مامتا کی سنگدلی یا معاشرتی بے حسی



آج پھر ایک دل کو دہلا دینے والی خبر سنی، ایک سنگدل ماں نے اپنے دو جگر گوشوں کو قتل کر دیا۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا، آئے دن اس طرح کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں، میڈیا پر بار بار بریکنگ نیوز دی جاتی ہے، ہر چینل ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں اس مصیبت زدہ خاندان کے گھر تک جا پہنچتا ہے۔ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ماں کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ غرض کہ ایک ہا ہا کار مچ جاتی ہے، اور کچھ دنوں بعد سکوت چھا جاتا ہے۔

ذرا سوچیے، آخر ایک ماں اتنی سنگدل کیسے ہو سکتی ہے؟ وہ ماں جو بچے کو نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھتی ہے، اپنے خون جگر سے اسے سینچتی ہے، موت اور زندگی کے دوراہے سے گزر کر اسے جنم دیتی ہے وہ اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہے؟ ساری ساری رات اس کے لئے جاگتی ہے، بچے کی تھوڑی سی تکلیف پہ تڑپ تڑپ جاتی ہے، زمانے بھر کی تکلیفیں برداشت کرتی ہے لیکن بچے پر آنچ نہیں آنے دیتی، خود بھوکی رہ سکتی ہے، لیکن بچے کی بھوک نہیں سہہ سکتی، بچوں کی بھوک مٹانے کے لئے ہر تکلیف سے بے دریغ گزر جاتی ہے۔

بچوں کی پرورش کے لئے قدرت نے ماں میں ضبط، تحمل، محبت، ایثار اور صبر کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جہاں قدرت نے ماں کے خمیر میں مامتا کا خمیر شامل کیا ہے وہاں محبت کے بے پناہ جذبے کے اظہار اور بے زبانی کو سمجھنے کے لئے باریک بین نگاہیں، نکتہ سنج فطرت بخشی ہے، وہ بچے کی حرکات و سکنات سے سمجھ جاتی ہے کہ بچہ کیا چاہتا ہے۔ بقول حالی:

دو دن میں چیخ اٹھتے اگر مردوں پر پڑتا بار یہ

مامتا اتنی ظالم اور جابر کیسے ہو سکتی ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو انہی ہاتھوں سے موت کی نیند سلا دے، جن ہاتھوں میں وہ بچے کو رات رات بھر جاگ کر لوری سناتی ہے۔ اس سے بڑی قیامت کیا ہو سکتی ہے، آخر ایسے کون سی مجبوریاں یا حالات ہوتے ہیں جو ماں کے دل کو پتھر کا بنا دیتے ہیں۔ یقیناً زمانے کی بے رحمی، غربت، بھوک اور بہت سی ایسی تلخ حقیقتیں، جن کو سہنے کی وجود میں سکت نہ رہ گئی ہو، جہاں زندگی موت سے بدتر ہو جائے، ہر طرف مایوسیوں کا اندھیرا چھا جائے، اس دنیا سے اعتبار اٹھ جائے تو انجام یہی ہوتا ہے۔

ہر روز ہم ایسی خبریں پڑھتے ہیں۔ ماں بچوں سمیت نہر میں کود گئی، خود کو اور بچوں کو آگ لگا لی، قتل کر دیا، ہم تھوڑی دیر افسوس کرتے ہیں ماں کو ہی برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، آخر ایسا کیوں ہوا؟ ماں کی مامتا اتنی بے حس اتنی سنگدل کیسے ہو گئی، اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کو، اپنے جسم کے ٹکڑوں کو خود سے جدا کر دیا، کیوں اپنے جگر گوشوں کے ساتھ جن کو وہ زمانے کے گرم سرد سے بچا کے رکھتی ہے، نہر میں چھلانگ لگا کر موت کی آغوش میں چلی گئی، اس سب کا ذمہ دار کون ہے، اس کا خاندان، اردگرد کا ماحول یا یہ پورا معاشرہ؟

یہ سب عوامل مل کر ایک ماں کو اس نہج پر لے آتے ہیں جہاں وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتی ہے، وہ گونگی اور بہری ہو جاتی ہے، جب تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رہے، تو پھر آنکھیں ہوتے ہوئے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا، کچھ سجھائی نہیں دیتا تو پھر مامتا بھی پتھر کی ہو جاتی ہے۔ پھر وہ روتی سسکتی بین کرتی مامتا اپنے جگر گوشوں کو اس جہنم سے آزادی دلانے کے لئے ابدی نیند سلا دیتی ہو گی، ہاں وہ خود بھی اپنے پیاروں کے ساتھ ہی جانا چاہتی ہو گی، لیکن افسوس کہ ابھی اس کے حصے کے دکھ باقی تھے۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم  نہیں ہوتا

سوچ کے کلیجہ منہ کو آتا ہے، ہمارے اس گلے سڑے معاشرے میں یہ ظلم و ستم کب تک ہوتا رہے گا، آخر اس کا مداوا کون کرے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments