ستائیس فروری 2019، چائے بہترین ہے


فالس فلیگ آپریشن کا چرچہ پچھلے دنوں بہت رہا، دوستوں نے پوچھا کیا کیا ہوتا ہے تو سوچا کچھ کہوں کچھ سمجھاؤں، کچھ لکھوں، پھر سوچا کہ پلوامہ حملے کو ہی مثال کے طور پر پیش کر دوں، ویسے تو بھارتی تاریخ بھری پڑی ہے اس قسم کی جھوٹی ہمدردیاں بٹورنے والی جعلی کارروائیوں سے، تو پیش ہے کہانی پلوامہ حملے اور اس کو بنیاد بنا کر بھارتی کارروائی اور اس پر ہمارے ردعمل کی۔

قصہ کچھ یوں شروع ہوتا ہے کہ 14 فروری 2019 جب مقبوضہ کشمیر پلوامہ میں سری نگر نیشنل ہائی وے پربھارتی سینٹرل ریزرو پولیس کے قافلے پر حملہ ہوتا ہے، جس میں متعدد بھارتی سپاہی مار جاتے ہیں، بھارتی میڈیا میں ایک شور مچ جاتا ہے کہ یہ حملہ پاکستان سے آئے لوگوں نے کیا ہے، پاکستان کب تک یہ حملے کرتا رہے گا، پاکستان کو سبق سکھانا پڑے گا کی گردان شروع ہو جاتی ہے۔

19 فروری کو پاکستانی وزیراعظم نے کھل کر بھارتی سرکار کو یہ پیشکش کی کہ ثبوت فراہم کریں ، ہم کارروائی کریں گے، جبکہ اسی خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے ہندوستانی نیتاؤں کو یہ پیغام بھی دیاکہ اگر اس قسم کے حملے کو بہانہ بنا کر آپ نے پاکستان کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کی تو پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں پاکستان جواب دے گا، بجائے اس کے کہ بھارت کی جانب سے عمران خان کے اعلان پر سنجیدگی سے سوچا جاتا، وہ دوسری ہی طرح سوچ رہے تھے۔ یہ بات ان کے میڈیا کے ذریعے دیکھی سنی، سمجھی جا سکتی تھی، لیکن سوال کھڑا ہوا بھارت پاکستان کو ثبوت دینے لیے تیار کیوں نہ تھا۔

بھارتی میڈیا مسلسل پاکستان کے خلاف کیوں زہر اگل رہا تھا، بھارت میں کیا چل رہا تھا ، یہ اس کے میڈیا پر صاف ظاہر ہو رہا تھا، بھارت میں الیکشن کا ماحول گرم تھا، مشرقی ریاستوں میں انتخابات کا ڈول ڈلا ہوا تھا، یہ بات تو صاف ہے بھارت میں جب کبھی چناؤ کا مدعا ہو یعنی وہاں جب الیکشن ہوتے ہیں، بھارتی سیاست دانوں کو، ان کے نیتاؤں کو پاکستان کی بہت شدید یاد آتی ہے، پاکستان کو اپنے بھاشنوں میں سبق سکھانے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، لیکن اس بار عوام کو یقین دلایا جا رہا تھا ہم سکھائیں گے سبق پاکستان کو اور 25 اور 26 فروری 2019 کی درمیانی رات بھارتی وایو سینا یعنی بھارتی فضائیہ نے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، اس کے میراج 2000 طیارے نو شہرہ تک آئے اور جیسے ہی ان کو اندازہ ہوا کہ پاکستانی طیارے ان سے نمٹنے کے لیے پروازبھر چکے ہیں تو بھارتی ہوا بازوں کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے فوراً بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی، لیکن بھاگتے ہوئے اپنے طیاروں پر لگے اسمارٹ بم بالاکوٹ کے جنگل پر پھینکتے گئے۔

یہاں جنگل میں پاکستان کے تین درخت اور ایک عدد کوا اس بے وقت حملے میں جان سے گئے، سمارٹ ہتھیاروں کا اتنی کم عقلی اور عجلت میں استعمال ہونا، وہ بھی اس طرح محض ایک ثبوت تھا کہ بھارتی فضائیہ کے ہوا باز کس درجے کے ماہر ہیں، تاہم پاکستان سے بچ نکلنا شاید ان ہوا بازوں کی خوش قسمتی تھی جس کو بھارتی میڈیا نے 26 تاریخ سے ڈھول کی طرح پیٹنا شروع کر دیا، اب اپنے عوام، اپنی جنتا کو یہ تاثر دینا چاہ رہے تھے جیسے پاکستان کو سبق سکھانا کوئی فکر کا کام ہی نہیں ، ہم تو کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں پاکستان سے، پاکستان کو اب اس کی عادت ڈالنی ہے کہ بھارتی حملے کرتے رہیں گے۔

26 تاریخ کی شام پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان نے میجر جنرل آصف غفور نے دنیا بھر کے صحافیوں کو بھارتی ایئر فورس کی بے وقت اور بے ڈھنگی کارروائی کے حوالے سے آگاہ کیا اور پاکستان کے ممکنہ جواب کا پیغام بھی عالمی اور مقامی میڈیا پر دیا، ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے جواب کا انتظار کریں“ ، اور اگلی صبح پاکستانی وقت کے مطابق 9 ساڑھے 9 بجے بھارتی ٹی وی چینلز نے کشمیر میں اپنے طیاروں کے گرنے کی اطلاعات دیں۔ کچھ دیر بعد یہی خبریں پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھی آ گئیں۔

یہ جنوبی ایشیا میں موجود دو ایٹمی قوتوں کے درمیان پہلی براہ راست فضائی معرکہ آرائی تھی، پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے لیے بھارتی فوجی ٹارگٹس کے پاس کھلے میدانوں میں اسمارٹ ویپنز کا اسمارٹلی استعمال کرتے ہوئے میراج اور جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے شاندار مظاہرہ پیش کیا، اپنے فوجی ٹارگٹس پر حملوں کے بعد بھارتی فضائیہ میدان میں بے ڈھنگے پن کے ساتھ آئی اور پاکستانی فضاؤں کے نگہبان ان کو سبق سکھانے کے لیے موجود تھے۔

جیسے ہی بھارتی طیارے پاکستان کی پاک فضاؤں کے قریب آئے پاکستانی F 16  میں موجود پاکستانی پائلٹ گروپ کیپٹن نعمان علی خان اور اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے ان کو چیلنج کیا اور کامیابی سے مار گرایا، ایک سخوئی Su 30 مقبوضہ کشمیر میں اس جانب گرا جبکہ دوسرا طیارہ MiG 21 Bison آزاد کشمیر کے علاقے حران جو کوٹلی کے شمال واقع ہے ، میں گرا، جس کے پائیلٹ گروپ کیپٹن ابھی نندن کو پاکستانی عوام کے غضب کا سامنا کرنا پڑا ، تاہم فوراً ہی بعد پاک آرمی کے جوانوں نے ابھی نندن کو اپنی حراست میں لے لیا۔

پاکستانی عوام کو بھارتی حرکت پر شدید غصہ تھا، لیکن پاکستان آرمی کے جوانوں کی وجہ سے بھارتی شکست خوردہ پائیلٹ کو بچا لیا گیا، حراست کے دوران بھارتی جنگی قیدی کو میڈیکل ٹریٹمنٹ دیا اور اس کے بعد چائے بھی پیش کی گئی، جس پر اس نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا The Tea is Fantastic، یہ جملہ گویا پاکستانی مہمان نوازی کا ایک اشتہار ہی بن گیا، پاک فوج کے ترجمان آصف غفور نے اسی شام ساری تفصیلات سے قوم اور عالمی میڈیا کو آگاہ کیا۔ بھارتی وزیراعظم نے بعد میں شکست کا اعتراف کچھ اس طرح کیا کہ اگر بھارتی فضائیہ میں رافیل طیارے ہو تے تو یہ نہ ہوتا۔

پاکستانی وزیراعظم نے 28 فروری کو پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ ہم بھارتی قیدی پائلٹ کو Peace Gesture کے طور پر رہا کر رہے ہیں، اس بات پر بحث تو ہو سکتی ہے کہ عمران خان نے بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے کا فیصلہ کرنے میں شاید جلدی میں کی ، لیکن پاکستان نے بہرحال اس کو چھوڑنا ہی تھا اور اگلی شام ساری دنیا کے سامنے پاکستان نے عالمی قوانین کا احترام کرتے ہوئے بھارتی پائیلٹ واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

رہائی سے قبل ابھی نندن کی ایک اور ویڈیو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کی گئی جس میں ابھی نندن نے اپنی ناکامی، اپنے طیارے کی تباہی کو تسلیم کیا اور پاکستانی کی مہمان نواز کا اعتراف بھی کیا، بھارتی میڈیا کی جانب ابھی نندن کی اس آخری ویڈیو پر ردعمل یہ تھا کہ جس بھارتی ناگرک کو یہ ویڈیو ملے اس کو روک لیں یا ڈیلیٹ کر دیں، ظاہر ہے پاکستان سے ملنے والی مہمان نوازی اور اپنی شکست کا آپ اعتراف کرنے کے بعد بھارتی نیوز چینل پر بیٹھے لوگ اور سوچ ہی کیا سکتے تھے۔

بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ابھی نندن کا جہاز گرنے سے پہلے پاکستانی طیارے کو اپنے میزائل سے نشانہ بنا چکے تھے، جبکہ ابھی نندن کے تباہ شدہ جہاز کے ہمراہ وہ چاروں میزائل بھی مل گئے جو ممکنہ طور پر وہ اپنے دفاع میں استعمال کر سکتا تھا، جو استعمال نہیں ہو سکے، ان سے پاکستانی جہاز مار گرانے کا دعویٰ ویسا ہی ہے جیسے کسی کو سفید کوے نظر آجائیں، بھارتی افواج کے ترجمانوں نے وہ AMRAM میزائل دنیا کو دکھایا جس سے ان کا Su 30 ہٹ ہوا تھا، پھر اپنی بے کار بات میں وزن ڈالنے کی کوشش تھی، دنیا کے سامنے ریڈارز پر پاکستانی جہازوں کی آمد کے سیگنیچر دنیا کو دکھائے، ریڈارز سے کسی جہاز کے ہٹ جانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جہاز تباہ ہو گا، بلندی کم ہونے کی وجہ سے بھی طیارے بعض دفع ریڈار کی آنکھ سے اوجھل ہو جاتے اور حملہ کرتے وقت نچلی پروازوں کا استعمال اس لیے بھی کیا جاتا ہے۔

بھارتی میڈیا کا کردار پاکستان اور بھارت کے تناظر میں ہمیشہ شرمناک رہا، پلوامہ حملے کے حوالے سے بھی یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ بھارتی صحافی ارناب گو سوامی کو پلوامہ میں ہونے والے حملے کی خبر تھی، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس حملے میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے لوگ مارے جائیں گے۔یہ بات ابھی کچھ عرصہ قبل اس کی اپنی واٹس ایپ چیٹ سے صاف اور واضح ہو گئی، لیکن محض اپنے ٹی وی چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے، ٹی وی پر پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے ارناب گوسوامی اس گھناؤنے کھیل کا حصہ بنا، یہ بات ابھی کچھ دن قبل اس کی اپنی واٹس ایپ بات چیت کے لیک ہونے پر سامنے آئی، یوں اپنے ہی سپاہیوں کی بلی چڑھانے کے باوجود بھارت کا ناٹک عالمی اسٹیج پر بری طرح ناکام ہوا بلکہ اس میں دو لڑاکا طیاروں، مع دو پائیلٹ، ایک ہیلی کاپٹر مع عملہ 27 فروری کو ضائع ہو گئے، عقل پھر بھی نہیں آئی، کیا خوب اردو محاورہ ہے ”رسی جل گئی پر بل نہیں گیا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments