خاقان ساجد کا افسانوی مجموعہ ’آدم زاد‘


میں ساجد کو ایک مصور اورکارٹون آرٹسٹ کے طور پر تو جانتا تھا۔ مگر ساجد افسانے بھی لکھتا ہے؟ اس کی خبر تین سال قبل اس وقت ہوئی جب اس کی کتاب ”آدم زاد“ میرے سامنے آئی۔ میں ان دنوں اردو افسانوں کا انگریزی ترجمہ کر کے ان کو شارٹ سٹوری بک بنانے کی اپنی دوسری کتاب پر کام کر رہا تھا۔ مجھے ایسے ابھرتے ہوئے افسانہ نگاروں کی تخلیقات درکار تھیں۔ جو زمانۂ حال کے جینوئن اور ٹیلنٹیڈ ادیب ہوں۔

ایسی کہانیوں کی تلاش کا سلسلہ دو سال جاری رہا۔ ایک دن ”آدم زاد“ نامی کتاب میرے ہاتھ لگی۔ ”آدم زاد“ پر مصنف کا نام خاقان ساجد دیکھ کر مجھے ایک خوش گوار حیرت ہوئی۔

”آدم زاد“ کے افسانے پڑھنے شروع کیے تو پہلے افسانے ”ڈالی“ سے لے کر ”خالص جان“ تک سارے افسانے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے۔ مگر ”خالص جان“ سے آگے نہ بڑھا کیونکہ میں اس افسانے کو پڑھ کر ترجمہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ میں نے ”خالص جان“ کو اپنی انگریزی کتاب : [The Incredible Pakistani Short Stories] میں اسی نام سے شامل کیا ہے۔ اور کوشش کی ہے کہ افسانہ ترجمہ ہو کر انگریزی کی ہی شارٹ سٹوری لگے۔

آج کل میں ”آدم زاد“ دوبارہ پڑھ رہا ہوں۔ کتاب کی سب سے بڑی خوبی افسانوں کے موضوعات کا تنوع ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایک سپاہی کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلے میں انواع و اقسام کے مقامات کے عوام و خواص سے روابط اور بعض اوقات بیرون ملک کے معاشرے تک دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ متنوع مضامین خیال میں آتے ہیں۔ ایسے میں اگر ادیب ایک حساس اور زیرک مشاہدہ کار ہے اور لکھنے کا فن جانتا ہے تو بے شمار کہانیاں اس کے قلم کے ذریعے وجود میں آ سکتی ہیں۔

”آدم زاد“ میں پندرہ افسانے اور آٹھ افسانچے ہیں۔ جن میں ’ڈالی‘ ، ’لوٹ آؤ‘ ، ’اکیلا آدمی‘ ، ’لاوارث‘ ، ’زرخرید‘ ، ’آدھا آدھا‘ ، ’سانتے‘ اور ’آدم زاد‘ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ افسانچوں میں ’ہوش‘ ، ’تلافی‘ ، ’معمار قوم‘ اور ’اصولی بات‘ پڑھنے لائق تخلیقات ہیں۔

ہمارے صوبہ بلوچستان میں رائج سرداری کے فرسودہ اور جبری نظام میں پسے عوام کے مسائل ہوں یا عرب امیر زادوں کی عیاشی کے احوال، ہمارے قبائلی علاقے کے مخصوص اطوار جنس ہوں یا روزی کی تلاش میں بیرون ملک جا بسنے والے تارکین وطن کی روداد ہو۔ معاشرے میں ہر سو پھیلی ثقافتی گھٹن کے مناظر ہوں یا مذہب کا لبادہ اوڑھے منافقین کے قصے۔ ساجد کا قلم ایک خوبصورت روانی، چاشنی اور مطلوبہ ایمائیت کے ساتھ ہر اس موضوع کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے جس کا تعلق انسانی زندگی کے دکھ اور سکھ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

” لوٹ آؤ“ بہت دلگیر افسانہ ہے۔ جس میں بیرون ملک جا بسنے والے ایک نوجوان کو ایک دوست کے ذریعے اس کے غمزدہ والد کا خط ملتا ہے۔ باپ اپنے کیے پر شرمسار اور وہ اب عمر کے آخری حصے میں بیمار و لاچار ہو چکا ہے اور بیٹے کو ایک نظر دیکھنے کا خواستگار ہے۔ نوجوان جو والد کی سخت گیر طبیعت کی وجہ سے ناراض ہو کر ملک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے برطانیہ جا بسا تھا، والد کا خط ملنے پر ساری ناراضگی بھول کر وطن لوٹ آتا ہے۔ مگر اس کا باپ، بیٹے کے پہنچنے سے چند ساعت قبل منوں مٹی کے نیچے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو چکا ہے۔غیر موزوں جیون ساتھی مل جانے سے زندگی کس قدر کٹھن امتحان بن جاتی ہے۔ اس کیفیت کا احساس ”آدم زاد“ اور ”آدھا آدھا“ افسانہ پڑھ کر ہوتا ہے۔ افسانچوں کی شکل میں ساجد اپنے پڑھنے والوں کو طنز و مزاح کی دیدہ زیب پیکنگ میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کے تحفے دیتا ہے۔ افسانچے : ”معمار قوم“ ، ”اصولی بات“ اور ”تلافی“ اس ہنر کی عمدہ مثالیں ہیں۔

مصنف کی تین طبع زاد کتب ہیں۔ جن میں سے ایک ناول ”چمپون“ اور دو افسانوی مجموعے، ’‘ کباڑیا ”اور“ آدم زاد ”ہیں۔ جبکہ چار تراجم اس کے علاوہ ہیں۔ اس کے علاوہ پر اسرار کہانیوں کی کتاب“ وحوش ”بھی ہے۔

ساجد سے گزارش ہے کہ تخلیقی کام جاری رکھے۔ اور اکثر پاکستانی ادیبوں کی طرح تخلیقی رجو نورتی {creative menopause} کا شکار نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments