دریاے نیلم ، جہلم میں گاد کا مسئلہ اور ملحقہ علاقوں کے عوام پر منفی اثرات



پاکستان میں پانی اور بجلی سے متعلق ادارہ واپڈا کی طرف سے آزاد کشمیر میں بھی آبی ذرائع سے بجلی بنانے کے متعد منصوبے تیار کئیے گئے ہیں، جن سے وافر مقدار میں کم قیمت پن بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو رہی ہے۔ ان منصوبوں کی افادیت ملک کی ترقی کے لیے واضح ہے، لیکن ان منصوبوں کے کچھ مضر اثرات آزاد کشمیر کے ملحقہ علاقوں اور ان کے ماحول پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، یہ مضر اثرات جو اب تک تو مقامی طور پر ہی ماحول کو متاثر کر رہے ہیں، لیکن مستقبل میں یہ اثرات براہ راست ان منصوبوں اور ان کی گنجائش کے لیے خطرے کا باعث بنیں گے۔

مظفرآباد سے بالائی علاقے میں چالیس کلومیٹر دور نوسیری کے مقام پرنیلم جہلم منصوبے کا ان ٹیک ریزروائر تعمیرکیا گیا ہے، اس ذخیرہ کا ڈیزائن اس طرح کیا گیا تھا، کہ دریاے نیلم میں پانی کے ساتھ آنے والی ریت اور سلٹ یعنی گاد، جو اس ریزروائر میں پانی کی رفتار رک جانے یا کم ہو جانے کی وجہ سے تہہ میں بیٹھنا شروع ہو جاتی ہے، اور اس طرح رفتہ رفتہ اس آبی ذخیرہ کی گنجائش میں کمی کا باعث بن جاتی ہے، کو وقتاً فوقتاً وئیر یعنی تعمیر شدہ رکاوٹ کے گیٹ کھول کر دریا کے زیریں جانب خارج کیاجا سکے۔

ابتدائی اندازہ یہ تھا کہ تہہ میں جمع شدہ مٹیریل کو آٹھ سال کے عرصے کے بعد نکاس کرنے کی ضرورت پڑتی، لیکن عملی طور پر ہوا یہ کہ اس دریا کے کیچمنٹ ایریا میں عمومی طور پر پانی کے ساتھ آنے والی ریت اور سلٹ ( چکنی مٹی ) کے علاوہ بھی بہت بڑی مقدار میں لینڈ سلائیڈز اور مختلف قدرتی آفات کلاؤڈ برسٹ وغیرہ کی وجہ سے آنے والا غیر تخمینہ شدہ ملبہ بھی پانی کے ساتھ ریزروائر تک پہنچ کر اس کے قبل از وقت یعنی چار سال سے کم مدت میں ہی، ملبے سے بھر جانے کا باعث بن گیا، اس ملبے کی نکاسی کے لیے طے شدہ اور معیاری طریقہ کار کے مطابق اس ملبے کو بتدریج دریا کے زیریں سمت چھوڑنے کے بجائے بغیر کسی پیشگی اعلان کے اچانک زیریں سمت میں دریا میں آئے ملبے کی نکاسی کر دی گئی، یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل بھارت نے وادی گریز کے بالائی علاقے میں اسی دریا جسے وہاں کشن گنگا کہا جاتا ہے، پر مقبوضہ کشمیر کے سونا مرگ علاقے میں، تعمیر شدہ ایسے ہی ریزروائر سے غیر علانیہ طور پر پانی اور اس میں شامل ریت اور سلٹ کی بڑی مقدار زیریں سمت یعنی پاکستانی علاقے کی طرف چھوڑ دی تھی یہ اضافی ملبے کی بھاری مقدار بھی نوسیری کے آبی ریزروائر میں آ کر سیڈیمنٹس کی شکل میں جھیل کی تہہ میں بیٹھ کر اس کی گنجائش میں بھاری کمی کا باعث بن گئی۔

جب یہاں سے جھیل کی تہہ کی ہنگامی طور پر صفائی کرنے کے لیے گیٹ پوری گنجائش پر کھولے گئے، تو یہ گاد ملا پانی دریاے نیلم کے بہاو میں شامل ہو کر چالیس کلو میٹر دور واقع آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تک آن پہنچا، اور چونکہ مظفر آباد کے ماحول کا انحصار اور پینے کے پانی کا بنیادی ذریعہ یعنی سورس دریاے نیلم ہی ہے، تو اچانک غیر علانیہ طور پر اس گاد اور ریت ملے پانی کی بھاری مقدار میں نکاسی کی وجہ سے واٹر سپلائی سسٹم کے ان ٹیک مقامات اورچینل میں ریت اور گاد بھر جانے کی وجہ سے شہر کی واٹر سپلائی کئی روز تک کے لیے شدید متاثر ہو گئی، اور عوام و صارفین، پانی کی سپلائی شدید طور پر متاثر ہونے کی وجہ سے شدید تکلیف و پریشانی کا شکار ہوئے، اور اس ریت اور گاد ملے پانی کی وجہ سے پینے کے پانی کا ٹریٹمنٹ پلانٹ اور اس کے فلٹر بیڈز بھی بری طرح متاثر ہوئے۔

یہاں سے آگے یہی پانی مقبوضہ کشمیر کی طرف سے آنے والے دریاے جہلم میں شامل ہو کرنیچے منگلا جھیل تک جاتا ہے۔ جس کے اس طرح گاد سے بھر جانے کی وجہ سے حالیہ برسوں میں ڈی سلٹنگ کرنے کے بجائے، آزاد کشمیر کی بہت بڑی آبادی جو اس ڈیم یعنی منگلا ڈیم کے کنارے واقع بستیوں میں میر پورسے لے کر ڈوڈیال تک آباد تھے ان کو اپنے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر کے منگلا ڈیم کی ”اپ ریزنگ“ کی گئی اس طرح آزاد کشمیر کے ان علاقوں کے عوام نے دوسری بار پاکستان کی ترقی اور خوشحالی ے لیے اپنے گھروں، زمینوں اور آباء و اجداد کی قبروں تک کی قربانی دی، پہلی بار انہوں نے منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت اپنے گھربار چھوڑے اور اب اس اپ ریزنگ کی وجہ سے ان کو دوسری بار اپنے گھربار اور املاک کی قربانی دینی پڑی، اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اپ ریزنگ کے منصوبے کے آغاز سے قبل ان متاثرین، سے ان کی بعد آباد کاری کے لیے کئیے گئے وعدے تک پورے نہیں کئیے گئے۔

بہت سے ایسے متاثرین جن کی کئی کئی کنال زمین اور تعمیر شدہ وسیع مکانات اس پراجکٹ کی زد میں آئے ان کو عوض میں انتہائی قلیل معاوضہ اور کنالوں کی ملکیت کے بدلے چند مرلے کے پلاٹ دیے گئے، لیکن ایسے حضرات نسبتاً خوش قسمت ہی نکلے کیونکہ جن متاثرین کی تمام ملکیتی زمینیں اس منصوبے کی زد میں آئیں، ان سے پہلے ان کو رہائش اور آباد کاری کے لیے متبادل زمین دینے کا وعدہ کیا گیا، لیکن منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد ان متاثرین کو انتہائی قلیل معاوضہ جات، جن سے کنالوں کے دیے گئے معاوضہ جات سے کہیں اور ایک مرلہ زمین تک نہیں خریدی جا سکتی، اور نہ ہی ایسے متاثرین کو جن کی تمام ملکیت اس منصوبے کی نظرہو گئی حسب وعدہ کوئی متبادل زمین دی گئی اور ایسے متاثرین کہیں شنوائی نہ ہونے کی وجہ سے گھر بار سے محروم اور دربدر ہیں۔

حکومت کو ایسے متاثرین کے جائز مطالبات کے حل کی طرف مثبت پیش رفت کرنی چاہیے۔ جیسا کہ اس مضمون کے ابتدائی حصے میں اس جھیل یعنی منگلا جھیل کے کیچمنٹ ایریا میں گاد کی بڑی مقدار آنے کے مسئلے کا ذکرکیا گیا، وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ ڈی سلٹنگ کے کسی اور طریقہ پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اگر گاد کی بھاری اور تخمینہ، اندازہ سے بہت زیادہ مقدار اسی طرح جھیل میں مسلسل آتی رہی تو کیا تیسری بار اس ڈیم اور ریزروائر کی اپ ریزنگ کی جائے گی؟

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ معروضی اور حقیقی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بالائی علاقوں یعنی کیچمنٹ ایریا سے ریت، سلٹ یعنی گاد کی مقدار میں کمی اور روک تھام کے لیے موثر حکمت عمل اپنائی جائے اور مناسب و موثر تکنیکی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ اور ایسے منصوبوں سے ماحولیاتی طور پرمتاثرہونے والے علاقوں کے تحفظ کے لیے بروقت ضروری اقدامات اٹھائے جائیں اور ان اقدامات پر عمل درآمد کے لیے مناسب و ضروری وسائل مہیا کئیے جانے چاہئیں۔ ( ظفر محمود وانی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments