ڈسکے میں جھرلو کا ڈسکو


حالانکہ یہ مقولہ اسٹالن کا نہ ہونے کے باوجود اسٹالن سے ہی منسوب ہے۔ مگر جس کا بھی ہے خوب ہے ’اہم یہ نہیں کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ اہم یہ ہے کہ اس ووٹ کی گنتی کس نے کی۔‘

اس ملک میں کسی بھی انتخاب میں دھاندلی ہونا یا دھاندلی کا الزام لگنا ہرگز نئی بات نہیں ۔انتخاب شفاف ہو کہ غیر شفاف۔ بالاخر سب ہی رو پیٹ کے اس کا نتیجہ قبول کر لیتے ہیں۔

جو قبول نہیں کرتے وہ انصاف کی دہائی دیتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا رخ کرتے ہیں۔ الیکشن ٹریبونل کو ہرگز کسی قسم کی عجلت نہیں ہوتی۔

ٹریبونل اکثر کسی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچنے کے لیے اس قدر غور و فکر کرتا ہے کہ نئے انتخابات سر پہ آ جاتے ہیں اور جس کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے وہ یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ چار دن بعد ٹوٹنے والی اسمبلی میں جا کر حلف اٹھائے یا پھر اگلی اسمبلی کے انتخابات پر دھیان دے۔

اس ملک میں سینکڑوں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔ اگر کسی حلقے میں بہت ہی زیادہ بے قاعدگی دیکھنے میں آئے تو الیکشن کمیشن بادلِ نخواستہ دوبارہ پولنگ کا بھی حکم دے دیتا ہے۔

مگر آج تک بس یہ نہیں ہوا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انتخابی بے قاعدگی یا دھاندلی میں ملوث سرکاری مشینری کو بھی گردن سے پکڑا ہو اور ذمہ دار اہل کاروں کی کھل کے نشان دہی کی ہو۔

اس پس منظر میں نو روز قبل سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے ضمنی انتخابات میں بے قاعدگی اور لاقانونیت کی ذمے داری واضح انداز میں صوبائی انتظامیہ پر ڈالنے اور تادیبی کارروائی کا الیکشن کمیشن کا متفقہ فیصلہ ملکی انتخابی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اس ملک میں پہلی بڑی انتخابی دھاندلی 31 مارچ 1951 کو ہوئی جب پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ افتخار ممدوٹ کی حکومت برطرف کر کے گورنر راج لگایا اور پھر 193 ارکان پر مشتمل پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروائے گئے۔

معزول وزیر اعلیٰ افتخار ممدوٹ اور حسین شہید سہروردی کے سیاسی اتحاد جناح عوامی لیگ کو روکنے کے لیے صوبائی و ضلعی بیوروکریسی کا کھل کے استعمال ہوا۔

اس انتخابی عمل میں پہلی بار جھرلو کی اصطلاح زبان زدِعام ہوئی۔ جس طرح کوئی کہنہ مشق مداری بچہ جمورا کو چادر اوڑھا کر منتر پڑھتا ہوا جھرلو کہلانے والا ڈنڈہ ہوا میں پھیر کر چادر اٹھاتا ہے اور بچہ جمورا غائب ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی انداز میں پاکستان بننے کے بعد پہلے صوبائی انتخابات میں جھرلو پھیر کر مخالفین کے ووٹ غائب کر دیے گئے اور اپنے ووٹ ٹھونس دیے گئے۔

ممدوٹ سہروردی اتحاد کو جھرلو کے ذریعے 32 نشستوں تک محدود کر دیا گیا اور مرکز کے منظورِ نظر میاں ممتاز دولتانہ جھرلو کے بل پر وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔

دورِ ایوبی میں بنیادی جمہوریت اور پھر صدارتی انتخابات میں پولیس اور بیوروکریسی نے بے فکری سے جھرلو کے کمالات دکھائے۔ 1970 کے پارلیمانی انتخابات س قدر سیاسی کشیدگی میں ہوئے کہ جھرلو کے کمالات دکھانے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ البتہ حالات کے جھرلو نے آدھا ملک ہی غائب کر دیا۔

مگر 1977 میں جب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور چاروں صوبائی وزرا اعلیٰ سمیت حکمران پیپلز پارٹی کے 19 رہنما بلامقابلہ منتخب ہو گئے تو جھرلو بڑے پیمانے پر چلنے سے پہلے ہی پکڑا گیا اور پھر پانچ جولائی کو یہی جھرلو بھٹو حکومت پر پھر گیا۔

رفتہ رفتہ انتخابی دھاندلی ہر نئے انتخابی موسم میں ایک آرٹ میں تبدیل ہوتی گئی۔ ہر ہما شما کو دکھائی دینے والے فرسودہ جھرلو کی جگہ پولٹیکل انجینرنگ، پری پول رگنگ، سیاستدانوں کو خفیہ فائلیں دکھا کر کنگز پارٹی میں شامل کرنے کی سائنس، گھر بیٹھے ووٹ ڈالنے کی ہوم ڈلیوری سہولت، مردم شماری میں گھپلے کی بنیاد پر ہونے والی من پسند انتخابی حلقہ بندی اور انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت سازی کے لیے لگنے والی بکرا پیڑھی اور ہارس ٹریڈنگ، پیراشوٹی سیاستدانوں کے لیے نادیدہ انداز میں راستے کی ہمواری سمیت سینکڑوں صاف و شفاف طریقے وجود میں آ گئے۔

آج کے ڈیجیٹل دور میں انتخابی دھاندلی کی سائنس اتنی آگے جا چکی ہے کہ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ، تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ہی سکہ رائج الوقت ہے۔

ایسے دور میں جب ہر ووٹر کیمرے والے انٹرنیٹ موبائل فون سے مسلح ہو، ڈسکہ میں بیوروکریسی اور پولیس کو 70 برس پرانا متروک جھرلو تھما دیا گیا تو پکڑا تو جانا ہی تھا۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ جب کسی کام کے استاد موجود ہوں تو ان سے مشورہ کیے بغیر شاگردوں کو اپنی سیان پتی نہیں دکھانا چاہیے۔

اب جب 18 مارچ کو ڈسکہ میں ازسرِنو پولنگ ہو گی تو ہارنے والا کیا منھ دکھائے گا اور اس منھ سے کیا تاویل پیش کرے گا۔

مجھ جیسوں کی دلچسپی بس وہ منھ دیکھنے کی حد تک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).