نمک حرام ولندیزیوں کی عیاری اور کنٹینر میں منشیات


ولندیزی عیار ہیں۔ پاکستانی نمک سے لدا کنٹینر یہ الزام لگا کر پکڑ لیا کہ اس میں 1500 کلو ہیروئن ہے۔ وہ اصل میں گلابی ہمالیائی سالٹ پر قبضہ کرنے کا بہانہ بنا رہے ہیں۔ اگر آپ کو تاریخ سے شغف ہو تو آپ یہ جانتے ہوں گے کہ برطانوی نوآبادیاتی طاقت نے افیمی ہندوستان اور چائے والے چین پر قبضہ کیا تھا اور یوں افیم اور چائے بیچ کر خوب پیسے کمائے تھے۔ جرمن اور فرانسیسی افریقہ پر لٹو تھے اور اسے غلام بنائے کھڑے تھے۔ جبکہ ولندیزیوں کی ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے کئی برس پہلے فیکٹری قائم کرنے کے باوجود اس پر قبضہ کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی بلکہ اس نے انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ پر ہاتھ صاف کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسالوں کی سرزمین تھے۔ سدا کے چٹورے ولندیزیوں نے اپنی ہانڈی اچھی کرنے کے لیے انہیں غلام بنا لیا اور باقی دنیا کو ان کے مسالے بیچ کر اچھا پیسہ بھی بنایا۔

خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کنٹینر کسی جہاز پر رکھا ہوا تھا یا زمین پر کسی جہاز کے پاس تھا۔ کنٹینر اور جہاز کا تعلق بھی تو بہت پکا ہے۔ ایسے میں کنٹینر سے منشیات برآمد ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ پھر پاکستان مصنوعات کے تو ولندیزی ویسے بھی دیوانے ہیں۔

ہالینڈ میں حشیش قانونی طور پر فروخت کی جاتی ہے۔ گئے وقتوں میں جب ایران اور افغانستان پرامن تھے تو دنیا بھر سے خوش باش ہپی قافلوں کی پہلی منزلوں میں سے ایک ہالینڈ ہوتی تھی جہاں سے وہ زاد سفر لے کر سڑک کے راستے ترکی اور ایران سے ہو کر پاکستان پہنچتے تھے۔ یہ ملک انہیں جنت لگتا تھا جہاں اعلیٰ کوالٹی کی لیکن بہت سستی چرس انہیں افلاک کی سیر کروا دیتی تھی۔ بس وہ یہاں قیام کیا کرتے تھے اور نروان پاتے تھے۔ پھر ہندوستان سے ہوتے ہوئے چرس کے آخری سٹاپ نیپال تک جاتے اور وہاں سے ان کا اپنی دنیا میں واپسی کا سفر شروع ہوتا۔

گمان ہے کہ ولندیزی کسٹم والے بھی پارٹی کرنے کی خاطر پاکستانی کنٹینر میں اعلیٰ کوالٹی کی چرس کی طلب میں گئے ہوں گے۔ وہاں جا کر ان کے ارمان بکھر گئے جب چرس کی جگہ انہیں ہیروئن ملی جو وہ منشیات میں شامل کرتے ہیں اور پارٹی میں استعمال نہیں کرتے۔

ایک دوسری وجہ بھی ممکن ہے۔

گزشتہ سال پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ بتا دیا گیا تھا کہ ہمالیہ سالٹ بہت زیادہ مہنگا ہے اور اس کی اتنی قیمت ہے کہ ایک سال میں ہی پاکستان کے تمام قرضے اس سے اتر جائیں گے۔ عیار بھارتی اسے مٹی کے دام پاکستان سے منگوا کر سونے کے دام مغرب میں بیچ دیتے ہیں اور کئی کھرب ڈالر سالانہ پیسہ کماتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ولندیزیوں نے یہی سوچ کر گلابی نمک پر قبضہ کیا ہو کہ یہ تو اربوں ڈالر کا مال ہے، دن پھر جائیں گے ہمارے ملک کے۔ بہرحال انہیں مایوسی ہوئی ہو گی جب اربوں ڈالر کے خالص گلابی نمک کی بجائے انہیں اس میں صرف ساڑھے چار کروڑ یورو کی پندرہ سو کلوگرام ہیروئن ملی۔ انہوں نے جل کر پرچہ کاٹ دیا۔

یہ امکان بھی ہے کہ وہ پاکستانی میڈیا کو فالو کرتے ہوں۔ ہیروئن شیروئن کوئی نہ ہو کنٹینر میں۔ حاسد قسم کے لوگ کنٹینر پر بلاوجہ ہی الزام بھی تو لگا دیتے ہیں منشیات کا۔ انہوں نے اربوں ڈالر کے گلابی ہمالیائی نمک پر قبضہ کرنے کی خاطر اس کے مالکوں پر ویسے ہی ہیروئن ڈال دی ہو گی جیسے کچھ عرصہ قبل رانا ثنا اللہ پر ڈالی گئی تھی۔ اس گمان کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ رانا صاحب کے چھوٹے سے دستی بیگ سے پندرہ کلو ہیروئن برآمد کی گئی ہے جبکہ کنٹینر سے 15 سو کلوگرام۔ کیا نمبر کی مماثلت محض ایک اتفاق ہے؟

یہ بھی عین ممکن ہے کہ نمک کے کنٹینر میں آیوڈین ملے سفید ہمالیائی نمک کا سفوف بھی ہو جسے انہوں نے ہیروئن قرار دے دیا تاکہ پورا کنٹینر ہڑپ کر سکیں۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ پاکستان نے کنٹینر سے اربوں ڈالر کما لیے تو ان کی غلامی سے نجات پا جائے گا۔ یہ مغربی ممالک پاکستان کے خلاف سازشیں بھی تو بہت کرتے ہیں، خدا ان سے بچائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments