گوادر میں کشتی سازی کی صنعت اور مزدوروں کے خدشات


گوادر شہر کا مغربی ساحل مقامی کشتی ساز مزدوروں کا قدرتی صنعتی زون ہے۔ جہاں صدیوں سے ان کے آبا و اجداد کشتی سازی کے پیشے سے وابستہ ہوتے آرہے ہیں مگر اب یہ کشتی ساز مزدور اپنے روزگار اور مقام کے مستقبل سے متعلق پریشان ہیں۔ کشتی سازوں کو مقامی لوگ ”واڑو“ بلاتے ہیں۔

واڑو داد رحمٰن اپنے گھر کے چولہے کے لیے لکڑیوں کے ٹکڑے اور بورے اکٹھا کر رہے ہیں۔ لیکن چند برس پہلے تک داد رحمٰن خود بھی اسی کشتی سازی کی صنعت سے وابستہ تھے مگر اب بقول ان کے ان کی آنکھیں کمزور ہیں اور وہ بڑھاپے کی وجہ سے یہ مشقت کا کام مزید نہیں کر سکتے ہیں۔ داد رحمن کہتے ہیں ’اب میری آنکھیں کمزور ہو چکی ہیں۔ نہ پانی وقت پر آتا ہے اور نہ ہی بجلی، بچوں کے لیے روزگار نہیں ہے وہ ماہی گیری کر کے گزارہ کرتے ہیں۔ ترقی تو ایسے نہیں ہوتی‘ داد رحمٰن حکومتی دعووں اور منصوبوں سے ناخوش ہیں اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا گلہ کرتے ہوئے اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ آئندہ ان کی نسلوں کے لیے یہ مقام (پدی زر ساحل) بھی ممنوعہ ہوگا اور یہ کشتی سازی کا روزگار بھی نہیں رہے گا۔

محمد قاسم بھی ایک کشتی ساز مزدور ہے ان کے ساتھ ان کے بچے بھی یہی مزدوری کرتے ہیں۔ محمد قاسم کی خواہش تھی کہ ان کے بچے پڑھ کر کوئی اور کام کرتے مگر وہ نہیں پڑھے۔ محمد قاسم اب اپنے خدشات کا کھل کر اظہار کرنا نہیں چاہتے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھیں سننے والا کوئی نہیں۔ محمد قاسم سے پوچھنا چاہا کہ اس مقام پر سڑک بننے سے وہ کس قدر متاثر ہوں گے؟ ’ظاہر سی بات ہے متاثر تو ہوں گے مگر بات کرنے کے لیے لیڈر لوگ ہیں ان سے سوال کریں‘ محمد قاسم بات نہیں کرنا چاہتا۔

گوادر کی اس مغربی ساحل پر سڑک کی تعمیر سے یہ مقامی کشتی ساز مزدور کہاں جائیں گے؟ اور ان کے روزگار و مستقبل سے متعلق گوادر ماسٹر پلان میں کیا کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟

اس سوال کے جواب میں ادارہ برائے ترقیات گوادر کے چیف انجنیئر حاجی سید محمد کہتے ہیں کہ ’گوادر ماسٹر پلان میں کشتی سازوں کے لیے کوہ باتیل کے دامن میں ایک فش ہاربر گوادر ماسٹر پلان کا حصہ ہے جس کے بننے کے بعد انھیں وہاں منتقل کیا جائے گا اور اس موجودہ مقام پر سڑک تعمیر ہو گی‘ انجنیئر سید محمد کے مطابق ان کے ادارہ، گوادر ڈیولیپمنٹ اتھارٹی کے پاس کشتی ساز مزدوروں سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں جس سے ان کی صحیح تعداد کا علم ہو سکے مگر ماہی گیر کشتیوں کا ڈیٹا محکمہ فشریز کے پاس موجود ہے جن سے وہ ڈیٹا لیتے ہیں۔

حاجی فیض محمد کو کشتی سازی کی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوئے پینتالیس سال ہوچکے ہیں اور ان کے مطابق تقریباً دو ہزار لوگ اسی پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حاجی فیض محمد کے مطابق انھیں بھی یہی یقین دہانی کی جاچکی ہے کہ ان کے لیے جگہ کا انتظام گوادر ماسٹر پلان کا حصہ ہے مگر گوادر کے سماجی کارکن ناصر رحیم سہرابی اس حوالے سے کچھ خاص مطمئن نہیں ہیں۔ ناصر سہرابی سمجھتے ہیں کہ کشتی سازی صرف ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ گوادر کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے جس سے سینکڑوں خاندان وابستہ ہیں۔

ناصر سہرابی کہتے ہیں ’کشتی سازی کی ہنر یا پیشے سے جتنے بھی لوگ وابستہ ہیں وہ سارے یہاں کے مقامی ہیں اس لیے اس پیشے نے یہاں کی معیشت کو بہت بڑا سہارا دیا ہے۔ تو یہ بات بہت اہم ہے کہ ان کی منتقلی سے یہ لوگ پریشان تو ہوں گے مگر جہاں انھیں منتقل کیا جائے گا کیا وہ مقام ان کے روزگار کو متاثر تو نہیں کرے گا۔ اس لیے بجائے کسی دفتر میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنے کے انھیں ساتھ لے کر منصوبہ سازی کی جانی چاہیے‘

کشتی سازی کے شعبے سے متعلق ابھی تک صوبائی حکومت کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس پیشے سے متعلق بہت سارے ابہام ہیں کہ یہ شعبہ کس ادارے کی براہ راست زیر نگرانی میں آتا ہے؟

ناصر سہرابی کے مطابق چونکہ یہ ایک صنعت ہے تو اسے انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ہونا چاہیے مگر بدقسمتی کے ساتھ ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس حوالے سے چیف انجنیئر گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی حاجی سید محمد کہتے ہیں ’گوادر میں کشتیوں کی رجسٹریشن محکمہ فشریز کے پاس ہے مگر کشتی ساز مزدوروں کی نہیں ہے۔ اگر کام کا آغاز ہوا تو ہم ایسا کچھ کریں گے مگر اس وقت تک ایسا کچھ بھی نہیں ہے‘ ۔

ناصر سہرابی صوبائی حکومت سے متعلق گلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تک نہ تو صوبائی حکومت نے ان کے لیے کسی پیکج کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی اس شعبے کو بڑھانے کے لیے کوئی خاص منصوبہ سازی کی ہے۔ ناصر سہرابی مزید کہتے ہیں کہ ’ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران نے کشتی سازی کی فروغ کے لیے کافی کام کیا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔

حاجی فیض محمد کے مطابق اوسطا ایک بڑی لانچ ایک کروڑ دس لاکھ روپے سے لے کر ایک کروڑ بیس، پچیس لاکھ تک اور ایک کشتی پینتالیس لاکھ تک تیار ہوتی ہے جس پر روزانہ کم از کم چھ مزدور کام کرتے ہیں اور ایک کشتی چھ مہینے سے سال تک کے دورانیے میں مکمل ہوتی ہے۔ حاجی فیض کے مطابق وہ اب اس انتظار میں ہیں کہ جب جگہ بنے گی تو تب وہ وہاں منتقل ہوں گے تاکہ ان کا روزگار جاری رہ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments