بی بی کی تحقیق: فیس بک پر ایمازون کے جنگلات کی زمین کی غیر قانونی خرید و فروخت کا انکشاف


Felled trees in Mato Grosso state

LeoFFreitas

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ برازیل میں ایمازون کے جنگلات کے کچھ حصوں کو فیس بُک پر غیر قانونی طور پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ برازیل میں جن علاقوں کو تحفظ حاصل ہے ان میں اس کے قومی جنگلات اور وہ زمین شامل ہے جسے یہاں کے قدیمی باشندوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

فیس بک پر شائع ہونے والے اشتہاروں میں زمین کے جن ٹکڑوں یا پلاٹوں کو برائے فروخت بتایا جا رہا ہے ان میں سے کچھ پلاٹ فٹبال کے ایک ہزار میدانوں سے بھی بڑے ہیں۔

اس حوالے سے فیس بُک کا کہنا ہے کہ وہ ’مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے‘ لیکن فیس بُک خود سے اس کاروبار کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم ٹیکنالوجی کی دنیا کی اس بڑی کمپنی کے مطابق ’ہماری کاروباری سائٹ (کسی چیز کے) خریداروں اور فروخت کنندگان سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ قوانین اور ضوابط پر عمل کریں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ایمازون کے جنگلات میں ’بہتے سونے کے دریاؤں‘ کی حقیقت

برازیل: یانومامی افراد جنگل میں زندگی کیسے گزارتے ہیں

سنگتروں کے چھلکوں سے جنگل ہرا بھرا ہو گیا

Trees being burnt and land cleared in the Brazilian Amazon rainforest

Brasil2
ایمازون کے جن جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے، انہیں تباہ کیا جا رہا ہے۔

تاہم ایمازون کی قدیمی آبادیوں میں سے ایک برادری کے نمائندے نے فیس بُک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے مزید اقدامات کرے۔

دوسری جانب اشتہاری کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ برازیل کی حکومت فیس بُک پر پلاٹوں کے خریدو فروخت کو روکنے پر رضامند نہیں ہے۔

قدرتی ماحول کے بچاؤ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم، کننڈے کی سربراہ ایوانیڈے بنڈیرہ کا کہنا ہے کہ ان زمینوں پر قبضہ کرنے والے لوگ خود کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں کہ وہ فیس بُک پر زمین کے غیر قانونی سودے کرتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہو رہے ہیں۔‘

کوئی سرٹیفیکٹ نہیں

فیس بُک پر ان پلاٹوں کی غیر قانونی خرید وفرخت کے بارے میں جاننا اتنا آسان ہے کہ کوئی بھی شخص فیس بُک کی مارکیٹ پلیس پر جا کر اگر پرتگالی زبان میں ’جنگل‘ قدیم مقامی جنگل‘ یا ’عمارتی لکڑی‘ کے الفاظ ٹائپ کرے اور ایمازون کی جنگلات میں کسی جگہ کا انتخاب کرے، تو وہ مذکورہ پلاٹ تلاش کر سکتا ہے۔

مارکیٹ پلیس پر موجود کچھ اشتہاروں میں پلاٹوں کی سیارے سے لی گئی تصاویر اور جی پی ایس پر ان پلاٹوں کا محل وقوع بھی دیا ہوا ہے۔

Cattle near Amazon tributary

مویشیوں کو اکثر ان زمینوں پر چرنے کے لیے لایا جاتا ہے جنہیں برازیل میں تحفظ حاصل ہے

یہ پلاٹ فروخت کرنے والے اکثر لوگ سرعام تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس اس زمین کا کوئی ٹائیٹل یا دستاویز نہیں ہے اور وہ اس زمین کی ملکیت کی جو واحد دستاویز پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ برازیل کے قانون کے مطابق مذکورہ زمین ان کی ہے۔

جنگلات کی اس غیر قانونی خرید وفرخت کے پیچھے برازیل کی مویشی پالنے کی صنعت کارفرما ہے۔

’کوئی خطرہ نہیں‘

برازیل میں جس رفتار پر آج کل جنگلات کی کٹائی کی جا رہی ہے وہ گذشتہ دس برس کی سب سے زیادہ شرح ہے، اور فیس بُک کی مارکیٹ سائٹ وہ جگہ ہے جس کا فائدہ فیبریکیو گیورماری جیسے افراد اٹھا رہے ہیں (ان سرگرمیوں کو ایک خفیہ کیمرے کی مدد سے فلمبند کیا گیا ہے)۔

وہ مرطوب جنگلات کے ایک ٹکڑے کو جلا کر راکھ کر چکے ہیں۔ اسی زمین پر چلتے ہوئے فیبریکیو گیورماری کا کہنا تھا کہ ’یہاں کسی حکومتی اہلکار کے معائنے پر آنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘

Fabricio pointing at a tree in the forest

فیبریکیو مقامی برادریوں کے لیے مخصوص زمین کو فیس بُک پر فروخت کر رہے ہیں

اس ٹکڑے سے غیر قانونی طور پر جنگلات ختم کر کے قابل کاشت بنانے کے بعد انھوں نے اس پلاٹ کی قیمت تین گنا بڑھا کر 35 ہزار ڈالر کر دی ہے۔

فیبریکیو خود کسان نہیں ہیں۔ ان کے پاس شہر میں متوسط درجے کی ایک پکی ملازمت ہے، تاہم ان کی نظر میں یہ ملک کے مرطوب جنگلات میں سرمایہ کاری کا ایک اچھا موقع ہے۔

خفیہ فلمبندی کے بعد بی بی سی نے فیبریکیو سے اس معاملے کی تفتیش کے حوالے سے سوال کرنے کے لیے رابطہ کیا، لیکن انھوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی۔

خفیہ تحقیق

فیس بُک پر شائع ہونے والے اکثر اشتہارات روڈونیو کے علاقے کے متعلق تھے جو کہ برازیل کا وہ صوبہ ہے جہاں جنگلات کی سب سے زیادہ کٹائی ہو چکی ہے۔

معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بی بی سی نے مذکورہ صوبے کے چار ایسے افراد کے ساتھ ملاقات کا بندوبست کیا جو پلاٹ فروخت کر رہے تھے۔ اس ملاقات میں ایک ایسے شخص کو بھی شامل کیا گیا جس نے خود کو کچھ دولت مند سرمایہ کاروں کا وکیل ظاہر کیا۔

Brazil map

ان چار افراد میں سے الوِم سوزا ایلوِس نامی ایک صاحب ایمازون کے قدیمی باشندوں کے لیے مختص اُرو یووا وُوا کے علاقے میں تقریباً 16 ہزار چار سو پاؤنڈ کا ایک پلاٹ فروخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ علاقہ اس قبیلے کے دو سو افراد کا مسکن ہے۔ برازیلی حکومت کے مطابق اس علاقے میں قدیم مقامی باشندوں کے کم از کم پانچ ایسے گروہ بھی رہتے ہیں جن کا باقی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔

لیکن ملاقات کے دوران مسٹر ایلوِس کہنا تھا کہ ’اس علاقے میں (بقول ان کے) کوئی انڈین نہیں رہتے۔ جہاں پر میری زمین واقع ہے، وہ اُس جگہ سے 50 کلومیٹر دور رہتے ہیں۔ میں آپ سے یہ نہیں کہوں گا وہ کبھی بھی اس علاقے میں چلتے پھرتے نظر نہیں آئیں گے۔‘

Bitaté Uru Eu Wau Wau on patrol and pointing an arrow

بیٹاٹے اُرو یووا وُوا کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنی برادری کی زمین کو قبضہ کرنے والے لوگوں ےس محفوظ رکھ سکیں

بی بی سی نے مذکورہ قبیلے کے رہنما بِٹاٹے کو بھی فیس بُک پر لگا ہوا اشتہار دکھایا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ اشتہار میں دکھائی گئی زمین ایک ایسے مقام پر ہے جہاں ان کی برادری کے لوگ شکار، مچھلی پکڑنے اور پھل چننے کے لیے جاتے رہتے ہیں۔

ان کے بقول (اس علاقے میں زمین کی خرید و فروخت) سے ظاہر ہوتا ہے ہمارا کوئی ’خیال اور لحاظ نہیں کیا جا رہا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اِن لوگوں کو نہیں جانتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا مقصد قدیم باشندوں کی زمین سے جنگلات ختم کرنا ہے، ہر اس چیز کو کاٹنا ہے جو کھڑی ہے، ہماری زندگی کو درختوں کی طرح کاٹ دینا ہے۔‘

برادری کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ حکام اس معاملے میں مداخلت کریں۔ انھوں نے فیس بُک پر بھی زور دیا کہ ’سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کے طور پر فیس بُک کو چاہیے کہ وہ خود بھی کارروائی کرے۔

زمین کی حیثیت میں تبدیلی

زمین کی اس غیر قانونی منڈی کے پیچھے ایک اور وجہ اس دھندے میں شامل لوگوں کی یہ امید ہے کہ ان کے پکڑے جانے پر انھیں معافی مل جائے گی۔ مسٹر ایلوِس نے ہمارے سامنے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر سیاستدانوں پر کام کر رہے ہیں کہ وہ انھیں چوری کی زمین کی قانونی ملکیت دلوا دیں۔

’میں آپ کو سچ بتاتا ہوں۔ اگر یہ چیز صدر بولسونارو کے ہوتے ہوئے حل نہیں ہوتی، تو پھر یہ کبھی بھی حل نہیں ہو گی۔‘

زمین پر غیر قانونی قبضہ کرنے کے لیے عموماً جو حکمت عملی اپنائی جاتی ہے اس میں پہلے جنگل کی کٹائی کی جاتی ہے اور پھر سیاستدانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ علاقے کی مخصوص حیثیت (پروٹیکٹِڈ سٹیٹس) ختم کر دیں کیونکہ اب یہ زمین وہ مقصد پورا نہیں کر رہی جس کے لیے اسے خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔

اس کے بعد زمین ہتھیانے والے لوگ حکومت سے مذکورہ زمین پر پلاٹ خرید سکتے ہیں، اور یوں اپنے دعوے کو قانونی شکل دے لیتے ہیں۔

An image of Alvim Souza Alves from undercover filming

ایلوم سوزا ایلوس نے بی بی سی کے خفیہ رپورٹر کو بتایا کہ وہ زمین فروخت کر رہے ہیں لیکن انھوں نے کوئی دستاویز نہیں دکھائیں

مسٹر ایلوِس بی بی سی کے ایک خفیہ رپورٹر کو ایک شخص سے ملوانے بھی لے گئے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کروپیرا ایسوسی ایشن کا رہنما ہے۔ برازیل کی وفاقی پولیس اس گروہ کے بارے میں کہتی ہے کہ یہ زمین پر غیرقانونی طور پر قبضہ کرنے والا وہ گروہ ہے جو خاص طور پر ان علاقوں میں کارروائیاں کرتا ہے جہاں ایمازون کے قدیمی باشندے رہتے ہیں۔

ان دونوں افراد نے ہمارے رپورٹر کو بتایا کہ ملک کے بہت بااثر سیاستدان دارالحکومت براسیلیا میں حکومتی ایجنسیوں کے ساتھ ان کی ملاقات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان افراد کے بقول ان کے بڑے اتحادی کانگریس کے رکن کرنل کرسوسٹومو ہیں جو کہ اسی سوشل لبرل پارٹی کے رکن ہیں، جس کے رکن مسٹر بولسونارو بھی تھے اور پھر سنہ 2019 میں موجودہ صدر نے اپنی الگ جماعت بنا لی تھی۔

جب بی بی سی نے ان سے رابطہ کیا تو کرنل کرسوسٹومو نے اعتراف کیا کہ انھوں نے یہ ملاقات کرانے میں مدد دی تھی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ انھیں معلوم نہیں کہ مذکورہ گروپ زمینوں پر قبضہ کرنے میں ملوث ہے۔

’انھوں نے مجھے نہیں بتایا۔ اگر انھوں نے زمین پر قبضہ کیا ہے تو آئندہ انھیں میری مدد نہیں ملے گی۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا انھیں ملاقات کرانے پر پچھتاوا ہے، تو ان کہنا تھا ’نہیں۔‘

بی بی سی نے اس حوالے سے مسٹر ایلوِس سے بھی رابطہ کیا، لیکن انھوں نے بات کرنے سے معذرت کر لی۔

The Amazon rainforest

Ignacio Palacios
ہماری زمین پر پائے جانے والے نباتات کی دس میں سے ایک قسم ایمازون میں پائی جاتی ہے

اس کے علاوہ بی بی سی نے برازیل کے وزیرِ ماحولیات، مسٹر ریکارڈو سالِس سے بھی رابطہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صدر بولسونارو کی حکومت نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ وہ ماحولیات کے شعبے سمیت کسی بھی قسم کے جرم کو بالکل برداشت نہیں کریں گے۔‘

تاہم موجودہ حکومت نے ملک میں جنگل کی کٹائی کے نگران وفاقی ادارے ایباما کے اس بجٹ میں 40 فیصد کمی کر دی ہے جو ادارے کے ان اہلکاروں پر خرچ ہوتا ہے جن کا کام کسی مقام پر جا کر جنگل کی غیر قانونی کٹائی کو روکنا ہے۔

لیکن مسٹر سالِس کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ایمازون میں قانون کے نفاذ میں مشکل ہو رہی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ جنگل کی کٹائی روکنے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اِسی برس حکومت نے وردے برازیل ٹو کے نام سے ایک آپریشن بھی شروع کیا ہے جس کا مقصد جنگل کی غیر قانونی کٹائی، اسے غیرقانونی طور پر آگ لگانے پر قابو پانا ہے، اور اس کے علاوہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان مشترکہ کوششوں کو فروغ دینا ہے۔‘

تاہم، رونڈونیا میں مقیم وفاقی حکومت کے تفتیش کار رافیل بیولاقیا کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں صورت حال زیادہ خراب ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صورت حال بہت خراب ہو گئی ہے۔ ملک کی انتظامی طاقت ہمارے خلاف کام کر رہی ہے۔ یہ چیز دل توڑ دینے والی ہے۔‘

جہاں تک فیس بُک کا تعلق ہے تو کمپنی کا کہنا ہے کہ زمین کی جو خرید وفرخت ہو رہی ہے اس معاملے کے حوالے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا فیس بُک کے لیے ہہت پیچیدہ بات ہے، اور اس معاملے کو مقامی قانونی اداروں اور دوسرے حکام پر چھوڑ دینا چاہیے۔

فیس بُک کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ اتنا بھی سنجیدہ نہیں کہ مارکیٹ پلیس پر پورے ایمازون کی زمینوں کی خرید وفروخت کو روک دینا چاہیے۔

گذشتہ تیس برس سے رونوڈونیا کی ریاست میں جنگلات کی کٹائی کے خلاف جد وجہد کرنے والی ایوانیڈے بنڈیرا کہتی ہیں کہ وہ امید کھوتی جا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ ایک بہت مشکل لڑائی ہے۔ جنگلات کو یوں مسلسل تباہ اور کم ہوتے دیکھنا، بہت دکھ کی بات ہے۔ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا وقت نہیں آیا جب جنگلوں کو کھڑا رکھنا اتنا محال ہو گیا ہو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp