دلی فسادات کو ایک سال: مساجد کو آگ لگانے پر پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی؟


دلی پولیس کے مطابق گذشتہ سال یہاں فسادات سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ 53 افراد ہلاک ہوئے جبکہ کئی دکانیں، گھر اور عمارتوں کو نذر آتش کیا گیا۔ پُرتشدد واقعات تین روز تک جاری رہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان واقعات میں 40 مسلمان اور 13 ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد مارے گئے۔

پولیس نے دلی فسادات سے متعلق 752 ایف آئی آر درج کیں۔ ایسے کئی افراد کو گرفتار کیا گیا جو شہریت کے متنازع قانون (این آر سی اور سی اے اے) کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان میں طلبہ اور سماجی کارکنان بھی شامل تھے۔

انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے دلی پولیس کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے پُرتشدد واقعات اور آتش زنی کا مقابلہ کیا۔ لیکن فسادات کے دوران اور بعد میں پولیس کے کردار پر کئی سوال اٹھائے گئے ہیں۔

یہ رپورٹ ان شکایات کے بارے میں ہے جن کی تحقیقات عینی شاہدین اور متاثرین کی کوششوں کے باوجود مکمل نہیں ہو سکی۔ دلی پولیس نے اب تک اس کیس میں ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔

یہ دونوں شکایات مصطفیٰ آباد کی فاروقیہ مسجد اور شیو وہار کی مدینہ مسجد سے متعلق ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

دلی میں مسلمانوں کے گھروں کو کیسے چن چن کر جلایا گیا

دلی فسادات: شاہ رخ کو گرفتار کر لیا گیا

دلی فسادات: سوشل میڈیا ایک مرتبہ پھر جلتی پر تیل کا باعث بنا؟

دہلی فسادات پر اقلیتی کمیشن کی رپورٹ، ’انڈیا میں 89 برس بعد بھی کچھ نہیں بدلا‘

دہلی فسادات

فاروقیہ مسجد میں کیا ہوا؟

ایک سال قبل 25 فروری کو جائے وقوعہ پر موجود افراد کے مطابق ایک مشتعل ہجوم مسجد میں داخل ہوا اور یہاں آتش زنی کی۔ اس کے عقب میں کچھ مقامی خواتین این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہی تھیں۔ ان کے ٹینٹ کو آگ لگا دی گئی تھی۔

مسجد میں سات سے آٹھ افراد کو مارا پیٹا گیا۔ ایک سال گزرنے کے بعد بھی پولیس نے عینی شاہدین اور متاثرہ افراد کی شکایت پر جو کارروائی کی ہے اسے غیر تسلی بخش کہا جا سکتا ہے۔ پولیس نے ان شکایات پر ایف آئی آر بھی درج نہیں کی۔

بی بی سی نے ان افراد کی شکایات کی ایک کاپی وصول کی ہے جن میں متاثرین کے نام خورشید سیفی، فیروز اختر اور حاجی ہاشم علی ہیں۔

چوالیس سالہ فیروز نے یہ شکایت اپریل 2020 کو دائر کی تھی۔ اس پر یہاں کے پولیس سٹیشن کی 21 جولائی 2020 کی مہر ہے، یعنی یہ شکایت موصول ہونے کی منظوری ہو چکی تھی۔ اسے وزارت داخلہ میں بھی وصول کیا جا چکا تھا۔

اس میں لکھا ہے کہ ’25 فروری 2020 کو شام چھ بج کر 30 منٹ پر میں فاروقیہ مسجد پر مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے رُکا۔ ایس ایچ او دیالپور سمیت کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوئے۔ میں نے برجپوری کے رہائشی ارون بسویا کو بھی وہاں دیکھا۔ چاولا جی اور راحل ورمیا، جن کی اپنی دکانیں ہیں، ان کے ہاتھ میں تلوریں، پٹرول بمب اور نیزے تھے۔ انھوں نے ان خواتین پر حملہ کیا جو سی اے اے مخالف مظاہروں میں شامل تھیں۔ اور پھر وہ مسجد کی طرف آئے۔‘

عینی شاہد فیروز نے اپنی شکایت میں لکھا کہ ’ارون اور دیگر مشتعل افراد نے مسجد کے مولوی کو پتھروں اور ڈنڈوں سے پیٹا۔ اور موزن کو اتنی زور سے مارا گیا کہ اس کا جبڑا ٹوٹ گیا۔

’لوہے کے ڈنڈے سے مجھے سر اور ہاتھ پر مارا گیا۔ مشتعل افراد نے مجھے سی اے اے مخالف مظاہرے کے جلتے ہوئے ٹینٹ پر پھینک دیا۔ وہ مجھے مردہ سمجھے تھے لیکن میں کسی طرح زندگی بچا کر نکل گیا۔‘

فیروز اختر پہلے سے معذور تھے اور اب فسادات کے بعد ان کے سر پر 90 ٹانکے لگے تھے۔ ان کے ہاتھ کی انگلیاں اب کام نہیں کرتیں۔

فیروز بطور ایک درزی کام کرتے تھے۔ لیکن اب وہ اپنے ایک کمرے کے گھر میں گذشتہ ایک سال سے بغیر کسی کام کے بیٹھے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شکایت درج ہونے کے بعد کچھ پولیس اہلکاروں نے ان پر شکایت واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا، ان پر اور ان کے بیٹے پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس ڈر سے انھوں نے مصطفیٰ آباد میں اپنا کرائے کا گھر چھوڑ دیا تھا۔

وہ اپنے چھوٹے کمرے میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ’کیا میں اب درزی کا کام ایک ہاتھ سے کر سکتا ہوں؟ انگلیاں حرکت نہیں کر پاتیں۔‘

ان کے کمرے میں ہلکی روشنی داخل ہو رہی ہے۔ اس غم کے باوجود ان کی زندگی میں کچھ سکھ ہے۔ دلی کی حکومت نے انھیں متاثرہ شخص کی حیثیت سے معاوضہ ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے گھر کا چولہا جل رہا ہے۔

ایک دوسرے عینی شاہد کی شکایت

اولڈ مصطفی آباد کے خورشید سیفی اپنی شکایت میں کہتے ہیں کہ ان کے چہرے کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ فاروقیہ مسجد میں پُرتشدد واقعے کے دوران ان کی ایک آنکھ متاثر ہوئی ہے۔ وہ آرکیٹیکٹ (ماہر تعمیرات) ہیں تو اب وہ اپنا کام ایک آنکھ کے ساتھ نہیں کرسکتے۔

مصطفیٰ آباد میں عیدگاہ کے ریلیف کیمپ پر شکایات کے لیے ایک مرکز قائم کیا گیا تھا۔ خورشید نے 15 مارچ کو اپنی شکایت دائر کی۔ ان کی شکایت پر دیالپور پولیس سٹیشن، وزیر اعظم ہیڈ کوارٹر اور وزارت داخلہ کی مہر ہے۔

خورشید نے اپنی شکایت میں لکھا کہ ’25 فروری کو شام 6.30 بجے کے لگ بھگ راحل ورما، ارون بسویا، چاولا جی اور ان کے ساتھیوں نے احتجاج پر بیٹھی خواتین پر حملہ کیا۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے، تلوار، نیزہ اور پٹرول بمب تھے۔ وہاں بھگدڑ مچ گئی، میں مسجد کے گیٹ پر کھڑا تھا، جب کچھ لوگ پولیس کی نیلے رنگ کی وردی پہنے مسجد میں داخل ہو گئے۔ ان لوگوں نے نمازیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ راحل ورما نے بہت سے لوگوں پر فائرنگ کی۔‘

27 فروری 2020 کے دوران جب بی بی سی کے رپورٹرز برجپوری کے اس علاقے میں پہنچے تو پتا چلا کہ پوری مسجد جل گئی ہے۔

دہلی فسادات

پولیس کی اب تک کی کارروائی کیا رہی ہے؟

پولیس نے 26 فروری 2020 کو دیالپور پولیس سٹیشن میں فاروقیہ مسجد میں آتش زنی اور تشدد سے متعلق ایف آئی آر نمبر 64 درج کی تھی، لیکن اسے سب انسپکٹر رام پرکاش نے فون کال کے ذریعے موصول اطلاع کی بنیاد پر درج کی۔

دونوں ہی شکایات کا پولیس ڈائری میں اندراج ہے۔ دونوں شکایت کنندہ نے کچھ لوگوں کے نام بھی بتائے ہیں لیکن وہ نام پولیس ایف آئی آر میں نہیں ہیں۔

ایف آئی آر میں پولیس سب انسپکٹر رام پرکاش کا بیان کچھ یوں ہے: ’25 فروری 2020 کو رات نو بج کر 30 منٹ پر مسجد میں فائرنگ کی کال آئی تھی، جب میں وہاں پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ دیالپور کے ایس ایچ او اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچ چکے ہیں۔ وہاں 1000 سے 1200 افراد کا ہجوم تھا، ہجوم مشتعل تھا، کوئی شور نہیں تھا۔ اس ہجوم میں کچھ خواتین بھی شامل تھیں۔ ہجوم کے ہاتھوں میں ڈنڈے، سلاخیں، ٹاورز تھے۔ فائرنگ کی آواز بھی تھی۔ لوگ سی اے اے مخالف نعرے لگا رہے تھے اور ’دلی پولیس ہائے ہائے‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہاں فاروقیہ مسجد کی توڑ پھوڑ کی جارہی تھی۔‘

دہلی فسادات

واضح رہے کہ پولیس کو فون پر اطلاع ملنے کے ڈھائی گھنٹے بعد اس نے یہ بیان جاری کیا۔ اس ایف آئی آر میں پولیس کا نام نہیں لکھا گیا۔ اس کے مطابق ’وہ لوگ جو سی اے اے مخالف مظاہرے پر بیٹھے تھے، ان میں زیادہ تر مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے مسجد کو نذر آتش کر دیا۔‘

اس معاملے میں پولیس عینی شاہدین کی شکایات پر ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے۔

خورشید اور اختر نہ صرف تشدد کے عینی شاہد ہیں بلکہ وہ خود بھی اس تشدد کا نشانہ بنے۔ اس کے باوجود پولیس نے ان کی شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ایف آئی آر میں ان کی شکایات شامل کی گئیں نہ ان کے بیانات۔

قانون کے تحت اگر کوئی اقدام قابل گرفت یا جرم ہے، تو پولیس ایف آئی آر درج کرنے کی پابند ہے۔ لیکن اس معاملے میں یہ ظاہر نہیں ہوا۔

جب 24 جولائی 2020 کو خورشید سیفی کی پولیس پروٹیکشن درخواست پر سماعت ہو رہی تھی تو تھانہ دیالپور انچارج نے خورشید سیفی کو گواہ نہیں مانا۔

لیکن 12 اکتوبر کو فیروز اختر کی پولیس پروٹیکشن درخواست پر سماعت کرتے ہوئے شمال مشرقی دلی کے ایڈیشنل ڈی سی پی نے کہا کہ ان کی شکایت پر تحقیقات کی گئیں اور ان کے دعوے ’بے بنیاد پائے گئے‘ ۔ لیکن تصدیق کی گئی کہ ایف آئی آر میں پولیس نے فیروز اختر کی گواہی پر یقین کیا۔

فیروز اختر اور خورشید سیفی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پولیس نے تاحال ان کو پوچھ گچھ کے لیے نہیں بلایا ہے۔

گرفتاری اور ضمانت پر رہائی

دہلی فسادات

ایف آئی آر نمبر 64 میں دلی پولیس نے برجپوری کے راجیو اروڑا کو گرفتار کیا، جسے 10 اگست کو کورٹ سے ضمانت ملی تھی۔ راجیو اروڑا چاولا اس دکان کے مالک ہیں جن کے نام اپنی شکایات میں فیروز اور خورشید نے لکھے ہیں۔

پولیس نے عدالت میں کہا کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج صرف شام تک ہے، جس دن یہ واقعہ ہوا تھا۔ لیکن چونکہ یہ ایف آئی آر کال پر مبنی ہے اور اس وقت کی کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب نہیں۔‘

دونوں عینی شاہدین نے واقعے کا وقت ساڑھے چھ بجے بتایا اور حملہ آوروں میں راجیو اروڑا کا نام بھی بتایا گیا، لیکن ان کی گواہی کے بغیر راجیو اروڑا ضمانت پر رہا ہوئے۔

اگر پولیس نے ان دونوں شکایت کنندہ کو بطور گواہ استعمال کیا تو سی سی ٹی وی فوٹیج کی عدم موجودگی میں اس ضمانت پر بھی مقدمہ چلایا جاسکتا تھا۔

عام طور پر ایسے معاملے میں 90 دن کے اندر چارج شیٹ دائر کی جاتی ہے۔ اگر معاملہ یو اے پی اے سیکشن کا ہو تو چارج شیٹ داخل کرنے کی مدت 180 دن یعنی 6 ماہ تک ہو سکتی ہے۔ لیکن یہاں ایف آئی آر نمبر 64/2020 میں ایک سال گزرنے کے بعد بھی کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے۔

دہلی فسادات

دہلی فسادات

اپریل 2021 میں دلی پولیس اس معاملے میں ایکشن ٹیکن رپورٹ یعنی اے ٹی آر درج کرے گی۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد تصویر قدرے واضح ہو گی۔

دلی پولیس کا موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے دیالپور انچارج پولیس سٹیشن سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ بی بی سی نے دلی پولیس کمشنر، دہلی پولیس کے ڈپٹی کمشنر (شمال مشرقی دلی) اور محکمے کے تعلقات عامہ کے افسر سے ان شکایات پر ایف آئی آر کی عدم دستیابی پر جواب طلب کیا ہے، جو تاحال موصول نہیں ہوا۔ جواب ملتے ہی اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا۔

مدینہ مسجد کیس

شمال مشرقی دلی کے علاقے شیو وہار میں فسادات میں سب سے زیادہ جلاؤ گھراؤ ہوا تھا۔ یہاں کی مدینہ مسجد میں آگ لگنے کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔

60 سالہ حاجی ہاشم علی مدینہ مسجد کی انتظامی کمیٹی کے رکن ہیں۔ 26 جون 2020 کو انھوں نے تھانہ کاروال نگر میں مدینہ مسجد میں آتش زنی اور توڑ پھوڑ کی شکایت درج کروائی۔

انھوں نے بتایا کہ 25 فروری کو شام 5:45 سے 6 بجے کے درمیان تقریباً 20 سے 25 افراد نے مدینہ مسجد میں جمع ہونا شروع کیا۔ ’ان میں سے بہت سے لوگ قریب ہی رہائش پذیر تھے، جنھیں میں پہچانتا ہوں۔ اس میں راجہ رام، منوج، شیو کمار، راجو، بھوڈیو عرف پپی، پریم کانت اور دیوان شامل تھے۔‘

لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔

آخر ہاشم علی نے جون کے مہینے میں یہ شکایت کیوں کی؟

اس کے پیچھے ایک دلچسپ حقیقت بھی ہے۔ دراصل ہاشم علی کے پورے گھر میں فسادات ہو چکے تھے۔ یکم مارچ 2020 کو حاجی ہاشم علی نے اپنے گھر کو نذر آتش کرنے کے بارے میں تھانہ کاروال نگر میں شکایت درج کروائی۔

اس میں انھوں نے بتایا کہ ان کا گھر شیو وہار کی گلی نمبر 14 میں ان کی آنکھوں کے سامنے فسادیوں نے جلایا تھا۔ اس شکایت میں انھوں نے مقامی لوگوں کی شناخت کی۔ لیکن پولیس نے ان کی شکایت نریش چند نامی شخص کی ایف آئی آر 72 میں شامل کر دی، یعنی ہاشم علی کی شکایت پر علیحدہ ایف آئی آر نہ بنی۔ ان کو کسی دوسرے شخص کی ایف آئی آر میں شامل کر دیا گیا۔

یہ دونوں املاک کو نذر آتش کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے کے واقعات تھے۔ لیکن نریش چند کی ایف آئی آر میں کسی فسادی کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ دونوں ہی معاملات مختلف املاک کے ضائع ہونے کے بارے میں تھے۔

چار اپریل 2020 کو پولیس نے ہاشم علی کو مصطفیٰ آباد میں واقع اس کے رشتہ دار کے گھر سے گرفتار کیا۔ وہ بھی ایف آئی آر 72 میں، جس میں خود ہاشم علی کے گھر کو نذر آتش کرنے کی شکایت درج کی گئی تھی۔

پولیس نے کہا ہے کہ ہاشم علی سی سی ٹی وی فوٹیج میں لوگوں کو تشدد کے لیے اکساتے نظر آتے ہیں، یعنی ان پر اپنا گھر جلانے کے معاملے میں الزام ہے۔ جب ہاشم علی نے 43 دن کے بعد ضمانت حاصل کی تو انھوں نے جون میں مدینہ مسجد میں تشدد اور آتش زنی کے بارے میں شکایت درج کروائی۔

دہلی فسادات

لیکن اس شکایت کے اندراج کے بعد دو ماہ تک پولیس نے اس پر ایف آئی آر درج نہیں کی۔ تب حارث علی کے وکیل ایم آر شمشاد نے سی آر پی سی 153 (3) کے تحت عدالت میں ایف آئی آر درج کرنے کی استدعا کی۔

عدالت میں پیش کی گئی پولیس کی سٹیٹس رپورٹ کے مطابق ہاشم علی کی مدینہ مسجد کے بارے میں کی گئی شکایت میں نامزد افراد کے خلاف پولیس کو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے۔

پولیس نے یہ بھی کہا کہ ہاشم علی کے گھر کو نذر آتش کرنے کی شکایت نریش چند کی ایف آئی آر میں شامل کر دی گئی ہے، جس میں خود ہاشم علی اب ایک ملزم ہیں۔ اور چونکہ مدینہ مسجد میں تشدد اور آتش زنی کے خلاف شکایت کنندہ نے دعوے کے مطابق کوئی ویڈیو فوٹیج فراہم نہیں کی ہے، لہذا اس شکایت کو ایف آئی آر 72 میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔

یعنی ہاشم علی کے گھر کو نذر آتش کرنے کی شکایت میں نریش چند کی دکان اور کار کو نذر آتش کرنے کی ایف آئی آر میں شامل کیا گیا تھا اور اب پولیس نے اس ایف آئی آر کو بھی مدینہ مسجد واقعے کی رپورٹ بنا دیا۔

یکم فروری 2021 کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ مایوری سنگھ کی عدالت نے کاروال نگر کے ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ وہ پولیس کی بات نہ مانتے ہوئے مدینہ مسجد کے لیے الگ ایف آئی آر درج کریں۔

دہلی فسادات

پولیس کیا کہتی ہے؟

بی بی سی نے کاروال نگر کے ایس ایچ او رام اوتار سے فون پر بات کی اور پوچھا کہ کیا پولیس نے عدالت کی ہدایت کے مطابق ایک سال کے بعد ایف آئی آر درج کی۔

ہمیں اس کا جواب ملا کہ ’چونکہ فسادات کے بعد بہت سی ایف آئی آر درج کی گئیں، لہذا ان کو ایک دوسرے میں شامل کر کے ان کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ ہم یہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ہاشم علی نے جیل سے رہائی کے بعد شکایت کی تھی۔‘

بی بی سی نے اس دعوے پر سوالات پوچھے کہ اگر مدینہ مسجد کے بارے میں پہلے سے ہی ایف آئی آر درج ہے تو پھر پولیس نے اس کے بارے میں عدالت کو کیوں نہیں بتایا جبکہ شکایت کنندہ یہ کہہ رہا تھا کہ ایف آئی آر نہیں ہے۔ کاروال نگر کے سٹیشن انچارج سے یہ بھی پوچھا گیا کہ مسجد مدینہ میں آتش زنی کی تحقیقات میں پولیس کو کیا ملا۔

ان دونوں سوالات پر ، ایس ایچ او نے بھی یہی کہا کہ ’ہاں، ہم نے یہ بات عدالت کو نہیں بتائی۔ لیکن یہ شکایت برقرار نہیں رہے گی۔‘

بی بی سی نے ایک ایف آئی آر موصول کی ہے جس کا حوالہ کاروال نگر کے ایس ایچ او نے دیا۔

دراصل یہ ایف آئی آر 55 ہے جو 26 فروری کو کال کی بنیاد پر ریکارڈ کی گئی تھی۔ لکھا ہے کہ کال کے بعد جب اے ایس آئی موقع پر پہنچا تو مدینہ مسجد کی آگ پر قابو پا لیا گیا۔ ایک شدید ہجوم کے ذریعے یہ آگ لگائی گئی جس میں دونوں گروہوں کے افراد سی اے اے کی حمایت اور مخالفت کررہے تھے۔ شدید ہجوم کی وجہ سے کوئی عینی شاہد نہیں ملا۔

لیکن حاجی ہاشم علی خود کو اس واقعے کا عینی شاہد قرار دے رہے ہیں اور یہاں تک کہ کچھ لوگوں کی شناخت بھی ان کی شکایت میں ہوئی ہے۔ پھر بھی پولیس اسے جرم سمجھ کر اس کو ایف آئی آر میں تبدیل نہیں کر رہی۔ بلکہ اس ایف آئی آر کا حوالہ دے رہی ہے جسے ایک کال کی بنیاد پر درج کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp