براڈ شیٹ کا فیصلہ ایک زناٹے دار تھپڑ ہے


کتنے برس ہو گئے کرپشن کے نعرے سنتے سنتے، ہر ٹاک شو میں یہی گردان کی جاتی رہی۔ گزشتہ پانچ سالوں سے یہ نعرہ نواز شریف کے خلاف بلند ہوا، ہر شو میں کاغذات لہرا لہرا کر ثبوت پیش کیے گئے، یہی کہا گیا کہ لوٹ کے لے گئے، ملک کو۔ بیچ دیا پاکستان کو۔ اس جعلی پروپیگنڈے کی اصلیت براڈ شیٹ کے کیس میں سامنے آ گئی، یہ حقیقت بھی اس لیے آشکار ہوئی کہ مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں چل رہا تھا، وہاں کوئی انصاف کے عمل پر اثر انداز ہونے والا نہیں تھا۔ وہ کرپشن کا منترا، وہ لندن کے فلیٹس، وہ چوری کے الزامات اور وہ ڈکیتی کے خوفناک بہتان ایک ہی فیصلے میں ہوا ہو گئے۔ براڈ شیٹ کے سہارے کرپشن کے ثبوت پیش کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے، نواز شریف کو پینتالیس لاکھ روپے کی رقم ہرجانے کے طور پر ادا کی گئی کہ الزامات غلط تھے لیکن ان الزامات کے جھوٹ ثابت ہونے تک پلوں تلے بہت پانی بہہ چکا ہے، ایک منتخب وزیراعظم کو تیسری دفعہ برخواست کیا جا چکا ہے، ایک حکومت پر کرپشن کی پانچ سالہ کیمپین چل چکی ہے، لوگوں کے ذہنوں میں سیاستدانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جا چکی ہے، ایک سلیکٹڈ حکومت کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔

نواز شریف کے بارے میں میڈیا پر اس بات کا چرچا ہی نہیں ہونے دیا گیا کہ انھیں کرپشن کے کسی الزام پر نہیں، ایک اقامے کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اگر میڈیا پر اس بات کا چرچا بھی اسی طرح ہوتا جس طرح کرپشن کا منترا پڑھا گیا تھا تو کچھ دل کو تسلی بھی ہوتی لیکن یک طرفہ اس مہم نے اس ملک کو، شریف خاندان کو کتنا نقصان پہنچایا اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔

اگر اس ملک میں بھی ہتک عزت کے قوانین عمل پذیر ہوتے، اگر اس ملک میں بھی سیاستدانوں کو انصاف ملنے کی روایت ہوتی، اگر اس ملک میں بھی جمہوریت کا درس دینے والوں کی حرمت ہوتی تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ خود سوچیے کہ اگر ٹی وی پر ان بے تکے الزامات کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی ہوتی تو تجزیہ کاران ملت کی اکثریت جیل میں ہوتی یا جرمانے بھر رہی ہوتی۔

ایک لمحے کو سوچیے! ہم نے ایک عام آدمی کی ذہنیت کس طرح بنائی ہے، ہم نے اس کے دماغ میں یہ بات ٹھونس دی ہے کہ سیاست دان کرپٹ ہیں، یہ چور ہیں، یہ ڈاکو ہیں، جمہوریت ایک فرنگی نظریہ ہے، یہ فریب ہے، عوام کو دھوکہ دینے کا اسلوب ہے۔ وہ عام آدمی جو ہر روز ٹی وی پر یہی نعرے سنتا ہے، اخبارات میں یہی کچھ پڑھتا ہے، سوشل میڈیا پر اسی سوچ سے متاثر ہوتا ہے تو وہ یہ سوچنے میں شاید حق بجانب ہی ہو گا کہ نواز شریف نے لندن میں چار فلیٹس بنائے اور اس کی وجہ سے یہ ملک ستر سال سے ترقی نہیں کر سکا، شاید انھی چار فلیٹوں کی وجہ سے ہم ایشین ٹائیگر نہیں بن سکے، انھی چار فلیٹوں کی وجہ سے یہاں سے غربت، بھوک اور افلاس ختم نہیں ہو سکا۔

ایک عام آدمی جسے سیاست کے رموز اور چیرہ دستیوں کا علم نہیں ہے، وہ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی چیز بار بار دوہرائی جائے تو ایک اسٹیج پر عام آدمی اس پر اعتبار کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ یہی معاملہ کرپشن کا ہے، لوگوں کے سامنے یہ بات اتنی بار دہرائی گئی کہ وہ چاہتے نہ چاہتے بھی اس پر یقین کرنے لگے، اس جھوٹ، بہتان اور دشنام کو حقیقت ماننے لگے۔

آپ کو یاد ہی ہو گا کہ جب براڈ شیٹ کا معاملہ پہلے پہل میڈیا میں آیا تو کیا ہاہا کار مچی تھی؟ کس نے اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش نہیں کی؟ براڈ شیٹ کا قیام عمل میں کب اور کیسے آیا تھا؟ کس نے اس کمپنی کو کرپشن کی تفتیش کے فرائض تفویض کیے تھے؟ کس نے ان کے ساتھ ایک غلط معاہدہ کیا تھا؟ کس نے ان کے بیس فیصد کمیشن کا فیصلہ کیا تھا؟ یہ مہم نواز شریف اور دو سو لوگوں کے خلاف شروع کی گئی تھی ان میں سر فہرست نواز شریف اور آصف علی زرداری تھے۔ برسوں کی کاوش ناکام ہونے کے باوجود اس کمپنی کا کارنامہ یہ ہے کہ انھیں نواز شریف کو پینتالیس لاکھ روپے ادا کرنے پڑے کیوں کہ خوش قسمتی سے یہ کمینی ایک ایسے ملک میں ہے جہاں فیصلے سیاستدانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں۔

برطانوی عدالت نے جو فیصلہ نواز شریف کے حق میں دیا، اس سے نواز شریف تو سرخرو ہو گئے مگر اس عرصے میں اس ملک کو جو نقصان پہنچا وہ ناقابل تلافی ہے۔ شاید ہی کسی ملک میں اس طرح ہوتا ہو کہ جو محب وطن ہو ان پر کرپشن کا الزام لگایا جائے، جو مخلص ہوں انھیں غدار کہا جائے، جو ایمان دار ہوں انھیں سر عام ڈاکو کہا جائے۔ یہ ریت، یہ رسم اسی ملک کی ہے، یہ دستور اسی وطن کا ہے۔

ہم نے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کے ذہنوں کو کرپشن کے فلسفے کا مفلوج بنا دیا ہے، ان سے سوچنے، سمجھنے اور تحقیق کی صلاحیتیں چھین لی ہیں، ان کے ذہنوں پر آہنی خود چڑھا دیے ہیں، ان کے سوالات کو قتل کر دیا ہے، انھیں ایک ایسے فلسفے کا گرویدہ بنا دیا ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر، جس میں کوئی حقیقت ہے، نہ کوئی سچ، یہ بس رٹا رٹایا سبق ہے جو ہمیں ایسے ازبر یاد ہو چکا ہے کہ جمہوریت کا نام آتے ہی ہم اس کے خلاف دلائل دینے لگتے ہیں، سیاستدان کا نام آتے ہی ہمارے ذہنوں میں کرپشن کے سکینڈل منڈلانے لگتے ہیں، ایوانوں کا نام آتے ہی ہمارے ذہنوں میں ہلڑ بازی آنے لگتی ہے۔ جمہوریت، سیاستدان اور ایوان وہ نہیں ہیں جن کا درس ہمیں دہائیوں سے دیا گیا ہے۔ جمہوریت اس ملک کی اساس ہے، خمیر ہے۔ سیاستدان اس بنیاد کے محافظ ہیں اور ایوان عوام کے حقوق کا قصر ہیں، ان کی بنیادی ضرورت اور ان کا بنیادی حق ہیں۔

بات پینتالیس لاکھ روپے کی نہیں، براڈ شیٹ کو ہونے والے جرمانے کی نہیں بلکہ اس کرپشن کے بیانیے کی ہے جس میں اس ملک کا ہر سیاست دان پستا رہا ہے۔ براڈ شیٹ کا فیصلہ کرپشن کے اس مسلسل بیانیے کے منہ پر ایک ایسا زناٹے دار تھپڑ ہے کہ جس کی گونج ہمارے انصاف کے ایوانوں میں بھی سنائی دی جانی چاہیے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments