شریف کنجاہی۔ جدید پنجابی شاعری کا علمبردار


وہ پنجابی، اردو، فارسی اور انگریزی زبان میں پینتیس کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے قرآن مجید کا ترجمہ پنجابی زبان میں کیاجو دو جلدوں میں شائع ہونے والا ایک شہکارہے۔ ان کی پنجابی شاعری پنجاب یونیورسٹی کی ایم اے پنجابی کے نصاب کا حصہ ہے۔ پنجابی ادب میں ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انھیں پرائڈ آف پرفارمینس اور ستارہ امتیاز سے نوازہ۔ اہالیان شہر گجرات نے انھیں نشان گجرات قرار دیا اور اس ایوارڈ سے انھیں سرفراز کیا۔ عالمی پنجابی کانفرنس نے پنجابی زبان کی ترویج پر انھیں تا حیات کامیابی (لائف اچیومنٹ ایوارڈ ) کا ایوارڈ دیا۔

پروفیسر شریف کنجاہی 13 مئی 1914 کو پنجاب کے ضلع گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے کنجاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدمحترم غلام محی الدین ایک ماہر تعلیم تھے۔ ان کے نانا محمد دین شاہدولہ مسجد گجرات میں خطیب تھے۔ وہ علامہ سر محمد اقبال کے پہلے نکاح کے گواہ بھی تھے۔ پروفیسر صاحب کی ادبی خدمات اور پنجابی زبان کی ترویج کے لئے آپ کی جدوجہد کے بارے میں مختلف مصنفین نے آپ کی شخصیت پر دس کے قریب کتابیں تحریر کی ہیں۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آباہی قصبے میں ہی حاصل کی اور یہیں سے 1930 میں میٹرک کا پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جہلم سے ہائر سیکنڈری کا امتحان پاس کیا۔ 1947 میں انہوں نے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل اور بی اے کا امتحان کیا۔ پھر انہوں نے لاہور سے اساتذہ کے لئے تربیتی کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1954 میں ایم اے اردو اور اور 1956 میں ایم اے فارسی کی ڈگری حاصل کی۔

اس دوران انہوں نے درس وتدریس کا کام جاری رکھا اور مختلف سکولوں میں بطور معلم تعینات رہے۔ 1959 میں گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک ) میں فارسی زبان کے لیکچرر کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج جہلم میں ہو گیا جہاں سے وہ 1973 میں ریٹائر ہوئے۔ 1973 سے 1980 تک انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نئے قائم ہونے والے پنجابی شعبے کے قیام سے لے کر اسے ایک کامیاب شعبہ بنانے تک قابل قدر کام کیا۔ آپ نے 21 جنوری 2007 کو وفات پائی اور آپ کوآپ کی خواہش کے مطابق آپ کے آباہی قصبے کنجاہ میں ایک بزرگ غنیمت کنجاہی کے مزار کے احاطہ میں دفن کیا گیا۔

آپ نے 1930 میں ہی شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ ان دنوں وہ ہندوستانی نیشنل گانگریس کے ہمدرد اور ایک ترقی پسند مصنف کے طور پر جانے پہچانے لگے تھے۔ جب ان کی سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں ان کی یہی وابستگی رکاوٹ بن گئی تو انہوں نے کانگریس کو چھوڑ دیا۔ شاعری کی ابتدا انہوں نے ا یک اردو شاعر کی حیثیت سے کی لیکن پنجابی ہمیشہ سے ان کی پہلی محبت تھی۔ اس دور میں مسلمان ادیب، خاص کر ابتدائی ترقی پسند مصنفین اور شاعروں کے درمیان ان کا تخلیقی تصنیف کے لئے پنجابی کو اپنانا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔

وہ 1930 ء کی دیہائی سے ہی جدید پنجابی شاعری کے علمبرداروں میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کی پنجابی شاعری کا سب سے پہلا مجموعہ ً جگراتے ً سب سے پہلے 1958 میں مشرقی پنجاب میں گور مکھی رسم الخط میں شائع ہوا تھا اور 1965 کے بعد ان کا یہ مجموعہ کلا م شاہ مکھی رسم الخط میں پاکستان میں شائع ہوئی تو اس کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس مجموعہ کلام میں ان کی صرف سینتیس نظمیں شامل ہیں۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ً اوڑک ہندی لو ً کے عنوان سے 1995 میں شائع ہوا۔

ادب کے ایک ادنی سے طالب علم کی حیثیت سے میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ ہمارے پنجابی صوفی شعرا نے بہت مختصرکلام لکھا ہے لیکن انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس کا ایک ایک لفظ موتیوں میں تولنے والا ہے۔ ان سب کے کلام کو ادب میں بھی بہت اعلی مقام حاصل ہے۔ گو کہ شریف کنجاہی کو ہم صوفی شعرا کی صف میں شامل نہیں کرتے بلکہ وہ جدید پنجابی شاعری کے بانیوں میں سے ہیں لیکن پھر بھی ان کاپنجابی کلام کافی مختصر ہونے کے باوجود بہت ہی اعلی ہے۔

ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے صغیر محمد نے بجا طور پر لکھا ہے کہ کنجاہی کی شاعری روایتی قصے کہانیوں اور صوفی روایات سے کوسوں دور ہے۔ ان کی ابتدائی نظموں میں بھی جدید شاعری کے سارے عناصر موجود ہیں۔ انہوں نے سیکولرازم، انفرادیت کے تجربے کا اظہاراپنے ارد گرد معاشرتی اورسیاسی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ ان کی ابتدائی نظموں میں ان کے موجودہ قدرتی نظام سے دوری کے گہرے احساس کا اظہارہوتاہے۔ ضرورت سے زیادہ علامات یا انتہائی جذباتیت سے دبے بغیر ان کی شاعری نسبتاً سیدھے سادھے انداز میں ان کی معاشرتی شعور کا ایک حقیت پسندانہ اور متوازن اظہار ہے۔ انہوں نے پنجابی زبان کی شاعری کے لئے نئی سمت طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے پنجابی شاعروں کے لئے روایتی انداز میں نظمیں لکھنے کو ترک کر کے نئے طریقوں اور تکنیک کے ساتھ تجربہ کرنے کے دروازے کھول دیے۔

جس طرح انہوں نے شاعری میں کیا تھا اسی طرح انہوں نے پنجابی نثرمیں بھی پرانی روایات توڑ دیں۔ علامہ اقبال کے لیکچرز مذہبی افکار کی تعمیرنو کا پنجابی ترجمہ کر کے انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پنجابی زبان بھی انتہائی فلسفیانہ خیالات کو فصاحت سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ انہوں نے تخلیقی طور پر پنجابی الفاظ کے وسیع خزانے کو استعمال کر کے بہت سی نئی اصطلاحیں تیار کیں۔ ان کا ایک اور شہکار بہت ہی اعلی اور رواں پنجابی میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے جس میں انہوں نے پنجابی نثر لکھنے کا ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔ شریف کنجاہی نے ایک ایسے وقت میں اپنی زبان کی خدمت کابوجھ اٹھایا جب زیادہ تر مسلم پنجابیوں نے عام ادبی اور تخلیقی اظہار کے لئے اپنی ہی زبان کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے پنجابی زبان کو اتنے مختلف طریقوں سے تقویت بخشی۔ ان کے اس کردار کو پنجابی ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انہوں نے پنجابی شاعری کے لئے نئی سمت طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور تقسیم کے بعد کے شعرا کے لئے نظم لکھنے کے روایتی انداز سے دور ہونے اور نئے طریقوں اور تکنیکوں سے تجربہ کرنے کے دروازے کھول دیے۔ ان کی ایک نظم ً ایس پنڈ دے کولوں ً اس کی ایک بہت ہی اچھی مثال ہے۔ وہ اپنا دکھ بیان کرتے ہیں کہ ان کے ساتھی چلے گئے ہیں اب گاؤں میں کوئی ان کا انتظار کرنے والا کوئی نہیں رہ گیا۔ موجودہ حالات میں یہ گاؤں سے ہجرت کر کے شہروں میں بسنے والوں کا ایک نوحہ ہے۔

اج اس پنڈ دے میں کولوں لنگھ چلیاں ٭ جتھوں کدے ہلنے توں دل نہیں سی کردا
جتھے مینوں نت پیا رہندہ کوئی کم سی ٭ کم کی سی، سچی گل اے جتھے تیرا دم سی
تیرے دم نال پنڈ حج والی تھاں سی ٭ کڈا سہونا ناں سی
اوہدہ ناں سن کے تے جان پے جاندی سی ٭ دید اوہدی اکھیاں نوں ٹھنڈ اپڑاندی سی
دروں رکھ تک کے تھکیویں لہہ جاندے سن ٭ باہیں مار مار کے اوہ انج پئے بلاندے سن
سرگ دا سواد آوے اوہناں ہیٹھ کھلیاں
اج میرے پیراں نوں نہ کھچ کوئی ہوندی اے ٭ پنڈ ولوں آئی وا پنڈے نوں نہ پونہدی اے
کسے دیاں چاواں میرا راہ نہیں ڈکیا ٭ کوٹھے اتے چڑھ کے تے کسے نہیں تکیا
ککراں دے اولھے ہو کے سبھ توں اکلیاں ٭ اج انجھ پنڈ دے میں کولوں لنگھ چلیاں
جیویں کوئی کسے گلستان کولوں لنگھدا۔

( ترجمہ۔ آج میں اپنے اس گاؤں کے پاس سے گزرکر جا رہا ہوں۔ جہا ں سے کبھی میرا جانے کو جی نہیں کرتا تھا۔ ایک ایسی جگہ جہاں ماضی میں آنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ کام تو کوئی نہیں ہوتا تھا لیکن اصل اس کا عذر تمہاری ذات تھی۔ اس گاؤں کو میں ایک زیارت کا درجہ دیتا تھا۔ اس کا نام کتنا خوبصورت تھا۔ اس کا نام سن کر جسم میں جان اور اس کی دید سے آنکھوں میں ٹھنڈک سی پڑ جاتی تھی۔ دور سے اس کے درختوں کو دیکھ کر پوری طرح تھکن کواتر جاتی۔

ایسا لگتا تھا جیسے ان کی شاخیں مجھے قریب آنے کا اشارہ دے رہی ہوں۔ ان کے سائے تلے کھڑاہونا ایک عجیب مزا دیتا تھا۔ لیکن آج کچھ بھی مجھے ان کی طرف کھینچ نہیں رہا اور نہ ہی مجھے گاؤں سے آنے والی ہوا کی محبت کا لمس محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اب کوئی بھی مجھ سے پیار سے ملنے والا اب یہاں نہیں ہے۔ کوئی بھی چھت پر چڑھ کر میری راہیں نہیں دیکھ رہا ہے۔ کیکر کے درختوں کے پیچھے چھپ کر تنہا میں اس گاؤں سے گزر رہا ہوں گویا یہ قبرستان ہے گاؤں نہیں۔ )

تقسیم ہند تک شریف کنجاہی واحد مسلمان شاعر تھے جنھیں جدید پنجابی شاعر کے طور پر درجہ بند کیا جا سکا ہے۔ شریف کنجاہی نے 1930 کی دیہائی میں اس وقت لکھنا شروع کیا تھا، جب موہن سنگھ نے اپنی شاعری میں سیکولر موضوعات اور ایک نیا انداز متعارف کرایا تھا۔ زیادہ تر مغربی پنجابی نقاد شریف کنجاہی کو موہن سنگھ کے ساتھ جدید پنجابی شاعری کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔ مشرقی پنجاب والے ان کی سادہ بلکہ متانت والی طبیعت کو دیکھتے ہوئے انھیں ایسا نہیں سمجھتے، لیکن حقیقت میں وہ اور موہن سنگھ دونوں ہی جدید پنجابی شاعری کے بانی ہیں۔

مشہور دانشور فخر زمان نے ان کے بارے میں منعقدہ ایک سیمینار میں کہا تھا کہ ہمارا معاشرہ ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کو مناسب درجہ نہیں دے رہا بلکہ وہ سمگلروں، زمینوں پر قبضہ کرنے والوں، کرپٹ سیاستدانوں اور قانون سے بالا تر بیوروکرییٹس کو پسند کرتا ہے۔ منیر نیازی، شریف کنجاہی، احمد ندیم قاسمی اور احمد راہی جیسے ہیرے لوگوں نے ناآسودہ اور دکھی زندگی گزار دی اور کسی نے بھی ایسی قیمتی اورعمدہ جانوں کی فلاح و بہبود کی پرواہ نہیں کی۔

حالانکہ اربوں روپے حکمرانوں کی آسائشوں کے لئے خرچ کیے گئے۔ انہوں نے اس بات پر افسردگی کا اظہار کیا کہ پنجاب کے اس وقت کے وزیر تعلیم جن کاتعلق گجرات سے تھا، انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ مرحوم شاعر نے اپنی ذاتی لائبریری کس تنظیم کے لئے وقف کی ہے۔ شریف کنجاہی مرحوم ایک ترقی پسند شاعر اور ادیب تھے۔ وہ پانچ پانیوں والی سر زمین کی

خوشبو تھے۔ ان کے نظریہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

شریف کنجاہی کی ایک نظم کا نام ہے ً اڈیک ً یہ جنگ عظیم دوم کے تناظرمیں لکھی گئی جب متحدہ ہندوستان خاص کر پنجاب کے ہزاروں نوجوان برطانوی فوج میں بھرتی ہو کر برما اور دوسرے محاذوں پر جرمن اور جاپانی فوج کے خلاف لڑ رہے تھے۔ محاذ جنگ پر گئے ہوئے جوان کی گھر والی کہہ رہی ہے کہ میرا ماہی اور میرے سر کا سائیں لام پر گیا ہوا ہے اور میں یہاں اکیلی اس کی واپسی کا انتظار کر رہی ہوں۔ اب سنا ہے کہ لام (جنگ) ختم ہو گئی ہے اور میرا ماہی واپس آ نے والا ہے، لگتا ہے کہ میری اڈیک ختم ہونے والی ہے۔ اس کیفیت کو کمال لفظوں میں بیان کیا گیا ہے جب گاؤں کی اس مٹیار نے اپنے ماہی اور سر کے سائیں کو جنگ پر جاتے وقت رخصت کیا تھا۔

اج تک مینوں یاد ہے تیرا، ملنا جاندی واری ٭ اکھ وچ سکاں، دل وچ سکاں، لوں لوں دے وچ سکاں
لا لا بلھیاں دے نال بلھیاں، ہکاں دے نال ہکاں ٭ لام تے جاندی واری، جد ونڈیاں سن چھکاں
دو دلاں دے جذبیاں دی اوہ سوڑ، اوہ سوڑ آپ مہاری ٭ اج تک مینوں یاد ہے تیرا، ملنا جاندی واری
ڈونگھے ساہ لے لے کے تے اکھیاں وچ اکھیاں پانا ٭ اکھیاں وچ اکھیاں پاپا کے، تانگھاں نوں ہور جگانا
نکے نکے ہٹکورے بھر بھر دسنی بے قراری ٭ اج تک مینوں یاد ہے تیرا، ملنا جاندی واری
سنیا مک پئیے ہون پینڈے، سنیا مک پئیاں ہین لاماں ٭ آماہی جھب آ، میں منیاں ہویاں کئی سلاماں
نین پکا لئے تیرا راہ تک تک کے اساں غلاماں ٭ آ ماہی ہن بھاری لگدی، اے برہا دی کھاری
اج تک مینوں یاد ہے تیرا، ملنا جاندی واری

(ترجمہ۔ مجھے آج تک تمہارے محاذ جنگ پر جاتے ہوئے تم سے آخری ملاقات یاد ہے جب میری آنکھوں میں اداسی۔ دل میں اداسی اور میرے روم روم میں اداسی تھی۔ رخصت ہوتے سمے ہم ہونٹوں سے ہونٹ اور چھاتی سے چھاتی ملا کے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں کے دلی جذبات اور ان کا بار بار گبھرانا بھی مجھے آج تک یاد ہے۔ وہ ہمارا گہرے سانس لے لے کر آنکھوں سے آنکھیں ملانا اور پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوئے ہوئے جذبات کو جگانا۔ چھوٹے چھوٹے سانس لے کر اپنی بے قراری ظاہر کرنا مجھے آج تک یاد ہے۔ میرے ماہی میرے سائیں اب تو فاصلے سمٹنے والے ہیں، چونکہ سنا ہے کہ جنگ اب ختم ہو گئی ہے۔ اب تم جلدی گھر واپس آ جاؤ میں نے تمہاری سلامت واپسی کے لئے منتیں مان رکھی ہیں۔ تمہاری راہیں دیکھ دیکھ کر اب میرے دیدے تھک گئے ہیں۔ میرے ماہی اب یہ جدائی کا وقت بہت بھاری لگ رہا ہے، اب جلدی گھر آ جاؤ۔ )

پنجاب کے دیہات میں عورتوں کے رنگ عموماً گندمی اور سانولے ہوتے ہیں۔ اس لئے مٹیاروں کے گورے رنگ کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ پنجابی بول چال میں اور شاعرحضرات اپنی محبوبہ کو گوری کہہ کر پکارتے ہیں۔ شریف کنجاہی اپنی نظم ًگوری ً میں گاؤں کی مٹیار سے مخاطب ہو کر پہلے اس کے حسن کی تعریف کرتے ہیں۔ پھر اسے بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ فانی ہے۔ اس دنیا میں کسی نے نہیں رہنا بلکہ کسی کو بھی دوام حاصل نہیں ہے۔ وہ گوری سے مخاطب ہیں اور اس کے حسن کی تعریف میں بہت ہی عام اور سادہ استعارے استعمال کرتے ہیں۔ اس نظم کو اور ان الفاظ کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے گاؤں میں زندگی گزاری ہو۔

تیرل پنڈا پوری توت دی، تیری لگراں ورگی باہناں ٭ تیرے بلھ نے پھل کریر دے، تیرا جوبن ون دی چھاں
ایہہ چھاواں سدا نہ رہنیاں، رہے سدا اوس دا ناں ٭ اسیں رب سببیں گورئیے، آنکلے ایس گراں
اساں جھٹ دوپہر گزارنی، اساں بہتا نہیں پڑا ٭ اساں پنڈ نہ پانے جوگیاں، اساں مل نہ بہنی تھاں
کس پکے پا کے بیٹھنا، ایہہ دنیا اک سراں ٭ تیرے جوبن وانگوں گورئیے، اسیں کل مسافر ہاں

(ترجمہ۔ اس نظم میں وہ دنیا کی بے ثباتی کو بیان کرتے ہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے یہاں سب چلے جائیں گے دائم رہنے والی ذات صرف اس رب کی ہے۔ گورئیے، تیرا بدن توت کے درخت کے تنے جیسا خوبصورت ہے اور تمہاری باہیں اس کی شاخوں جیسی گدرائی ہوئی ہیں۔ تیرے ہونٹ کریر کے پھولوں کی طرح خوبصورت ہیں ( کریر دیہات میں چھوٹی پہاڑیوں پر اگنے والا ایک خودرو پودا ہے جس پر سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے بہت خوبصورت پھول لگتے ہیں ) یہ چھاؤں عارضی ہے صرف اللہ تعالی کا نام ہمیشہ رہنے والا ہے۔

گورئیے ہم تو ایسے ہی کسی سبب سے تمہارے گاؤں میں آنکلے ہیں۔ ہم نے یہاں زیادہ دیرنہیں بیٹھنا بلکہ بہت تھوڑی دیر یہاں گزارنی ہے۔ ہم نے جوگیوں کی طرح یہاں گاؤں نہیں بسانے اور نہ ہی ان جگہوں پر قبضہ کرنا ہے۔ یہ دنیا تو ایک سرائے ہے یہاں کب کسی نے ہمیشہ رہنا ہے۔ جیسے تمہاری جوانی ڈھلنے والی ہے اس طرح ہم بھی یہاں مسافر ہیں۔ )

ان کا کلام پند نصیحت اور دانائی سے بھرپور ہے۔ کدے بخت نہ ملدے مل وے میں انہوں نے پییغام دیا ہے کہ نصیب بازار میں نہیں بکتے ورنہ وہ خرید لیتے۔ اس معاملے میں وہ بے بس ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے اور جس کے ہاتھ میں مقدر کی ڈور ہے اس پر ان کا کوئی بس نہیں چلتا۔

رنگا رنگ نے کپاہ دے پھل وے ٭ کدے بخت نہ وکدے مل وے
لیندے نہ خرید! پر جیویں ہانیاں ٭ کرئیے تے کرئیے، کی وے ہانیاں ٭ کرن نہ دندے اچی سی وے ہانیاں
ہنجھو چندرے نے پیندے ڈلھ وے ٭ کدے بخت نہ وکدے مل وے
ہتھ اپنے چ اپنی ڈور نہیں ٭ جہدے ہتھ وچ، اس تے زور نہیں ٭ لکھی دھر دی تے ہوندی ہور نہیں
لکن ہفئیے پئے گھل گھل ہانیاں ٭ رنگا رنگ نے کپاہ دے پھل ہانیاں
مٹی ڈھوئی کسے چک پھیرے ٭ کسے وگ سیالاں دے چھیڑے ٭ جدوں بخت نہ ہون چنگیرے
راں نیلیاں جاندیاں بھل وے ٭ رنگا رنگ نے کپاہ دے پھل وے ٭ کدے بخت نہ وکدے مل وے

(ترجمہ۔ اس نظم میں وہ یہ سبق دیتے ہیں کہ مقدر کبھی خریدے نہیں جاتے اور نا ہی وہ بازار میں بکتے ہیں۔ کپاس کے پھول بہت خوبصورت رنگوں کے ہیں لیکن نصیب کبھی قیمتاًبکتے نہیں ہیں۔ اگر وہ بکتے ہوتے تو ہم انھیں خرید نہ لیتے مگر افسوس ہم ایسا کر نہیں سکتے۔ ہماری اس بے کسی پر اوپر والاہمیں بولنے بھی نہیں دیتا۔ ہماری آنکھوں سے آنسو بے اختیار نکل آتے ہیں کہ نصیب کبھی قیمتاً بکتے نہیں ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں ہمارے مقدر کی ڈور نہیں ہے اور جس کے ہاتھ میں یہ ڈور ہے اس پر ہمارا بس نہیں چلتا۔

جو ہمارے نصیب میں لکھاگیا ہے وہ بدل نہیں سکتا۔ ہم ایسے ہی انھیں تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ دنیا میں کسی نے مقدر بدلنے کے لئے مٹی ڈھوئی جیسے مہینوال نے سوہنی کے باپ کی خدمت کی۔ کسی نے سیالوں کے جانور چرائے، رانجھے نے ہیر کو حاصل کرنے کے لئے اس کے باپ کی بھینسیں چرائیں۔ جب مقدر میں نہ لکھا ہو تر مرزا صاحباں کو پانے کے بعد بھی کھو دیتا ہے کیونکہ ان تینوں کے مقدر میں جدائی ہی لکھی تھی۔ کپاس کے پھول بہت خوبصورت رنگوں کے ہیں لیکن مقدر کبھی بکتے نہیں ہیں۔ )

آج سے تیس چالیس سال قبل گاؤں اور دیہات میں پانی کا حصول بہت مشکل تھا۔ پنجاب کے دیہات میں اکثرگاؤں سے باہر ایک کنواں ہوتا تھا جہاں سے سارا گاؤں پانی بھر کے لاتا تھا۔ پہاڑی مقامات پر گاؤں سے کچھ دور چشموں سے پانی بھر کے لاتے تھے۔ عموماً دیہات میں عورتیں ہی کنویں سے پانی بھر کر لاتی تھیں۔ ہمارے گاؤں سے باہر پانی کا کنواں تھا جہاں سہہ پہر کو عورتوں کا پانی بھرنے کے لئے ایک جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ پانی بھرنے والی خواتین کو پنہاریاں کہا جاتا تھا۔ گاؤں کی زندگی کا یہ ایک رومانس بھی تھا۔ اس رومانس پر بہت سے گیت، افسانے اور کہانیاں لکھی گئیں۔ گاؤں کی اسی ثقافت کے پس منظر میں لکھی گئی شریف کنجاہی کی ایک بہترین نظم۔

پانی بھرن پنہاریاں، تے ونو ون گھڑے ٭ بھریا اس دا جا نیئیں، جس دا توڑ چڑھے
آہا لج چرکلی اوہو کھوہ دا گھیر ٭ اک بھنے اک بھر لئے، ایہہ لیکھاں دے پھیر
لیکھاں دی ایہہ کھیڈ ہے، جدوں ایہہ دندے ہار ٭ لکھاں سگھڑ سیانیاں، بھنن ادھ وچکار
بھگنے گھٹ گھٹ بنھیاں، تے نوی لیائیاں لج ٭ جس دا بجھنا لکھیا، اس دا جانا بھج
اس دی ڈھاک اج سکھنی، جس نے بھریا کل ٭ اج اوہ مورکھ ہو گئی، کل جس نوں سی ول
تکیا مان کریندیاں، (اساں ) گھاگھے ہتھ پھڑے ٭ بھریا اس دا جانیئیں، جس دا توڑ چڑھے۔

(ترجمہ۔ کنویں پر عورتیں بڑے خوبصورت اور مختلف گھڑے لے کرپانی بھرنے آئی ہیں۔ لیکن پانی بھرنا اسی کا مانیں گے جو پانی کا گھڑا بھر کر گھر تک لے جائے۔ یہ پانی بھرنے والی لج۔ چرکلی اور کنویں کا گھیر ( تھڑا ) ہے۔ کسی کا گھڑاٹوٹ جاتا ہے اور کوئی بھر کرلے جاتی ہے یہ مقدروں کے کھیل ہیں۔ اور جب مقدر ہار جاتے ہیں تو جو بہت ہی سگھڑ بیبیاں ہیں ان کے گھڑے بھی آدھے رستے میں ٹوٹ جاتے ہیں۔ نئی لج لگا کر نیا گھڑا اس سے باندھ کر کنویں میں لٹکاتے ہیں لیکن جس گھڑے کے مقدر میں ٹوٹنا ہی لکھا ہوتا ہے تو ٹوٹ کرہی رہتا ہے۔

کل جس خاتون کا گھڑا بھرا ہوا تھا آج اس کی کمر گھڑے سے خالی ہے۔ کل جو خاتون بہت سیانی گردانی جاتی تھی آج وہ مورکھ ہو گئی ہے کیونکہ آج اس کا گھڑا ٹوٹ گیا ہے۔ ہم نے بہت سی پنہاریوں کواپنے بھرے ہوئے گھڑوں پربہت اتراتے دیکھا ہے لیکن جو بھرا ہوا گھڑا گھر تک لے جائے گی اسی کو ہم اچھا کہیں گے۔ اس نظم میں انہوں نے بہت ہی گہری رمزوں میں باتیں کی ہیں جس کی تشریح کے لئے دفتر درکار ہیں۔ )

ون دا بوٹا۔ گاؤں کے پس منظر میں لکھی ہوئی ان کی ایک بہت ہی خوبصورت اور بہترین نظم ہے۔
میں ون دا سنگھنا بوٹ ٭ ٹھنڈیاں میریاں چھاواں ٭ مٹھیاں میریاں پیلو
وے توں راہیا جاندیا ٭ بکھن بھانیا ماندیا
آجھٹ کو ساہ لے ٭ میریاں پیلو کھا لے ٭ میری چھاویں بہہ لے
میں ون دا سنگھنا بوٹا ٭ ٹھنڈیاں میریاں چھاواں
ایہہ چھاواں چار دیہاڑے ٭ چار دیہاڑے جوبن ٭ مڑ پتراں نے جھڑناں
اج آ کے بہہ لے تھلے ٭ میں ون دا سنگھنا بوٹ ٭ ٹھنڈیاں میریاں چھاواں

( ترجمہ۔ ون پنجاب میں پایا جانے والا ایک درخت ہے جس کی بہت ہی گھنی چھاؤں ہوتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں ون کا ایک بہت ہی گھنا درخت ہوں۔ میری بہت ہی ٹھنڈی چھاؤں ہے۔ میرا پھل پیلو بھی بہت میٹھا ہے۔ تم جو راہی بھوکے بیمار میرے قریب سے گزر کر جا رہے ہو کچھ دیر کے لئے میری چھاؤں میں بیٹھ کر سستا لو میرا پھل پیل کھا لو۔ میں ون کا ایک گھنا درخت ہوں۔ میری بہت ہی ٹھنڈی چھاؤں ہے۔ یمیری یہ چھاؤں چار دن کے لئے ہے۔ یہ جوانی بھی چار دن کی ہے اس کے بعد میرے اوپر خزاں آئے گی اور پت جھڑ جائیں گے۔ آج تم میری چھاؤں کے نیچے بیٹھ لو۔ میں ون کا ایک گھنا درخت ہوں۔ میری بہت ہی ٹھنڈی چھاؤں ہے۔ )

٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments