تھی۔ مجھے امید ہے کہ ہر معاشرے میں گزرے بچپن کا یہ ”جھونگا“ سب کو اپنے ماضی کی یادوں میں گم کر دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments