کیا حج کرنے اور کتاب لکھنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟


تین سال قبل ایک عزیز کے ساتھ ایک جگہ کام کر رہا تھا۔ پیاس محسوس ہوئی، عرض کی کہ سامنے والے گھر کے گھڑے سے پانی پی لوں؟ جواب ملا یہ کسی شیعہ کا گھر ہے، یہاں سے پانی پینا ناجائز ہے، چند ثانیے بعد خود اسے پیاس لگی تو اسی گھڑے سے پانی پینے لگا۔ تب منٹو یاد آیا کہ بھوکے پیٹ کا مذہب روٹی ہوتا ہے۔

تین، چار سال قبل ہی کی بات ہے، میں کسی ہمسائے اور بعید کے ہمسائے اور بغیر ہمسائے کی خیرات نہیں چھوڑتا تھا۔ تب ایک جواری بھی خیرات کرتا تھا۔ اسے بھی میں نہیں چھوڑتا تھا۔ خیرات ہو یا مفت کی سم دونوں کو میں ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ جواری تب خیرات کرتا تھا جب مال و زر ہاتھ لگ جاتا۔ یہ خیرات وہ اپنا مال حلال کرنے کی خاطر کرتا تھا۔ یہ ایک نئی جہت دریافت ہوئی ہے مال کو حلال کرنے کے لئے۔

دیہات میں ساہوکار کی قدر و منزلت قومی اسمبلی کے ارکان کے برابر ہوتی ہے۔ ساہوکار ہر وقت فائدے میں ہوتا ہے۔ چاہے فصل کی بوائی کا وقت ہو یا کٹائی کا ساہوکار اس موقع پہ دن دگنی رات چگنی ترقی و کامرانی حاصل کرتا ہے۔ ساہوکار کسان کو ادھار پہ کھاد و بیج دیتے ہیں اور کٹائی کے موقع پر ’منافع‘ کے ساتھ واپس لیتے ہیں۔

ایک ساہوکار کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وہ تین چار سال تک سود پہ کھاد و بیج سے کسان کو نوازتا یا اس پر تھوپتا رہا۔ پیسے بڑھتے رہے ۔ منافع بخش کاروبار ہوا تو سودی رقم سے وہ حج و عمرہ کرنے پہنچ گیا۔ ساتھ میں دو مولویوں کو بھی لے گیا۔ یہ وہی مولوی تھے جنہوں نے فتویٰ صادر کیا کہ سودی شخص سے لین دین حتیٰ کہ رشتے سے انکار کیا جائے۔ اب وہی مولوی سودی شخص کو پاک کرنے کی غرض سے اس کے ساتھ عمرہ و حج کرنے چلے گئے، اب وہی شخص نماز کے دوران صف اول کا حق دار قرار پاتا ہے۔

یہی صورت حال سیاست دانوں، جرنیلوں، ججوں، وکلاء اور صحافیوں کی ہے، پہلے مال بٹورتے ہیں، دوسرے بٹورنے والوں کو بٹہ لگاتے ہیں۔ مال وصولی کے بعد حلال کرنے کی غرض سے وہ اسی شخص کے خلاف ہو جاتے ہیں، جنہوں نے اس ضمیر فروش کو خریدا ہوتا ہے، اس طرح وہ خود کو پاک باز متعارف کراتے ہیں۔

الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’’لکھتے رہے جنوں کی حکایت‘‘ میں بھی اسی قسم کی ڈنڈی ماری ہے۔

کتاب میں بھٹو کو طاغوت قرار دیتے ہوئے بھٹو کے دور کو ملک کے لئے باعث ننگ قرار دیا گیا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ انہوں نے بھٹو کے دور حکومت کے لوازمات میں گٹار اور ڈھولکی کا ذکر کیا ہے۔ پورے شہر کرائے پہ لینے کا ذکر کیا ہے۔ مگر ڈکٹیٹر ایوب کے پورے ملک پہ قبضے کا ذکر کرنا گوارا سمجھا نہ ہی اس کی زحمت کی۔ بھٹو کا یہ قول کہ جو لوگ میری حکومت کو کمزور اور گرانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے اس رویے پہ ہمالیہ روتا ہے۔ مگر ڈکٹیٹر ایوب کے خلاف کام کرنے والے کو غدار کہنا درست سمجھا۔ فاطمہ جناح کے ووٹ چوری کرنا، غدار کہنا ٹھیک ہے مگر ووٹ چوری کرنے والا مسیحا ہے اور اپنے حق کے لئے لڑنے والی فاطمہ جناح کی مدح سرائی کے لئے کوئی ایک بول منہ سے نہ نکلا۔

چھوٹے بچے اندھیرے سے ڈریں تو کوئی مضائقہ نہیں مگر بڑے جب روشنی سے ڈرنے لگیں تو قوم کی بربادی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ فاطمہ جناح غدار ہے جس نے جمہوریت اور عوام کے لئے جدوجہد کی اور گالیاں برداشت کیں، مگر ایوب محب وطن ہے جس نے بنگالیوں اور بنگلہ دیش کو الگ کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ شیخ عبداللہ کو ’’ کشمیری اور انڈیا جانیں، ہمارا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں، ہماری جان چھوڑو‘‘  کہنے والا محب وطن ہے۔ جنوبی پنجاب کے دریا انڈیا کو دینے والا محب وطن ہے مگر ملک و قوم کو آئین دینے والا غدار۔

قدم علی چور کا تذکرہ اس کتاب میں لکھنا مناسب سمجھا مگر ووٹ چور کی کہانی لکھنا گوارا نہیں کیا۔ ہیروئین کو طوائف بنانے والا تو درست ہے مگر 90 ہزار فوجی دشمن سے چھڑانے والا طاغوت ہے۔ جمہوریت کے لئے پھندے پہ چڑھنے والا ڈکٹیٹر ہے مگر ڈکٹیٹر کے خلاف آواز اٹھانے کرنے والا ننگ وطن۔

الطاف گوہر اور ایس ایم ظفر نے کتاب لکھ کر خود پاک باز ظاہر کرنے کی کوشش کی مگر کیا حج و عمرہ اور کتاب لکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں؟ یہ میرا سوال ہے، جواب کا انتظار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments