کیا چین نے 10 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے؟


چین

چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اُنھوں نے 2012 میں عہدہ سنبھالنے پر 10 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے کا جو عزم کیا تھا، وہ اب پورا ہو گیا ہے۔

مگر چین نے واقعتاً کیا کامیابی حاصل کی ہے؟ ہم نے چین کے ڈیٹا کا موازنہ ورلڈ بینک کے ترتیب دیے گئے غربت کے عالمی اعداد و شمار سے کیا ہے۔

غربت پر چین کے اعداد و شمار

چین میں غریب ایسے کسی شخص کو قرار دیا جاتا ہے جو دیہی علاقے میں رہتا ہو اور روزانہ 2.30 ڈالر سے کم کماتا ہو۔ یہ معیار 2010 میں طے کیا گیا تھا اور اس میں آمدنی کے ساتھ ساتھ رہن سہن، طبی سہولیات اور تعلیم تک رسائی کو بھی دیکھا جاتا ہے۔

چین کے صوبے یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گذشتہ سال جنوری میں جیانگسو صوبے نے اعلان کیا تھا کہ اس کے آٹھ کروڑ رہائشیوں میں سے اب صرف 17 افراد غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ترقی پذیر ممالک چین کے ’قرض کے جال‘ میں

چین: ترقی کی شرح تیس برسوں میں سب سے کم سطح پر

چینی معیشت 2028 میں کیوں امریکہ سے آگے نکل جائے گی؟

چینی حکومت کا قومی معیار ورلڈ بینک کی جانب سے 1.90 ڈالر یومیہ آمدنی کی حد سے کچھ ہی بلند ہے۔

ورلڈ بینک کا ڈیٹا

اعداد و شمار

ان اعداد و شمار کے استعمال سے ہم ورلڈ بینک کی جانب سے تمام ملکوں میں استعمال کی جانے والی بہتر اور معیاری پیمائش کر سکتے ہیں۔

سنہ 1990 میں چین میں 75 کروڑ افراد غربت کی بین الاقوامی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ اس کی آبادی کا دو تہائی حصہ تھا۔

سنہ 2012 تک یہ تعداد نو کروڑ تک آ گئی تھی اور 2016 تک یہ تعداد 72 لاکھ (آبادی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد) رہ گئی تھی۔ ورلڈ بینک کا ڈیٹا اسی سال تک کے لیے دستیاب ہے۔

سو واضح ہے کہ سنہ 2016 میں بھی چین اپنے ہدف کے حصول کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر چین میں 30 سال پہلے آج کے مقابلے میں 74 کروڑ 50 لاکھ لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

ورلڈ بینک کے اعداد و شمار ہمیں موجودہ سال تک کی تصویر نہیں دکھاتے مگر اعداد و شمار چینی حکومت کے اعلان سے مطابقت رکھتے ہیں۔

خطے کے ایک اور ملک ویتنام میں بھی اسی دورانیے میں انتہائی غربت کی شرح میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔

ایک اور بڑے ملک انڈیا کی 22 فیصد آبادی 2011 (تازہ ترین دستیاب ڈیٹا) میں غربت کی بین الاقوامی طور پر طے شدہ لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی۔

برازیل کی 4.4 فیصد آبادی یومیہ 1.90 ڈالر سے کم آمدنی کماتی ہے۔

چین

چین کی تیز رفتار ترقی

چین میں غربت میں تیزی سے کمی ایک طویل عرصے سے مستحکم اقتصادی ترقی کے ساتھ ہوئی ہے۔ زیادہ تر توجہ غریب ترین دیہی علاقوں پر رہی ہے۔

حکومت نے کروڑوں لوگوں کو دور دراز دیہات سے نکال کر اپارٹمنٹ کمپلیکسز میں منتقل کیا ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ عمارتیں قصبوں اور شہروں میں بنائی گئیں مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ پرانے دیہات کے قریب نئے گاؤں بسائے گئے۔ مگر یہ بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ لوگوں کو گھر یا ملازمت تبدیل کرنے میں انتخاب کی آزادی نہیں تھی۔

کچھ کے نزدیک دیہی علاقوں میں وسیع پیمانے پر غربت کی ایک وجہ خود کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیاں تھیں۔

ماہرِ اقتصادیات ڈیوڈ رینی کہتے ہیں: ‘اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ 40 سال میں کچھ انتہائی غیر معمولی ہوا ہے۔’

مگر وہ کہتے ہیں کہ شدید غربت سے لوگوں کو نکالنے میں یہ کامیابی کُلّی طور پر حکومت کی وجہ سے نہیں ہے۔ ان کے مطابق ‘چینی لوگوں نے انتہائی محنت کر کے خود کو غربت سے نکالا ہے اور اس کی کچھ وجہ چیئرمین ماؤ کے بنائی گئی انتہائی بے وقوفانہ اقتصادی پالیسیوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی صورتوں سے بدل دینا ہے۔’

ماؤ ژی تنگ نے سنہ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی تھی اور 1950 کی دہائی میں انھوں نے ملک کی زرعی معیشت کو صنعتی بنانے کی کوشش کی تھی۔

چارٹ

سنہ 1958 میں شروع ہونے والے ان کے پروگرام جائنٹ لیپ فارورڈ میں کسانوں کو مشترکہ دیہی ڈھانچے ‘کمیونز’ کا پابند بنا دیا گیا جس سے دیہی علاقے میں بڑے پیمانے پر لوگ فاقوں کے شکار ہوئے۔

چین نے شدید غربت سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ کام کیا ہے، مگر کیا اسے خود کو بلند معیار کا حامل قرار دینا چاہیے؟

مثال کے طور پر ورلڈ بینک بالائی متوسط آمدنی کے ممالک کے لیے غربت کی لکیر کو بلند سطح رکھتا ہے جس کا مقصد وہاں موجود معاشی حالات کی بہتر عکاسی کرنا ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ معیار یومیہ 5.50 ڈالر آمدنی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق چین اب بالائی متوسط آمدنی والا ملک ہے۔

چین کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی اب بھی اس معیار کے اعتبار سے غربت کی شکار ہے۔ برازیل سے موازنہ کریں تو یہ اِس جنوبی امریکی ملک سے کچھ ہی زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ چین میں غیر مساوی آمدنی کا مسئلہ بھی وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ گذشتہ سال چینی وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نے کہا تھا کہ اب بھی چین میں 60 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی بمشکل 1000 یوآن (154 ڈالر) ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ آمدنی کسی شہر میں ایک کمرہ بھی کرائے پر حاصل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

مگر کسی بھی معیار سے دیکھیں، تو چین نے گذشتہ چند دہائیوں میں کروڑوں لوگوں کو سخت ترین حالاتِ زندگی سے نکالنے میں زبردست پیش رفت کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp